اردو کو اسکولی نصاب میں جگہ ضرور ملے گی - جئے للیتا کی یقین دہانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-14

اردو کو اسکولی نصاب میں جگہ ضرور ملے گی - جئے للیتا کی یقین دہانی

تمل پڑھنا ہمارا فرض ہے ،لیکن مادری زبان پڑھنا ہمارا حق ہے " یہ بات لسانی اقلیتی فورم تمل ناڈو کے صدر ڈاکٹر سی ۔ ایم ۔کے ریڈی نے یہاں نیو کالج میں منعقدہ ایک مشاعرہ میں اپنے خطاب کے دوران کہی۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں 13اقلیتی زبانیں ہیں لیکن ان میں چار زبانیں بہت ہی اہم ہیں جو تلگو ،اردو ،ملیالم ،اور کنڑا زبانیں ہیں ۔یہ چار زبانیں اس لئے بھی اہم ہیں کہ یہاں کی آبادی کا پچیس سے تیس فیصد یہی زبانیں بولتے ہیں ۔ تمل ناڈو میں 2006تک تو صورت حال ٹھیک تھی اور سبھی لسانی اقلیتوں کو ان کی بات یہ ہوئی کہ 2006میں لازمی تمل لیرننگ ایکٹ نافذکیا گیا اوراس کے بعد 2010میں سمیچرکلوی کا نفاذکرتے ہوئے اسکولی نصاب سے تمام اقلیتی زبانوں کو نکال کر ان کی جگہ صرف تمل ناڈو کا پڑھنا لازمی قرار دیتے ہوئے جبرا تمل زبان کو طلباء پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مادری زبانوں کو پڑھنا اختیاری قرار دیا گیا ہے ، اور اختیاری قرار دینے کی صورت میں کوئی بھی اسے پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہوگا ۔ داکٹر ریڈی نے مزید بتایا کہ اس سلسلہ میں انہوں نے گورنر سے بات چیت کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ وزیر اعلی سے ملاقات کا وقت لے کر دیں تاکہ ایک وفد وزیر اعلی سے مل کر انہیں لسانی اقلیتوں کی پریشانیوں سے آگاہ کرسکے ۔ چنانچہ عزت مآب گورنر روسیا نے ملاقات کا انتظام کروایا اور لسانی اقلیتی فورم کے ایک وفدنے جس میں داکٹر ریڈی بھی موجود تھے ملاقات کی ۔ اس وفد نے وزیر اعلی جئے للیتا کو صورت حال سے آگاہ کیا کہ اسکولوں میں اقلیتی زبانیں نصاب کا حصہ نہیں ہیں ۔ اور انہیں نکال کر ان کی جگہ صرف تمل زبان کو دی گئی ہے ۔ ڈاکٹر ریڈی نے بتایا کہ جئے للیتا نے یہ سن کر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اقلیتی زبانوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سلسلہ میں ضرور بہت جلد کوئی اعلان کرینگی۔ ڈاکٹر ریڈی نے امید ظاہر کی ہے کہ انشاء اللہ مارچ میں اقلیتی زبانوں کے تعلق سے ضرور کوئی اعلان حکومت تمل ناڈو کی جانب سے کیا جائے گا ۔ ڈاکٹر ریڈی نے اس بات پر اپنی خوشی اور حیرت کا اظہار کیا کہ رات کے اس حصہ میں (اس وقت رات کے گیارہ بج چکے تھے ) اتنی زیادہ تعداد میں اردو دان طبقہ اس ہال میں "اردو" کے نام پر جمع ہوا ہے کہ پورا ہال بھر گیا ہے ۔ ایک لٹریری پروگرام کے لئے اتنی زیادہ تعداد میں لوگوں کو جمع ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ زبان کتنی پیاری ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل انہوں نے کسی بھی لٹریری پروگرام میں رات کے اس وقت اتنے لوگ نہیں دیکھے ۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ وہ مارچ کے ماہ میں اقلیتی زبانوں کا ایک بہت بڑا پروگرام نہرو اسٹڈیم میں منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں وزیر اعلی اور گورنر دونوں کو شرکت کی دعوت دی جائے گی اور اس پروگرام میں بھی ہم اپنی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مطالبات پیش کرینگے ۔ اگادی کے موقع پر یہ پروگرام کیا جائے گا اور ہمیں امید ہے کہ اس وقت جئے للیتا کوئی اعلان ضرور کرینگی ۔ قبل ازیں اے ۔محمد اشرف نے اپنے صدراتی خطاب میں کہا کہ مشاعروں کی ان محفلوں کا انعقاد اس لئے نہیں ہوتا ہے کہ ہم محض چند گھنٹوں کے لئے تفریح کا سامان مہیا کرسکیں بلکہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ ان مشاعروں کے ذریعہ اردو زبان کی ترقی وترویح ہوسکے ۔ ان مشاعروں میں دور دور سے شعراء کرام کو بلایا جاتا ہے تاکہ ہم اس زبان کو زندہ رکھ سکیں اور ہماری نئی نسل ہماری تہذیب اور ثقافت سے واقف ہوسکے ۔ انہوں نے ڈاکٹر ریڈی کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ریڈی مسلسل اس تعلق سے کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی بھی طرح مادری زبانوں کو اسکولی نصاب میں دوبارہ شامل کیا جاسکے ۔ اس کے لئے وہ کئی برسوں سے وزراء اور سرکاری اہلکاروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں ۔ لہذا ان کی ان خدمات کے لئے انہیں ایک یادگار پیش کیا جارہا ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے ڈاکٹر ریڈی کی خدمت میں ایک یادگار (مومنٹو)پیش کیا اور ان کی شال پوشی کی ۔ اس پروگرام کی ابتدائی نطامت ڈاکٹر عبیدالرحمن احساس ،صدر شعبہ اردو ،نیو کالج نے کی ۔ قراۃمولانا محمد ریاست اللہ نے پیش کی ،نعت پروفیسر غیاث نے پیش کی ۔ شمسالہدی ، آنیکار امتیاز ، چتا نے عبدالوہاب ، کاکا زبیر ، محمد حنیف کاتب ، ٹی ۔رفیق احمد اور قاضی اظہر نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ انہیں چنئی کے کسی ادبی محفل میں شرکت کا موقع ملے گا ۔ ڈاکٹر قاضی اظہر دراصل مشی گن یونیورسٹی ، چیکا گو سے تشریف لائے تھے ۔ انہوں نے چنئی والوں سے درخواست کی کہ وہ ان محفلوں کو آباد رکھیں ۔ انہوں نے بھی یہاں اتنی زیادہ تعداد میں اردو دان طبقے کو دیکھ کر اپنی بے پناہ مسرتوں کا اظہار کیا اور بتایا کہ اردو کی اس مقبولیت کی وجہ دراصل اس لئے ہے کہ اس زبان میں غنائیت اور موسیقی ہے ۔ اس غنائیت کی وجہ سے اردو عوام میں مقبول ہورہی ہے ۔ ہندی گانوں کی مثال لے لی جائے جو پوری کی پوری اردو زبان میں لکھی جاتی ہے ۔ اگر گلوکار اردو زبان سے ناواقف ہوتو اس کے گانوں نے بھی مقبول نہیں ہوتے ہیں ۔ بہر حال اردو ایک زندہ زبان ہے اور یہ اس وقت زندہ رہے گی جب تک کہ اس میں غنائیت موجود رہے گی ۔ ان کی تقریر کے بعد مشاعرہ کا آغاز ہوا جورات کے دو بجے اختتام پذیر ہوا ۔

Urdu will definitely get a place in the school curriculum - Jaya Jayalalitha

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں