سارے عالم کے مسلمانوں کو جشن میلاد النبیؐ مبارک، محض مسلمانوں ہی کو کیوں تہنیت میلاد پیش کریں، سارے اقوام و ملل کو جشن میلاد النبیؐ مبارک ہو، کیونکہ ہمارے پیغمبر جس طرح مسلمانوں کیلئے نبی ہیں بعینہ تمام عالم کے انسانوں کیلئے نبی ہیں، بلکہ آپ کی نبوت کو محض انسانوں تک محدود رکھنا تحدید انوار نبوت کے مترادف ہے۔ جب آپ کے خالق نے آپ کو رحمت اللعالمین فرمادیا ہے تو کس بندہ خدا میں یہ جرأت ہوگی کہ دائرہ رحمت کو عالمین سے ہٹاکر مسلمین یا مومنین تک محدود کرنے کی کوشش ناپاک کریں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے رسول اور اپنے رسول کی پیدائش مبارک پر ہم کیوں کر خوشی منائیں؟ خوشی منانا تو ہمارا حق ہے اگر میلاد النبیؐ پر خوشی نہ منائیں تو پھر کوئی خوشی درحقیقت خوشی نہ رہے گی۔
خوشی چاہے جتنی منائیں لیکن خوشی مناتے وقت اس بات کا لحاظ رکھیں کہ کہیں وہ مبارک ہستی ہی ناراض نہ ہو جائے جس کی میلاد میں ہم خوشی منا رہے ہیں۔ دامن دل سے جشن میلادالنبیؐ کی خوشیوں کو چھین لینا ایسا ہی ہے جیسے کسی کے بدن سے روح کو قبض کرلیا جائے۔
خوشی منانا تو انسان خاص کر مسلمان کا حق ہے اور یہ حق کوئی چھین نہیں سکتا۔ یہ ایمان کی طرح ہے جس سے کوئی دامن دل تہی نہیں ہو سکتا۔
جس طرح حضرت عمرؓ نے جب عالم غضب میں اپنی بہن حضرت فاطمہؓ بنت خطاب کو جرم مسلمانی پر زد و کوب فرمایا تو اس مبارک خاتون نے یہی تو کہا تھا کہ تم ظلم و زیادتی تو کر سکتے ہو لیکن ہمارے دلوں سے ایمان چھین نہیں سکتے!
خوشی بھی دل سے تعلق رکھتی ہے اس کو کسی صورت چھیننا نہیں جاسکتا، یہ بھی ہے کہ زبردستی کسی کے دل میں خوشی ڈالی بھی نہیں جا سکتی کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے، بہرحال خوشی ایک آفاقی چیز ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔
خوشی منانے کے کئی ایک طریقے ہیں لیکن احسن طریقہ یہ ہے کہ اس سے کسی کو زحمت نہ پہنچے، راستوں میں رکاوٹیں پیدا کرنا، اپنی خوشی کے اظہار سے مخلوص خدا کو تکلیف دینا ہے، جبکہ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ آمین اس قدر زور سے نہ کہو کہ بغل کے مصلی کو زحمت پہنچی تو اب لائق فکر بات یہ ہے کہ "یہ کہاں کی دوستی ہے بنے ہیں دوست دشمن" کے مصداق پیغمبر علیہ السلام کی تشریف آوری کی خوشی میں خود پیغمبرؐ کو ناراض کر دیں۔ پیغمبر اخر الزمانؐ نے تو راستے کی تکلیف دہ چیز کو ہٹانے کا حکم دیا ہے، اب اگر میلاد کی خوشی مناتے ہوئے راستے روک دیں گے تو کیا حضور خفا نہیں ہوں گے، بلکہ آپؐ یہ ارشاد فرما بھی سکتے ہیں کہ میں نے کب کہا تھا کہ میری میلاد کی خوشی کو بہانہ بناکر تم ایک دوسرے کو زحمت پہنچاؤ۔ مسلمانوں کے پاس اس کا کیا جواب ہے، راقم الحروف یہ نہیں جانتا، ہاں شرمندگی و ندامت سے سر کو جھکا ہوا ضرور پائیں گے۔
ہاں روشنی کیجئے، روشنی سے دل میں خوشی پیدا ہوتی ہے لیکن ذرا دل میں بھی جھانک کر بھی دیکھ لیں کہیں وہ سیاہ تو نہیں، ایسا تو نہیں کہ گھر روشن ہے اور دل تاریک ، دلوں کی تاریکی پہلے دور کیجئے بلکہ ایسا کریں کہ11؍ربیع الاول تک محافل میلاد اور درود و سلام سے دلوں کو روشن کرلیں اور 12ربیع الاول کو گھروں کو، راستوں کو گلیوں اور بازاروں کو بلکہ سارے شہر کو بقعہ نور بنادیں البتہ اس بات کا خیال رکھیں کہ شہر کو جس بجلی سے روشن کیا جارہا ہے اس بجلی کا بل بھی اداکریں۔
مٹھی بھر دل اگر تاریک ہوں تو دو دو فرلانگ کی روشنی سے کیا حاصل۔
اب دل کو روشن کیسے کریں اس کے کئی ایک طریقے ہیں، اور سب سے بہتر اور آسان طریقہ یہ ہے کہ دل میں محبت پیدا کریں، وہ محبت پیدا کریں جو لا محدود ہو، اور تعین اسمات سے مبرا ہو۔ جب آپ کے دل میں دنیا تمام کے لوگوں کے لیے محبت پیدا ہو جائے گی تو اب آپ کا دل روشنی میں نہا سا جائے گا۔
العیال خلق اﷲ کو وظیفہ جان بنانا چاہئے، اس لئے کہ خدائی مخلوق سے محبت گویا خدا کی محبت ہے۔ یاد کیجئے اس حدیث قدسی کو کہ بندے سے خدا پوچھے گا کہ اے بندے میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا، میں ننگا تھا تو نے مجھے کپڑے نہیں پہنائے۔ بندہ کہے گا کہ اے خدا تو گرسنگی و برہنگی سے بے نیازہے۔ خدا کہے گا کہ اے بندے تیرے در پر ایک بھوکا آیا تھا تو نے اسے کھلایا نہیں، اگر تو اسے کھلادیتا تو مجھے اس کے قریب ہی پاتا، تیرے پاس ایک پھٹاحال فقیر آیا تھا تو نے اسے کچھ پہننے کو نہ دیا اگر تو اس ننگے کو خوش کرتا تو مجھے اس کے قریب ہی پاتا۔
یہ سمجھنا کہ خدا عرش پر متمکن ہے اور شہ رگ سے قریب نہیں نادانی کے علاوہ کچھ نہیں مستزاد حدیث شریف "تطعم الطعام و تقرأ السلام علی من عرفت و من لم لعرف" کے مصداق دل کھول کر دعوت میلاد کا اہتمام کیجئے۔ درود وسلام کی کثرت بھی ایک قرینہ محبت اور اظہار مسرت ہے۔ جس سے کسی کو کوئی تکلیف بھی نہیں ہوتی۔ اس عمل کا شدت سے اختیار کرنا تو خدا کو بھی محبوب ہے، کیونکہ اسی خدا نے اپنے محبوبؐ پر درود وسلام کی کثرت کو واجب گردانا ہے۔ روز میلاد بھوکوں کو کھانا کھلانا بھی ایک کار ثواب ہے لیکن کھانا کھلانے کیلے کسی کی جان کھانا مناسب نہیں، چندے کی تحصیل میں شدت محبت کے کاموں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ خوش دلی کے معاملات روح کو مسرور کرتے ہیں، اگر لٹانا ہی ہے تو آپ اپنے گھر بار کو لٹادیجئے تاکہ جو ہم "سلام" میں جھوم جھوم کر "لک مالی فداً سلام علیک" پڑھتے ہیں، اس کا کوئی ثبوت تو فراہم ہو۔
یہ تو نہایت زیادتی ہے کہ آپ خوشی منائیں اور پڑوسی رنجیدہ ہو۔ لاؤڈ اسپیکر ضرورت کیلئے استعمال ہوتا ہے، اظہار مسرت میں نہیں۔ اظہار مسرت میں غلو آپ کو سنجیدہ نہ رہنے دے گا اور یوں بھی غلو کسی معاملے میں مناسب نہیں۔ والد کو نماز کیلئے جگانا ضرور چاہئے لیکن غلو فرماتے ہوئے ایک ہاتھ سے ان کی رضائی کھینچ کر دوسرے ہاتھ سے والد کو کھڑا کردینا کسی مذہب و مسلک میں جائز قرار نہ دیا جائے گا۔
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں فرماکر شاعر نے تعین مراتب کر دئیے ہیں جن سے مفر ممکن نہیں۔ اپنے گھروں پر سبز جھنڈیاں لگانے سے آپ کو کوئی نہ روکے گا، لیکن خدارا اس پر نام مبارک لکھا نہیں ہوناچاہئے کیونکہ جب بعد میں یہ ہری جھنڈیاں نکالی جائیں گی اور کچرے میں شامل ہوں گی تو اس پر اگر ہمارے پیارے رسول کا نام نامی اسم گرامی ہوگا تو بے ادبی ہوگی اس کا بطور خاص خیال رکھا جائے۔
دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ میلاد النبیؐ کے موقع پر لوگ محبت کے مارے عجیب عجیب کام کرتے ہیں جن کا میلاد مبارک سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ مثلاً راستوں میں اکیوریم رکھنا، یا زندہ جانوروں کی نمائش، کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔ بھلا ان جانوروں سے انسانوں کا اور انسانوں کو جس نے انسانیت سکھائی ہے کیا تعلق؟ یا یہ کہ خوبصورت چیزوں کی نمائش کا اہتمام، بھلا بتائیے تو اشیاء حسین کی نمائش کو میلاد النبی کی مسرتوں سے کیا علاقہ، اور پھر جس کے نور سے ساری دنیا وجود میں آئی ہو اس نور کے سامنے یہ نمائشی اشیاء "کھیل بچوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا" والی بات سے زیادہ متصور نہ ہوگی۔
یہ چند ایک باتیں ہیں جو قارئین کے گوش گزار کردی گئی ہیں اگر پسند خاطر ہوتو دعاؤں سے یاد کریں اور اگر کچھ باتیں تفہیم و الہام کے لائق ہوں تو بندہ گوش ہوش رکھتا ہے۔
Milad un Nabi - Love and respect
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں