عصر حاضر میں مطالعہ سیرت النبی کی معنویت اور جہت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-15

عصر حاضر میں مطالعہ سیرت النبی کی معنویت اور جہت

prophet mohammad
سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ نیک نمونہ عمل ہے، قرآن کریم نے اس کو مسلمانوں کیلئے "اسوہ حسنہ" قرار دیا ہے۔ یہ لفظ اپنے معنی کی وسعتوں کے اعتبار سے انسانی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے، اسے زندگی کے کسی ایک شعبے کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح لفظ"سیرت" بھی اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے، بعض حلقوں میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ سیرت یا مطالعہ سیرت کا صرف یہ مطلب ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو تاریخی تسلسل اور جغرافیائی پس منظر میں سمجھ لیا جائے، آپ کی ولادت کب ہوئی، کس طرح آپ کی پرورش ہوئی، پہلی وحی کب آئی، ابتداء میں کون کون لوگ ایمان کی دولت سے مشرف ہوئے، ہجرت کب ہوئی اور اس کے اسباب کیا تھے،کون سا غزوہ کس سن میں ہوا، اور اس کا نتیجہ کیا رہا، آپ کے بعض حسی معجزات ، آپ کی بعثت اور دعوت کے نتیجے میں دنیا میں کیا سیاسی ، جغرافیائی اور معاشی انقلابات آئے وغیرہ وغیرہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارے امور بھی "سیرت" کا حصہ ہیں مگر "سیرت" کے معنی اور مفہوم کی حدیں صرف یہیں آکر ختم نہیں ہوجاتیں بلکہ سیرت کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ سیرت قرآنی تعلیمات کی عملی تصویر کا نام ہے، اسلامی عقائد، اسلامی اعمال، اسلامی اخلاق، فرد کا نظام حیات، معاشرے کے مسائل، بین الاقوامی تعلقات و روابط، امن کے تقاضے، جنگی قوانین وغیرہ یہ سب کے سب سیرت کے موضوعات میں شامل ہیں۔ اور سیرت طیبہ کو اسی وسیع مفہوم میں "اسوہ حسنہ" میں قرار دیا گیا ہے، اگر سیرت پاک صرف واقعات کو تاریخی تسلسل سے بیان کرنے کا نام ہو، اور اس میں انسانی ہدایت کے گوشوں پر گفتگو نہ ہوتو پھر وہ "اسوہ حسنہ" یا بہترین نمونہ کیسے ہوگی؟ تاریخ میں اپنے اپنے میدانوں میں عظیم اور عبقری شخصیات کی سوانح اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح کو یہی بنیادی نقطہ جدا کردیتا ہے، تاریخ انسانی کی دیگر عظیم شخصیات کی سوانح انسان کی تاریخی معلومات میں اضافے کا سبب بنتی ہے لیکن سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس زندگی کا مطالعہ انسان کو آفاقی سعادتوں سے بہرہ مند کرتا ہے۔ سیرت کے اس وسیع مفہوم کے تناظر میں اگر مطالعہ سیرت کی معنویت اور اہمیت پر غور کیا جائے تو مندرجہ ذیل حقائق سامنے آتے ہیں۔ سیرت طیبہ قرآن فہمی کا ایک بنیادی اور ناگزیر ماخذ ہے، قرآن کریم کی بے شمار آیات ایسی ہیں جن کے حقیقی معانی تک رسائی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ان آیات سے متعلق سیرت طیبہ کے بعض گوشوں سے پردہ نہ اٹھایا جائے، قرآن کریم اور صاحب قرآن میں باہم ایسا رشتہ اور تعل ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے صاحب قرآن کے اخلاق ہی کو قرآن فرمایا ہے۔ قرآن فہمی کے سلسلہ میں مطالعہ سیرت کی اہمیت اس بات سے بھی اجاگر ہوتی ہے کہ قرآن کی سورتوں کی تقسیم صاحب قرآن کی حیات مبارکہ کے دو مختلف ادوار کے احوال سے کی گئی ہے یعنی جو سورتیں زمانہ قیام مکہ میں نازل ہوئی ہیں ان کو مکی کہا جاتا ہے اور جو سورتیں مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہیں ان کو ہم مدنی کہتے ہیں۔ مطالعہ سیرت کے نتیجے میں انسان اپنے سامنے انسانیت کاملہ کی ایک ایسی اعلیٰ مثال دیکھتا ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں مکمل نظر آتی ہے، آپ انسانی زندگی کے جس پہلو اور جس گوشے کو بھی سامنے رکھ کر سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو ہر پہلو سے انسانی زندگی کا کمال آپ کو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آئے گا۔ یہی وجہہ ہے کہ مغرب کے مشہور اسکالر مائیکل ہارٹ نے جب دنیا کے سو عظیم انسانوں پر کتاب لکھی تو عیسائی ہونے کے باوجود اس نے اعلیٰ انسانی اقدار کے حوالے سے سب سے پہلے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا۔ مطالعہ سیرت کے نتیجے میں اسلام کے بنیادی عقائد، احکام، اخلاق اور ہر اس چیز کی معرفت ہوتی ہے جس کی ایک مسلمان کو اپنی زندگی میں ضرورت ہے۔ یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہہ سے اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو ہمارے لئے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ انسان کی ہدایت و رہنمائی اور ملتوں اور قوموں کی اصلاح احوال اورتربیت کیلئے ایک داعی، مبلغ، مصلح اور رہنما کو دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کے میدان میں جس جس چیز کی ضرورت ہوسکتی ہے اس کا ایک پورا نصاب سیرت میں موجودہے۔ دعوت و تبیغ چونکہ یہ منصب نبوت و رسالت کا حصہ ہے اس لئے اس میدان مے اس وقت تک کامیابی نہیں مل سکتی جب تک دعوت و تبلیغ منہاج نبوی کے مطابق نہ ہو۔ لہذا کامیاب تبلیغ و دعوت کیلئے سیرت کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ مطالعہ سیرت کی معنویت اور اہمیت کے بعد اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ عصر حاضر میں مطالعہ سیرت کی جہت کیا ہونا چاہئے۔ آج اسلام کو دہشت گرد مذہب کے طورپر دیکھا جارہا ہے اور (معاذ اللہ) رسول اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر دہشت گردی کا الزام لگایا جارہا ہے، کسی نے کہاکہ اسامہ کو اس کے حالات نے دہشت گرد نہیں بتایا ہے بلکہ اس کو اس کے مذہب اور اس کے رسول کی تعلیمات نے آتنک وادی بنایا ہے۔ ان حالات میں مطالعہ سیرت کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے لیکن آج مطالعہ سیرت کی جہت ذرا مختلف ہونا چاہئے۔ جہاں تک سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر (معاذ اﷲً) دہشت گردی کے الزام کا رسول اہے تو یہ ان مستشرقین کا چھوڑا ہوا شوشہ ہے جن کے دلوں میں اسلام اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بغض و عناد بھرا ہوا تھا۔ مگر اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ خود ہم نے عملی طورپر دنیا کے سامنے اپنے مذہب ار اپنے رسول کو کس طرح پیش کیا ہے؟ شاید آپ کو یہ سن کر حیرت ہوکہ سیرت طیبہ پر جو سب سے پہلی کتاب لکھی گئی ہے اس کا نام "مغازی رسول" ہے یعنی حضور کے جنگی کارنامے۔ ہمارے یہاں بارہ ربیع الاول کے جلوس میں دو داڑھی والے حضرت عربی لباس میں ملبوس ہاتھ میں (لکڑی) کی تلواریں لئے ہوئے جلوس کے آگے آگے چلتے ہیں ممکن ہے یہ منظر اور جگہ بھی دیکھنے کو ملتا ہو، میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ آخر پیغمبر امن و سلامتی کے جشن ولادت کے موقع پر ہم ہاتھ میں تلوار لے کر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ حالانکہ اگر اعلان نبوت سے لے کر پیغام دینا چاہتے ہیں؟ حالانکہ اگر اعلان نبوت سے لے کر آپ کے وصال تک 23 سالہ زندگی کو مختلف کاموں پر تقسیم کرکے دیکھا جائے تو بڑے حیرت انگیزانکشافات ہوں گے۔ مثال کے طورپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے غزوات میں شرکت فرمائی اگر ان سب کو جمع کرکے ان کے گھنٹے اور دن بنالئے جائیں تو معلوم ہوگا کہ ان 23برسوں میں صرف 6 ماہ ایسے ہیں جن میں آپ کے ہاتھ میں تلوار ہے، گویا ساڑھے بائیں سال میں آپ یا تو لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف فرمارہے ہیں یا پھر غریبوں اور مسکینوں کو مال تقسیم فرمارہے ہیں، یا لوگوں کے درمیان مساوات قائم فرمارہے ہیں، کبھی غلاموں، مزدوروں اور یتیموں کے ساتھ حسن سلوک فرمارہے ہیں اور اپنے صحابہ کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم فرمارہے ہیں۔ کبھی آپ عورتوں اور بیواؤں کے حقوق کے سلسلہ میں لوگوں کو متنبہ فرمارہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اب اگر آپ ان 6ماہ (جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تلوار ہے) سے ان ساڑھے بائیس سال کا موازنہ کریں تو ایک نئی دنیا کی سیر ہوگی۔ یہاں یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ ان چھ مہینوں میں بھی آپ نے لوگوں کو ظلم و زیادتی سے بچانے کیلئے ار فتنہ و فساد رفع کرکے امن کے قیام کیلے تلوار اٹھائی ہے۔ آج کے بدلتے ہوئے حالات میں ضرورت ہے کہ سیرت طیبہ کے ان ساڑھے بائیس برسوں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جائے۔ سیرت طیبہ سے متعلق ہمارے خطابات ہوں یا مضامین و مقالات ان میں عموماً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات یا آخرت میں آپ کی شفاعت اور اللہ کے نزدیک آپ کے مقام رفیع کا بیان ہماری توجہ کا مرکز ہوا کرتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان امور کے بیان سے ہمارے ایمان بالرسول میں تازگی اور پختگی کا سامان ہوتاہے، مگر ساتھ ہی ہمیں آج کے بدلتے حالات میں زمانے کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے سیرت طیبنہ کے ان گوشوں پر روشنی ڈالنا بھی ضروری ہے جن میں فرد کی اصلاح اور ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کی سمت سفر کا آغاز کیا جاسکے۔ آج مطالعہ سیرت کی جہت کے تعین میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے ان گوشوں کو تحریراً، تقریراً اور عملاً سامنے لانے کی ضرورت ہے جن کا براہ راست تعلق انسان کی ہدایت و رہنمائی سے ہے، آپ کا اخلاق، صبر و رضا، قناعت و توکل، دشمنوں سے آپ کا حسن سلوک، مصیبت زدہ اور آفت رسیدہ انسانوں پر آپ کی شفقت و نوازش،غیر مسلموں کے ساتھ آپ کا حسن معاملہ وغیرہ تاکہ ایک طرف تو ہم اپنی قوم کے افراد کیلئے آپ کی زندگی کو "اسوہ حسنہ" یا بہترین نمونہ کے طورپر پیش کرسکیں، جس پر عمل کرکے ہم اعلیٰ انسانی اقدار سے متصف ہوکر ابدی سعادتوں سے بہرہ مند ہوں، ار دوسری طرف ہم دوسری اقوام کے سامنے اپنے رسول کا صحیح تعارف کرواسکیں جس سے اسلام کی دعوت اور غیر مسلموں میں تبلیغ اسلام کے راستے ہموار ہوں۔ آج اسلام دشمن میڈیا کی طرف سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو صرف دو چیزیں دی ہیں ایک تلوار اور دوسری چار شادیوں کی اجازت، اس مکروہ پروپگنڈہ کے جواب میں ہمیں مثبت طریقوں سے غیر مسلموں تک سیرت طیبہ کے اخلاقی و روحانی اور آفاقی پہلوؤں کو پہنچانے کی ضرورت ہے۔


The spiritual necessity of study of Prophet's seerat

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں