ماہ ربیع الاول اور مطالعہ سیرت النبی کی اہمیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-15

ماہ ربیع الاول اور مطالعہ سیرت النبی کی اہمیت

seerat-un-nabi
ماہ ربیع الاول کو پیغمبر اسلام 'سرکار دو جہاں رحمت اللعالمین حضرت محمد ﷺ کی ذات بابرکت کے ساتھ خاص مناسبت ہے۔و ہ اس طرح کہ اس ماہ مبارک میں آپﷺ کی ولادت با برکت ہوئی جو اس سر زمین کا سب سے بڑا واقعہ ہوا۔ اور اسی ماہ میں آپ ﷺ نے اس دنیا سے پردہ فرمایا۔جو اس دنیا والوں کے لئے سب سے بڑا حادثہ رہا۔ ماہ ربیع الاول میں میلاد النبیﷺ کی مناسبت سے مسلمان عموماً محافل میلا د مقرر کرتے ہیں۔اور حضور اکرم ﷺ کی سیرت پاک کے مختلف پہلوؤں کو اجاگرکیا جاتا ہے۔اور ہونا بھی یہی چاہئے کہ اس ماہ کو سیرت پاک کے بیان اور اسے عام کرنے میں استعمال کیا جائے۔ایک ایسی زمانے میں جب کہ یہودی سازش کے تحت مسلمان ٹی وی انٹرنیٹ اور سیل فون کے ذریعے موسیقی اور رقص و سرور میں ڈوب رہے ہیں اور اپنے مذہب اور نبی ﷺ کی سیرت سے غفلت برت رہے ہیں۔ انہیں نبیﷺ کی سیرت یاد دلانے اور اسے اپنی زندگی میں لاتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بنانے کے قابل بنانا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ اس ماہ میں خصوصیت سے مسلمان میلاد النبی ﷺ کے جلسے منعقد کرتے ہیں اور لوگ بھی ان محافل میں عام طور پر بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ اس لئے ان مواقع کو غنیمت جان کر اس کفر و الحاد اور بے دینی کے دور میں سیرت پاک ﷺ کے مختلف گوشوں کو مسلمانوں تک پہونچانا چاہئے۔ حضور اکرم ﷺ کی ولادت با سعادت سے قبل ساری دنیا میں عموماً اور عرب علاقوں میں خصوصاً جہالت کی انتہا تھی اور عرب لوگ اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ اس بات پر کہ ایک قبیلے کا اونٹ دوسرے قبیلے کے اونٹ سے پہلے تالاب سے پانی پی لیا دو قبائل میں کئی سال تک جنگ و جدال رہتا تھا۔ایسے کفر و جہالت کے دور میں اللہ تعالیٰ نے رحمت اللعالمین ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کے63سال اور نبوت کے عہدے پر سرفراز ہونے کے صرف 23سال میں اللہ کے فضل سے ایسی محنت کی کہ اپنی بچیوں کو زندہ دفن کردینے والی جاہل قوم ایسی باکردار ہوگئی کہ غیر ایمان والے اپنی جوان بچیوں کو تحفظ کی خاطر صحابہؓ کے گھر میں چھوڑجانے کو غلط نہیں سمجھتے تھے۔اور انصاف کا یہ عالم کہ حضرت عمر کے دور میں شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے اور شیر میں یہ مجال نہیں تھی کہ وہ بکری پر حملہ کرتا۔ اندھیری رات میں ماں بچی سے کہتی کہ دودھ میں پانی ملادے خلیفہ تو نہیں دیکھ رہے ہیں تو ایمان کی طاقت سے سرشار بچی کہتی ہے کہ ماں امیر المومنین نہ دیکھیں تو کیا ہوا میرا تمہار اور امیر المومنین کا رب تو ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اور میں کیسے دودھ میں پانی ملانے والا دھوکے کا کام کر سکتی ہوں۔ یہ وہ حالات تھے جوحضور اکرم ﷺ کی دعوت کے بعد عام مسلمانوں کے تھے لیکن زمانہ گذرنے کے ساتھ شیطان نے اپنا کام کرنا شروع کردیا۔ لوگ دین اور اسلام کی تعلیمات سے دور ہونے لگے۔ اور مسلمان جن کی آدھی دنیا پر حکومت تھی۔ آہستہ آہستہ زوال پذیر ہونے لگے۔ اور آج دین سے دور مسلمانوں کا یہ عالم ہے کہ کوئی ان پر بھروسہ کرنے تیار نہیں کوئی ان کے قول کو سچا نہیں مانتا۔ کوئی انہیں ملازم رکھنے تیار نہیں۔ اور مسلمان دنیا کہ ہر شعبے میں ٹھوکر کھا رہے ہیں۔ ایسے زوال آمادہ دور میں مسلمانوں کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کا واحد حل یہی ہے کہ وہ مخبر صادق حضرت محمد ﷺ کی سنتوں کو اپنی زندگی میں لائیں۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھا م لیں۔ اور کفر و الحاد ترک کریں۔ لیکن دنیا اور مادہ پرستی کی دعوت اس قدر عام ہے کہ دین غالب ہونے کے بجائے مغلوب ہورہا ہے۔ مسلمان کو پتہ ہی نہیں کہ اس کی پیدائیش سے موت تک زندگی کے ہر لمجے' ہر موڑ اور ہر منزل پر اللہ کا حکم کیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کا مبارک طریقہ کیا ہے۔ اللہ نے قران کریم کی قیامت تک حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کرم اور فضل کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے خلوت اور جلوت غرض زندگی کے ہر پہلو کو سیرت پاک اور سنت نبوی ﷺ کے طریقو ں کو قران و حدیث میں محفوظ کردیا۔حضور اکرم ﷺ کی سیرت پاک کے کئی پہلو ہیں جن کا اعادہ اس ماہ میں خصوصیت سے اور زندگی بھرحسب ضرورت ہونا ضروری ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے اخلاق حسنہ'سماجی زندگی 249گھریلو زندگی:ازواج مطہرات کے ساتھ روابط'سیاسی زندگی'دین اسلام کی دعوت'غزوات کے دوران عمل'کفار کے ساتھ ظرز عمل'طب نبوی ﷺ اور پیدائیش سے لے کر موت تک انسانی زندگی کے ہر پہلو پر آپ ﷺ کی سیرت پاک انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔حضور اکرم ﷺ کی سیرت پاک کا ایک روشن ستارہ آپﷺ کے مبارک اخلاق ہیں۔سورہ قلم کی آیت نمبر 4 میں اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ"و انک لعلی خلق عظیم(اور آپ کے اخلاق بہت اعلیٰ ہیں)سارا قران ہی آپ ﷺ کا اخلاق ہے۔انسانی زندگی عمل سے عبارت ہے۔ انفرادی طور پرانسان کی سیرت اس کے اخلاق و کردار سے ظاہر ہوتی ہے اور اجتماعی طور پر معاشر ت 'تہذیب و تمدن اور بین الاقوامی تعلقات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔زندگی کے ان انفرادی اور اجتماعی دو دائروں میں اگر زندگی مثالی گذرے تو وہ اللہ کی مرضی اور حضوراکرم ﷺ کی سیرت پاک کے مطابق ہوگی۔ اور اللہ کے ہاں پسندیدہ ہوگی۔ دنیا کے انسانوں کو مثالی شخصیت کی تلاش تھی اور وہ مثالی شخصیت حضور اکرم ﷺ ہیں جن کے اخلاق سب سے افضل و اعلیٰ ہیں۔جنہوں نے انسانیت کی اعلیٰ و ارفع مثالیں پیش کیں۔ ایک خاتون مسلسل آپ ﷺ کی ذات اقدس پر کچرا ڈالتی تھی ۔ اس خاتون سے آپﷺ نے بہتر معاملہ فرمایا۔ تو وہ قبولیت اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئی۔حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس سراپا اعلیٰ اخلاق و کردار کی مالک تھی اور اس روئے زمین پر آپﷺ سے ذیادہ کسی اور نے بہتر انسانی اخلاق کی مثال پیش نہیں کی۔ واقعہ معراج آپﷺ کی سیرت میں چمکتا ایک درخشاں ستارہ ہے۔ اس واقعہ کی تصدیق پر حضرت علیؓ کو صدیق کا لقب ملا۔ قران شریف آپﷺ کا ایسا عظیم معجزہ ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔ دیگر انبیا علیہ السلا م کو ملنے والے معجزے ان کی حیات میں رہے لیکن آپﷺ کا معجزہ قران کریم قیامت تک باقی رہے گا۔ سیرت النبی ﷺ کا ایک اہم پہلو معاشرتی اور تمدنی زندگی ہے۔ آپ ﷺ نے واضح کردیا کہ نکاح سنت ہے اس سنت کو اپنی عفت کو بچانے اور نسل انسانی کو بڑھانے کے لئے اختیار کیا جائے۔اگر کسی میں نکاح کی گنجائیش نہ ہو تو اس سے کہا گیا کہ وہ ذیادہ سے ذیادہ روزے رکھا کرے تاکہ اس کی نفسانی خواہشات پر قابو پایا جاسکے۔ نکاح کے لئے لڑکی میں دینداری اور حسب نسب دیکھنے کے لئے کہا گیا۔ اللہ کے رسول ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ نکاح کو آسان بناؤ تاکہ زنا مشکل ہوجائے۔شادی کے ایک مقصد جیسا کہ کہا گیا حصول اولاد ہے۔ چنانچہ بچوں کے بارے میں آپﷺ کی سنت یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کے کلمات کہے جائیں ساتویں دن بچے کا عقیقہ کیا جائے بال نکالے جائیں اور اس کا اچھا سا اسلامی نام رکھا جائے۔ لڑکا ہو تو اس کی ختنہ کی جائے ۔ بچہ جب بات کرنے لگے تو اسے پہلے کلمہ سکھایا جائے۔ جب اس کی تعلیم کا مرحلہ در پیش ہو تو اس کی دینی تعلیم کا اہتمام کیا جائے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم لازمی ہے۔ بچہ جب سات سال کا ہو تو اسے نماز کی ترغیب دی جائے اور جب وہ بالغ ہو تو اس پر نماز کے لئے سختی کی جائے۔اس کی بہتر تربیت کی جائے۔ اللہ کے رسول نے جوان بچوں کا جلد نکاح کردینے کی ترغیب دی ہے۔ آپﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ مسلمانوں کو تین کاموں میں جلدی کرنی چاہئے۔ایک جب نماز کا وقت ہو تو فوری نماز اد ا کی جائے۔ دوسرے جب اولاد جوان ہو تو اس کی فوری شادی کی جائے۔ تیسرے جب کسی کی موت واقع ہو تو اسے فوری دفن کرنے کا اہتمام کیا جائے۔اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو کھانے پینے'لباس'رہن سہن'والدین'رشتہ داروں 'پڑوسیوں'غیر مسلموں اور دیگر انسانوں کے ساتھ برتاؤ کے حقوق سکھائے۔ لوگوں کو دین کی دعوت پیش کرنے اور مسلمانوں کو دین پر عمل کرنے کی ترغیب دی۔ آپ ﷺ کی سیرت پاک کا منشاء یہی ہے کہ ساری دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ لوگ شیطان کے طریقے پر چلنے کے بجائے اللہ کے حکم کے تابع رہیں۔آج مسلمانوں کا یہ عالم ہے کہ امت کا بیشتر طبقہ آپ ﷺ کے حالات زندگی اور سیرت کے روشن پہلوؤں سے واقف نہیں۔ لوگوں کو دنیا والوں کے حالات اچھے اور برے کی خبر ہے لیکن نہیں معلوم تو آقاﷺ کے حالات نہیں معلوم۔ یہ نہیں معلوم کے آقا نے زندگی میں کبھی دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اور ہر لمحہ امت مسلمہ کی فکر کرتے رہے کہ کیسے یہ امت کامیاب ہوجائے اور اس امت کا بیڑا پار ہوجائے۔ معراج کے موقع پر آپﷺ نے نمازوں میں تخفیف کرائی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ امت پانچ نمازیں پڑھے گی تو اسے پچاس نمازوں کو ثواب ملے گا۔ آپﷺ کو معراج کی سعادت نصیب ہوئی اللہ سے ہم کلامی کا شرف ملا تو آ پ ﷺ کی امت کو یہ انعام ملا کہ اگر آپﷺ کا امتی نماز پڑھتا ہے تو وہ ایسا ہے جیسے اللہ کے دربار میں کھڑا ہے اور اللہ سے بات کر رہا ہے۔ یہ نماز کے حوالے سے امت محمدیہ ﷺ کو ملنے والا ایسا انعام ہے جو دیگر امتوں کو نہیں ملا۔ چنانچہ اس بات کی ضرورت ہے کہ میلاالنبی ﷺ کی محافل اور جلسوں میں آپﷺ کی سیرت کے تمام گوشوں کو منظر عام پر لایا جائے اور امت کو اس بات پر راغب کرایا جائے کہ امت نبی ﷺکی نام لیوا بھی ہو اور نبی ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا بھی۔ اللہ کی مدد کے وعدے زبانی دعووں سے نہیں بلکہ عمل سے ہیں۔ جنگ بدر میں 313نہتے صحابہؓ کو اللہ کی مدد ایمان اور عمل صالح کی بدولت ملی تھی۔ آج مسلمان سمجھتے ہیں کہ انہیں بغیر عمل کے صرف عشق نبی ﷺ کے زبانی دعووں سے اللہ کی مدد ملے گی۔ یہ اللہ کی عادت نہیں ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے اللہ کی مدد کے طلب گار ہوں اور نبی ﷺ کو سنتوں سے اپنی زندگی کو آراستہ کریں۔میلاد النبی ﷺ کا یہی پیغام ہونا چاہئے۔

***
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ کالج نظام آباد
موبائل : 00919247191548
ڈاکٹر اسلم فاروقی

The importance of study of Seerat-un-Nabi. Article: Dr. Aslam Faroqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں