اردو اور عام آدمی پارٹی کی نظریاتی دھند - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-05

اردو اور عام آدمی پارٹی کی نظریاتی دھند

دہلی میں اردو کا ایشو کئی معنوں میں اہم ہے۔ مگر اس کے ساتھ بھی کانگریس نے وہی سوتیلا سلوک کیا جو ان مسائل کے ساتھ کیا جو متوسط طبقے سے تعلق نہیں رکھتے تھے چنانچہ دہلی میں شیلا ڈکشت کی پارٹی بن کر رہ گئی تھی اور اردو میں متوسط طبقے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کے باوجود کہ تقسیم ہند کے بعد اردو متعدد تنازعات میں گھر گئی اور ملک کی اکثریتی آبادی ہی نہیں خود مرکزی اور ریاستی حکومتیں بھی اردو مخالف مہم میں شامل ہوگئیں۔ دہلی کے خلقیے کی تشکیل چونکہ سینکڑوں برس کی تہذیبی تاریخ کے متعدد دھاروں سے ہوئی تھی، اس لئے، یہاں اردو مختلف سطحوں پر بغیر کسی مذہبی امتیاز کے زندہ رہی خصوصاً دہلی والوں کی زندگی میں۔ تقسیم سے اردو اور دہلی کی ثقافت کا رشتہ کچھ کمزور تو ہوا ہے مگر منقطع نہیں ہوا۔ شیلا ڈکشت خود کو "دلی والا" کہتی تھیں مگر اردو کو دہلی میں جتنا نقصان ان کے دور حکومت میں پہنچا، اس کا ازالہ ہونا مشکل ہی ہے۔ دہلی کے اسکولوں میں اردو تعلیم کا نظام پوری طرح تباہ کردیا گیا۔ دہلی میں غیر اردو میڈیم کے کسی بھی اسکول میں اردو مادری زبان والے بچوں کیلئے اردو کو پہلی زبان کے طورپر پڑھنے کے مواقع موجود نہیں ہیں، جو ان کاآئینی حق ہے۔ اس دوران اردو میڈیم کے نئے اسکول تو کھلنے بند ہی ہوگئے اردو اساتذہ بھی تباہ حال ہوئے ہیں۔ ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن دہلی کے زیر انتظام اسکولوں میں اساتذہ کی بڑی تعداد کو حکومت دہلی نے بندھوا مزدور بناکر رکھ دیا، جن کا تقرر دہلی اردو اکادمی کے ذریعے کرایاگیا، جو نہ صرف ضابطے کی خلاف ورزی ہے بلکہ پندرہ برس بعد بھی یہ اساتذہ Contractual Labour کے طورپر برسرکار ہیں، جنہیں سال میں صرف دس ماہ کی تنخواہ ملتی ہے اور ان کی تنخواہیں دوسری زبانیں پڑھانے والے اساتذہ سے بھی بہت کم ہیں۔ حکومت دہلی نے سب سے زیادہ خلط مبحث اردو کو دوسری سرکاری زبان بناکر کیا۔ دہلی جیسی ریاست میں، جہاں انتظامی ڈھانچہ بہت پیچیدہ ہے اور مرکزی حکومت کے متعدد دفاتر میں نیز بلدیاتی نظام میں این ڈی ایم سی اور دہلی چھاؤنی بورڈ دہلی حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، اردو کو دوسری سرکاری زبان اک درجہ کسی کام کا نہ ہوا۔ اکثر اردو والوں کو یہ نہیں معلوم کہ دوسری سرکاری زبان کا درجہ صرف ایکٹ میں درج کئے گئے ان مقاصد کیلئے ہوتاہے، جن میں دفتری امور مثلاً اردو میں خط و کتابت، درخواستیں دینا، سڑکوں ک ے نام اور دفتروں میں نام کی تختیاں وغیرہ اور اس سے تعلیم کے کسی معاملے کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دہلی میں اردو کو دوسری زبان بنائے جانے کا جو نوٹیفکیشن 2 جولائی 2003ء کو The Delhi Offical Language Act,200, Act 8 of 2003 جاری ہوا۔ اس میں واضح طورپر درج ہے۔ کہ دہلی حکومت کے دفاتر میں درخواستوں ش کی اردو اور پنجابی میں وصولیابی اور ان کا جواب، اہم سرکاری قوانین و ضوابط کا اردو میں ترجمہ نیز ان ہی دو زبانوں میں سرکاری عمارات کے سائن بورڈ اور سرکاری دفاتر اور سڑکوں کے نام درج ہوں گے۔ اس کے علاوہ دہلی حکومت کے اہم اشتہارات اردو اور پنجابی میں اخبارات میں شائع کرائے جائیں گے۔ اسمبلی کی روداد بھی ضرورت کے مطابق نہ کہ لازماً اردو اور پنجابی میں بھی بہ یک وقت ریکارڈ اور اجرا کی جائے گی۔ ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ دہلی میں اردو کو پنجابی کے ساتھ دوسری سرکاری زبان بنانے کا قانون کیسا لچر ہے اور اس پر بھی ستم یہ کہ اس کے نفاد کی کوئی کوشش گزشتہ دس برس میں نہ ہوئی۔ عام آدمی پارٹی نے اپنے منشور میں اردو کے تعلق سے جو کچھ کہا ہے وہ پارٹی کی تمام تر نیک نیتی کے باوجود مبہم ہے اور جس کی واحد وجہہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے عام آدمی پارٹی کو اردو کے ذیل میں مشورہ دیا، اردو کے معاملات ان کے فہم سے بالاتر تھے۔ پارٹی کا منشور کہتا ہے کہ دہلی میں اردو( اور پنجابی بھی) کو دوسری زبان کا درجہ دیا گیا مگر اسے واقعاً اب لاگو کرایا جائے گا۔ ایسے لچر اور بے دانت کے قانون کا اگر نفاذ ہو بھی جائے تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ یہ بات بار بار دہرانے کی ہے کہ جب تک تعلیمی نظام میں ہر سطح پر اردو شامل نہ ہوگی تب تک اردو عوام کی زبان نہ بن سکے گی۔ انگریزی کی تمام کامیابی اس کے نصاب میں طاقتور شمولیت ہے، جس کی وجہہ سے نہ صرف ہندوستان کی قومی زندگی میں عملاً انگریزی کی بادشاہت ہے بلکہ ملک کے کلچر کا تعین بھی انگریزی ہی کرتی ہے۔ اردو بھی جب تک نصاب کاحصہ تھی، اس نے نہ صرف قومی کلچرکے مختلف دھاروں کی تشکیل کی بلکہ قومی زندگی میں بھی اس کی فیصلہ کن حیثیت تھی۔ منشور کی دفعہ 32.1 میں دوسری زبان کا فقرہ استعمال کیا گیا ہے جو قطعی مبہم ہے۔ ’دوسری زبان، اور دوسری سرکاری زبان میں تکنیکی طورپر زمین آسمان کا فرق ہے۔ دہلی میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیاتھا نہ کہ دوسری زبان کا۔ منشور کی اگلی شق یعنی 32.2 بھی پوری طرح افراط و تفریط کا شکار ہے، جس کی ابتداء اس نہایت مہمل اعلانیے سے ہوتی ہے کہ "دہلی کے سرکاری اسکولوں میں اردو اور پنجابی کو ایک متبادل زبان کے طورپر پڑھایا جائے گا"۔ دہلی میں پانچ طرح کے اسکول ہیں:۔ (۱) ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن، حکومت دہلی کے زیر انتظام چلنے والے اسکول،۔ (۲) MCD کے زیر انتظام اسکول۔ (۳) NDMC کے زیر انتظام اسکول اور (۴) دہلی چھاؤنی بورڈ کے زیر انتظام اسکول اور (۵) رضا کار اداروں کے زیر انتظام اسکول۔ آخر الذکر کے علاوہ تمام اسکول مختلف نوعیت کے سرکاری اسکولوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دہلی سرکار ان تمام اسکولوں میں اردو زبان کی تعلیم کا انتظام ایک اختیاری نہ کہ متبادل جیسا کہ منشور میں درج ہے، مضمون کے طورپر کرے گی یا پھر اس اعلان کا انطباق صرف ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن کے اسکولوں پر ہوگا؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر عام آدمی پارٹی ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن دہلی حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں کی بات کررہی ہے، تو پھر اردو مادری زبان والے بچوں کو صرف ایک اختیاری زبان کے طورپر اردو کی تعلیم کیوں دی جائے؟ آئین ہند کی دفعہ 350A پرائمری سطح پر بچے کی مادری زبان میں تعلیم کی گارنٹی دیتی ہے۔ کیا عام آدمی پارٹی اس آئینی گارنتی سے اردو مادری زبان والے بچوں کو محروم رکھے گی؟ اس کے علاوہ سہ لسانی فارمولے کے مطابق بچے اپنی مادری زبان کا مطالعہ پہلی اور لازمی زبان کے طورر کریں گے۔ منشور کی شق پہلی اور لازمی زبان کے اہم ترین ایشوز پر بالکل خاموش ہے۔ منشور کی تیسری شق 32.2 امبیڈکر اور اندر پرستھ یونیورسٹی میں اردو کی تعلیم و تدریس اور تحقیق کیلئے گنجائش فراہم کرنے کی بات کرتی ہے جو مستحسن تو ہے مگر جب تک دہلی میں پرائمری اور سکینڈری سطح پر اردو تعلیم کا معقول نظم نہ ہوگا، یونیوسٹیوں میں درس و تدریس اور تحقیق کار عبث کے سوا کچھ نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کے منشور کی اردو اور پنجابی سے متعلق شقیں، پنجابی اور اردوکو سچ مچ دوسری زبان کا درجہ دیں گی، کے عنوان کے تحت درج ہیں جس کا نمبر ترتیب 32 ہے اور جو صفحہ 46پر آدھے صفحے پر محیط ہیں۔ اس عنوان کے تحت شق نمبر 32.4 میں یہ دلچسپ بیان بھی ہے کہ سنسکرت کی پڑھائی اور اس کی ریسرچ کی ہمت افزائی کی جائے گی۔ سنسکرت ایک قدم زبان ہے اور اس کا ادب وقیع تر، جس کے فروغ کیلئے دہلی حکومت کو یقیناًتمام ضروری اقدامات کرنے چاہیں مگر اردو اور پنجابی کے ذیل میں اس کا ذکر نہ صرف بے تکا ہے بلکہ سنکسرت سے متعلق محض ایک سطر کی موجودگی سنسکرت کے ساتھ سراسر زیادتی بھی ہے۔ پنجابی اور اردو کے ذیل کی آخری شق زبان کی شاعری کی طرح ہے، جس سے یہ قطعی پتہ نہیں چلتا کہ عام آدمی پارٹی دہلی کے قدیم کلچر کے تحفظ اور اب یہاں موجود مختلف زبانوں کے فروغ کیلئے کیا ٹھوس اقدام کرے گی۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اردو سے متعلق عام آدمی پارٹی کے منشور میں جو کچھ درج ہے وہ نہایت ہی مہمل اور ان لوگوں کے ذہنی دیوالیہ پن کا غماز ہے، جنہوں نے اس ذیل میں عام آدمی پارٹی کو مشورے دئیے۔ عام آدمی پارٹی کی نیک نیتی پر کسی کو شبہ نہیں۔ مگر پارٹی جن حالات سے گزری اور گذشتہ گیارہ مہینوں میں جس طرح کی دشنام طرازیاں اسے جھیلنی پڑیں،اس کے باوجود بھی اس نے کم ازکم اپنا منشور تیار کرنے میں پوری نیک نیتی کا ثبوت دیا، بھلے ہی اردو کے سیاق و سباق میں اس کے مشیروں کے اناڑی پن نے اس اہم حصے کے متن کو بے ربط اور بھونڈا کردیا۔ امید ہے کہ اردو کے ذیل میں عام آدمی پارٹی جو اب دہلی کی حکمراں ہے، پارٹی اور حکومت دونوں کی سطح پر اردو کے مسائل کی پیچیدگی کو سمجھنے کی کوشش کرے گی اور انہیں اسی انداز میں حل کرے گی، جس طرح وہ دیگر مسائل کے حل کی طرف توجہ کررہی ہے۔

Issue of URDU in the ideology of Aam Admi Party

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں