سچر کمیٹی کا تعلیمی شاہکار - داخلہ کا متبادل معیار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-01-04

سچر کمیٹی کا تعلیمی شاہکار - داخلہ کا متبادل معیار

سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلہ میں مسلمان تعلیم کے میدان میں بھی سب سے پیچھے ہیں۔ آزادی کے بعد سے اب تک کی پلاننگ اور سرکاری رفاہی اسکیموں کا فائدہ مسلمانوں تک نہیں پہنچا ہے بلکہ وہ شیڈولڈ کاسٹ کے افراد سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں۔ مسلمانوں اور دیگر طبقوں کے درمیان تعلیمی خلیج آزادی کے وقت کے مقابلہ میں وسیع تر ہوگئی ہے۔ خاص طورپر ان تعلیمی ڈگریوں میں جن کے حصول کے بعد روزگار کے مواقع بہترین ہوتے ہیں مسلمانوں کا تناسب کمترین ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی کم حصہ داری کی وجہ سے ہائر سکینڈری سطح پر ان کا کم تعداد میں مقابلتاً کم فیصد نمروں سے پہنچنا۔ لہذا آئین کی دفعہ 38 و 46 کی رو سے حکومت کو اپنی پالیسی میں مسلمانوں کے حق میں مخصوص مصلحت آمیز تبدیلی کرنی ہوگی۔ موجودہ صورتحال کو درست کرنے کی غرض سے مثبت کارروائی کی سخت ضرورت ہے۔ اور جو افراد اعلیٰ تعلیمی معیار تک پھر بھی نہیں پہنچ پاتے، ان کی دیگر ہنر مندی Skill Developmentکے فروغ کیلئے مسلم رہائشی علاقوں میں آئی ٹی آئی کے مخصوص پروگرام چلانا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسکولی تعلیم کیلئے مقرر شدہ نصاب کی تدریسی کتابیں بچوں میں سماجی اقدار کو جنم دیتی ہیں۔ اگر ان کتابوں میں مضامین کا مافیہ Contents سماج میں تنوع Diversity کی خوبیوں کو اجاگر نہ کرے یا کسی خاص طبقہ کو نشانہ بناتے ہوئے گستاخانہ ہوتو اس طبقہ کے بچوں کے ذہن میں دیگر سماج کیلئے برگشتگی و بیگانگی پیدا ہوتی ہے۔ لہذا سچر کمیٹی نے سفارش کی کہ تمام تدریسی کتابوں کا بغور مشاہدہ کیا جائے اور ان کو ایسے ناپسندیدہ عناصر سے پاک کردیا جائے جن سے بچوں کے ذہن میں بین المذاہب تعصبانہ رجحان کو بڑھاوا ملے۔ ملسم گاؤں اور محلوں میں مطالعہ کے مراکز Study Centres قائم کئے جائیں۔ مسلم ارتکاز Concetrationوالے علاقوں میں سرکاری اسکول کھولے جائیں، جن میں نویں سے بارہویں کلاس کی لڑکیوں کیلئے علیحدہ اسکول ہوں۔ جن اسکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ساتھ پڑھتے ہوں وہاں اساتذہ زیادہ تر خواتین ہوں۔ آئی ٹی آئی میں داخلہ کیلئے آٹھویں درجہ پاس ہونا کافی مانا جائے نہ کہ دسویں اور مدرسہ سے سند یافتہ طلبہ کو بھی ان داخلوں کیلئے مستند مانا جائے۔ آئی ٹی آئی میں ہنر مندی کے ایسے کورس چلائے جائیں، جن میں مسلمان رجحان رکھتے ہیں۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن UGC کو ہدایت دی جائے کہ وہ ایسا لائحہ عمل بنائے جس سے یونیورسٹیوں اور کالجوں کیلئے فنڈ کے تعین کا انحصار اس پر ہو کہ وہاں داخلوں میں مختلف مذاہب کے طلباء کا تناسب منصفانہ ہے کہ نہیں۔ اس کام کیلئے تنوع پر مبنی ایک مناسب اشاریہ Diversity Index مرتب کیا جائے۔ علاوہ ازیں یو جی سی کے ذریعہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پروگرام منعقد کئے جائیں تاکہ وقتاً فوقتاً اسٹاف کے ذہنوں کو کیمپس پر تنوع کی اہمیت سے منور کیا جاسکے۔ آئیے اب سچر کمیٹی رپورٹ کی تعمیر شاہکار کی بات کریں۔ تمام مذاہب کے ماننے والوں میں جو طلباء سب سے زیادہ پیچھے ہوتے ہیں ان کا یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلہ یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کیلئے سچر کمیٹی نے ایک اچھوتا تصور پیش کیا جس کا نام اس نے رکھا داخلہ کا متبادل معیار Alternate Admission Criteria۔ داخلہ کے خواہاں تمام امیدواروں کی گریڈنگ کرنے کیلئے سسٹم اس طرح بنایا جائے کہ امیدوار کی تعلیمی قابلیت کی اہمیت 60فیصد تک محدود ہو اور باقی 40فیصد میں امیدوار کا پچھرا پن رکھا جائے۔ پچھڑے پن کی پرکھ کے بعد تین برابر کے حصہ ہوں۔ (i) امیدوار کی خاندانی آمدنی( اس کیلئے الگ سے پیمانہ مقرر کیا جائے)۔ (ii) امیدوار جس ضلع سے تعلق رکھتا ہول اس کا پچھڑا پن، اور (iii) امیدوار کا گروہی پچھڑا پن (پیشہ یا ذات)۔ یوجی سی کے ذریعہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کو فنڈ کی فراہمی بھی داخلہ کے اسی طریق کار کی عمل آوری پر منحصر ہونا چاہئے۔ اس کی تفیصل سچرکمیٹی رپورٹ کے اسٹیمنٹ 12.1(صفحہ246) میں دیکھی جاسکتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس ایشو پر مرکزی حکومت نے سات سال بغیر کسی حرکت کے گزار دئیے۔ لیکن اگر تعرلیمی سال 2014-15 میں اسے نافذ کرنے کا تحریری حکم نامہ حکومت جنوری، فروری 2014تک بھی جاری کردے تو اس کیلئے لوک سبھا الیکشن میں ایسا کرنے کا متناسب سیاسی استفادہ بعید از قیاس نہ ہوگا۔ کمیٹی نے تشویش ظاہر کی کہ اکثر اردو پڑھانے والے اسکولی ٹیچروں کو اردو میں مہارت نہیں ہوتی ہے۔ اردو کے اساتذہ کے عہدے شیڈولڈ کاسٹ کے لئے ریزور ہوتے ہیں جبکہ شیڈولڈ کاسٹ کے لوگ اردو پڑھانے کیلئے نہیں ملتے۔ کمیٹی نے کہا کہ اس گڑ بڑی کا ازالہ کیا جانا چاہئے۔ تمام صوبوں میں جہاں بھی اردو والوں کا تناسب خاصا ہو وہاں سب سرکاری اسکولوں میں اردو کااختیاری مضمون (Optional Subject) کے طورپر منظور کیا جائے۔ سچر کمیٹی کی اس سفارش کا عوام میں دھندلا سا جزوی تصور دینے کیلئے مرکزی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل نے اپنے پہلے سے چلی آرہی متعدد علاقائی زبانوں کے فروغ کی اسکیم میں سے اردو کی اسکیم کو علیحدہ کرکے چند برس لگ الگ سے صوبائی حکومتوں کو بھیج دیا۔ اس پر بھی صوبوں میں عمل آوری نہ ہونے کے برابر ہوئی ہے۔ اکثر صوبائی حکومتوں نے اس اسکیم کے نفاذ کیلئے سرکاری حکم نامہ جاری ہی نہیں کیا اور جہاں جاری کیا وہاں حکم نامہ میں کسی غلطی کی وجہ سے اس کا نفاذ اب تک بھی زیر التوا ہے۔ اس معاملہ میں مرکزی حکومت نے مانٹیرنگ نہیں کی جس کیلئے اس کی جوابدہی واجب ہے۔ لیکن ہم اردو دوالوں کو بھی تغافل سے نکل کر صوبائی سطح پر متحرک ہونا چاہئے جبکہ ناموافق حالات میں بھی ملت کا کام نکلوالینا زمانہ رسالتؐ سے ہی ہماری سنت رہی ہے۔ مدارس کے سرٹیفکٹ و ڈگریوں کو عصری تعلیمی نظام کے ساتھ مناسب مساویاتی تال میل بٹھانے کیلئے ضروری میکانزم بنانے کی اہمیت پر سچر کمیٹی نے زوردیا۔ نتیجتاً اسکولی سطح پر یہ کام اوپن اسکولنگ کی قوم تنطیم NIOS کو سونپا گیا۔ لیکن اس نے نئے نظم کی تشہیر مدارس کے مابین کم ہوسکی۔ لہذا زیادہ تر مدارس کو یہ اطلاع نہیں پہنچ سکی اور اس سہولت کی موجودگی کے باوجود مدارس سے فارغ طلباء اس کا استفادہ مکمل طورپر نہیں کرپارہے ہیں۔ یونیورسٹی اور کالج کی سطح پر یہ کام یوجی سی کو سونپا گیا تھا۔ یاد رہے کہ سچر کمیٹی نے سفارش کی کہ اس سلسلہ میں خصوصاً اُن پیشہ وارانہ کورسز پر توجہ دی جائے جن میں داخلہ کےئلے مقابلہ جاتی امتحان ہوتاہے۔ اس کے علاوہ سچر کمیٹی نے بہت زور دے کر لکھا کہ سول سروسیز امتحان اور بینکوں میں پروبیشنری افسر و دفاعی افواج میں سینئر سطح پر شمولیت کیلئے مقابلہ کے امتحانوں میں بیٹھنے کیلئے بھی مدارس کے سند یافتہ طلباء کو اہلیت کا حامل مانا جائے۔ سات برس گذر جانے کے باوجود یہ معاملہ حکمرانی کی گذر گاہوں میں اتمام حجت کی دہلیز سے اب بھی دور ہے۔ فی الحال صرف مسلمانوں کی قائم کردہ چند یونیورسٹیوں کی ذاتی کوشش سے ان کے یہاں قدرے سہولت موجود ہے لیکن سچر کمیٹی کا ملک گیر خواب تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ یہ بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ مدارس میں کمپیوٹر، سائنس، حساب، سماجیات و انگریزی کے اساتذہ کی تنخواہ و لیباریٹری کے اخراجات کیلئے مرکزی سرکار کی 26 صفحہ کی اسکیم SPQEM کا اردو و علاقائی زبانوں میں ترجمہ حکومت کی طرف سے ملک میں تقریباً 7لاکھ مدارس کو اب تک مہیا نہیں کرایا گیا ہے۔ جبکہ اسی اسکیم کے بجٹ میں سب ہیڈ Sub-Head کے طورپر شامل کرکے مرکزی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کو اس تشہیر کیلئے سالانہ 50لاکھ روپئے کی رقم ملتی ہے جو آر ٹی آئی اطلاع کے مطابق دیگر غیر متعلق مدو میں خرچ کردی جاتی ہے۔ اگر انا ہزارے اور اروند کجریوال ٹائپ کی دلچسپی لے لی جائے تو حکمرانی کی خرابیوں کا یہ کینسر دور کیا جاسکتا ہے۔

Sachar Committee on education - an alternative admission criteria. Article: Dr. Syed Zafar Mahmood

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں