2013 کی سبق آموز یادیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-27

2013 کی سبق آموز یادیں

ابھی جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھیں گے کیا حال ہے

2013ء ختم ہونے کو ہے ہر طرف جشن کی تیاریاں شباب پر ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اس جشن میں کچھ خاص لوگ شرکت کرنے والے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس جشن میں یکم جنوری لگتے ہی 12 بج کر ایک سیکنڈ پر پورا ملک ڈوب جائیگا تو غلط نہ ہوگا۔ یہ جشن متعدد لوگوں کو بے معنی لگے گا تو کچھ لوگ اس کا مطلب بھی نکالنے کی کوشش کریں گے، لیکن شاید وہ کسی نتیجے تک اس لئے نہ پہنچ پائیں، کیونکہ گردش لیل و نہار اور شب و روز کی آمد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس جشن میں شراب پارٹیاں بھی ہوں گی جو آدمی کے ذہن و دماغ کو کھوکھلا کردیتی ہیں، جن سے آدمی اپنا توازن کھو دیتا ہے اور پھر وہ اول فول بکنے لگتا ہے۔ پٹاخے بھی داغے جائیں گے، جس سے فضاء گرد آلود ہوگی اور ماحول پراگندہ و آلودہ ہوجائے گا۔ خوشی منانے کا جو بھی طریقہ ہے وہ اختیار کیا جائے گا۔ لیکن اس کے برعکس میرے خیال سے خوشی مناتے وقت صرف 2014ء کی آمد کی خوشی ہمارے سامنے نہیں ہونی چاہئے بلکہ 2013ء کے جانے کا غم بھی ہونا چاہئے۔ خوشی اور غم کے مابین ہمیں توازن برتنا چاہئے۔ لیکن ان سب کے مابین ایک اہم سوال جو ہم سب کے سامنے منہ کھولے کھڑا ہے وہ یہ کہ کیا واقعی یہ وقت ہمارے لئے خوشی منانے کا ہے یا پھر محاسبہ یعنی غور وخوص کا؟ کیا یہ وقت ہمیں اپنے اندر غور و فکر کرنے اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی دعوت نہیں دیتا ہے کہ 2013ء میں ہم نے کیا ورک بریک ڈاون (WBD) کیا تھا۔ ہمارے سامنے کیا کیا چیلنجز تھے اور اس میں ہم کس حد تک کامیاب ہوئے اور 2014ء کیلئے ہمیں کیا ورک بریک ڈاون کرنا ہے۔ تاکہ اپنا آئندہ کا سفر ہم بہ حسن و خوبی انجام دے سکیں۔ جس مقصد کوپانے کیلئے ہم پلاننگ کررہے ہیں اس کو انجام تک پہنچانے کیلئے کونسا لائحہ عمل تیار کیا جانا ہے، تاکہ عوام کا بھلا ہو۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ زندگی کا ایک سال کم ہوگیا اور باقی بچے سال کس طرح بہ حسن و خوبی انجام تک پہنچانے ہیں۔ 2013ء میں ہمارے بہت سے خواب تھے، جو شرمندہ تعبیر ہونے سے رہ گئے۔ بہت سے لوگوں کے مسائل تھے، جن کاحل ضروری تھا مگر وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے۔ کتنے ایسے ساتھی تھے جو اس سفر میں ہمارا ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر چلے گئے۔ ہمیں ان سب باتوں پر غور کرنا چاہئے، چہ جائے کہ ہم خوشی منائیں۔ ویسے ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے۔ ہر ایک کو یہاں اپنی بات آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنے اور کہنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ اس لئے جمہوری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں اپنی بات کسی پر تھوپ تو نہیں سکتا، لیکن ہاں عوام کا ایک خادم ہونے کے ناطے مشورہ ضرور دے سکتا ہوں، کیونکہ جب باتیں سامنے آتی ہیں تبھی مسائل سمجھ میں آتے ہیں اور پھر ان کا ازالہ اور حل کیا جاتا ہے۔ ویسے 2013ء کو کئی معنوں میں یاد کیا جائے گا۔ سال کی شروعات سے قبل دسمبر کے اواخر میں اس ملک میں ایک ایسی شرمناک واردات ہوئی جس پر پوری دنیا نے تھو تھو کیا۔ جس کی بدبو پورے سال رک رک کر آتی رہی۔ ایک بہادر بچی جو اپنے دل میں ڈاکٹر بننے کا سپنا سنجوئے ہوئے تھی وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہمیں داغ مفارقت دے گئی۔ اس سال جنسی استحصال کے معاملات میں میڈیا کا کردار بھی بے حد مشکوک رہا اور سوشیل میڈیا کا بے جا استعمال کیا گیا جس کی طرف ملک کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ پورے سال عورتوں کے تحفظ کا معاملہ چھایا رہا۔ سخت سے سخت قانون بنے لیکن اس کے باوجود حوا کی بیٹیوں کے تحفظ کی ضمانت آج بھی لوگ نہیں دے پارہے ہیں۔ شاید اس کی وجہہ سماج کے رگ و ریشے میں جگہ لیتی درندہ صفت سوچ ہے۔ مشرقی تہذیب پر فرنگی تہذیب کا غلبہ ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ سماج کو اخلاقی کردار کا حامل بنایا جائے۔ سماج کی اخلاقی تربیت کی جائے۔ ماں کی عظمت اور بہن کی عزت کا احساس دلایاجائے۔ 2013ء میں سیاست میں بھی کافی بھونچال آیا۔ بی جے پی کے وزیراعظم کے امیدوار نریندر مودی اور بی جے پی کے کھیون ہار کہے جانے والے لال کرشن اڈوانی کے درمیان اختلافات سامنے آئے۔ مودی کے مسئلہ پر بی جے پی میں کہرام برپا ہوگیا اور ایک وقت بی جے پی ٹوٹتی ہوئی نظر آنے لگی لیکن ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر یہ شہ درست ثابت ہوا کہ بی جے پی پر فرقہ پرست جماعت آر ایس ایس کامکمل کنٹرول ہے اور آر ایس ایس کی مداخلت کے بعد ہی اڈوانی نے اپنی زبان وقتی طورپر بند ضرور کی لیکن وقفے وقفے سے اپنی پارٹی اور آر ایس ایس دونوں کو یہ احساس دلاتے رہے کہ پارٹی میں ان کو الگ تھلگ کرنا بی جے پی کیلئے ٹھیک نہیں ہوگا۔ بی جے پی کی دیرینہ رفیق اور این ڈی اے کی معاون جماعت جنتادل یونے بی جے پی سے خود کو الگ تھگ کرلیا۔ نتیش کمار خود کو سیکولر ثابت کرنے کیلئے بی جے پی سے الگ ہوئے اور اس کا ڈنکا بہار اور ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بجوایا کہ ان کی جماعت سیکولر ہے اور فرقہ پرست اور انسانیت دشمن لوگوں کو اگر وزیراعظم کے عہدے کا امیدوار بنایا جاتا ہے تو یہ انہیں کسی صورت میں منظور نہیں۔ ہاں! نتیش کمار نے اس بات کی گنجائش باقی رکھی کہ اگر مودی کے علاوہ بی جے پی ملک میں نفرت کے پرچارک اور رتھ یاترا کے قائد و بابری مسجد کی شہادت کے کلیدی ملزم لال کرشن اڈوانی یا کسی دوسرے شخص کو وزارت عظمی کے عہدے کا امیدوار بناتی ہے تو شاید بی جے پی ان کیلئے اچھوت نہیں ہوگی۔ 2013ء میں یوپی حکومت بھی متعدد بار سرخیوں میں رہی اس معنی میں کہ غنڈہ گردی حکومت پر اس قدر حاوی نظر آئی کہ کبھی ڈی ایس پی ضیاء الحق کا قتل ہوا تو کبھی پرتاپ گڑھ، کبھی گورکھپور، کبھی لکھنؤ جلتا ہوا نظرآیا۔ کبھی بین الاقوامی شہرت یافتہ درس گاہ مولانا علی میاں ندوی کے خوابوں کا چمن دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے دروازے پر بم دھماکوں کی گونج سنائی دے، جس نے پوری دنیا کوہلاکر رکھ دیا اور ادارے کے تحفظ پر سوال اٹھنے لگے۔ کبھی مظفر نگر اور شاملی جلتا ہوا نطر آیا اور آگ اتنی تیز تھی کہ ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ تادم تحریر بہت سے معصوم بچے تو وطن سے دور ماں کی گود میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں تو بہت سے ننھے معصوم ماں کو اب صرف خوابوں میں ہی دکھائی دے سکیں گے۔ بہت سے لوگ اس کپکپاتی ہوئی سردی میں کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، تو بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، لیکن بھلا ہو سیاست کا کہ وہ ان کے زخموں پر مرہم لگانے کے بجائے نمک پاشی کررہی ہے۔ کل ملاکر ووٹوں کی سیاست اور چند لوگوں کی منہ بھرائی کیلئے جو بھی طریقہ اختیار کیا جارہا ہے وہ بے حد افسوسناک ہے، لیکن تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرا رہی ہے۔ دہلی کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دہلی کی سیاست نے سیاست دانوں کو باور کرادیا ہے کہ اس ملک میں ذات، دھرم اور مذہب سے اوپر اٹھ کر بھی ووٹنگ ہوسکتی ہے اور خود کو اقتدار کا مالک سمجھنے والوں کو عوام اپنے ووٹوں سے بیدخل کرسکتے ہیں۔ دہلی نے سیاست دانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ کہ اب سیاست کا مطلب خدمت ہے حکومت نہیں۔ 2013ء میں سیاسی میدان میں جو کچھ ہوا، اسے سیاست میں غیر معمولی تاریخی کارنامہ ہی کہا جائے گا۔ دہلی میں پیداشدہ چند ماہ کی نئی نویلی پارٹی نے سیاست کی تشریح و معنی کو ہی بدل کررکھ دیا ہے۔ کسی کو یہ یقین نہیں تھا کہ دہلی میں کانگریس بیک فٹ پر آجائے گی اور بی جے پی زمین اور آسمان کے بیچ لٹک جائے گی اور سیاست کے نا تجربہ کار کھلاڑی اروند کیجریوال کانٹوں بھرا تاج پہن کر وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوجائیں گے، لیکن کہتے ہیں کہ ہر ظلم کی انتہا ہوتی ہے۔ گردش لیل و نہار سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ اس پوری سچائی سے ان سیاست دانوں کو سیکھ اور سبق لینی چاہئے جو سیاست کا مطلب عوام پر حکومت سمجھتے ہیں۔ جبکہ سیاست کا حقیقی مطلب جو کہ میں نے ہمیشہ کہا اور آج بھی کہہ رہا ہوں کہ عوام کی خدمت ہے۔ جہاں لوگ یوپی اے ۔I کی پیٹھ تھپتھپارہے تھے وہیں 2013ء میں یوپی اے۔II کے دامن پر کئی داغ لگے۔ آئے دن ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں کا بڑھنا عام آدمی کے استعمال میں آنے والی اشیاء کی قیمتوں میں روز کے حساب سے اضافہ نے اسے آسمان سے زمین پر پہنچادیا۔ اور حال ہی میں لوک سبھا کو وقت سے دو دن پہلے غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرنے کے عمل نے ایک بار پھرحکومت کو سوالوں کے گھرے میں لاکھڑا کردیا ہے۔ کیونکہ حکومت کا یہ وعدہ تھا کہ وہ اسی سرمائی اجلاس میں ہر حال میں فرقہ وارانہ انسداد تشدد بل ضرور پیش اور پاس کرائے گی اور اسے پاس کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کابینہ نے گرین سگنل بھی دے دیا تھا، لیکن جس طرح آناً فاناً لوک پال پاس کرکے پارلیمنٹ کو غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی دودن پہلے ہی کردیا گیا اس نے حکومت کے خلاف لوگوں کی ناراضگی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت اپنے وعدوں اور اخباری بیان سے یہ باور کرارہی ہے اور فرقہ پرست یہ کہہ رہے ہیں کہ اقلیتوں نے حکومت کو اپنا غلام بنالیا ہے۔ جبکہ سچائی دنیا کے سامنے ہے۔ اقلیتوں کی سیاسی، تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی سے زمانہ واقف ہے۔ 2013ء میں کے رحمن خان صاحب نے اعلان کیا کہ اقلیتی یونیورسٹیاں کھولی جائیں گی، لیکن آج تک وعدہ صرف وعدہ ہے۔ 2013ء میں کرکٹ کے میدان میں بھی کئی نشیب و فراز دیھکنے کو ملے۔ کرکٹ کے بھگوان کہے جانے والے سچن تنڈولکر نے کرکٹ کو نم آنکھوں سے الوداع کہا تو کرکٹ کی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھنے والے وریندر سہواگ بھی الگ تھلگ نظر آئے۔ اس لئے کہ "کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج"۔ اس لئے ضروری ہے کہ 2013ء کی غلطیوں سے سبق لیں اور 2014 کی آمد کا جشن منانے کے بجائے ہم عوامی اور ملکی مفاد کا منشور تیار کریں۔ تاکہ آنے والی نسلیں ہم پر رشک کریں۔ ہمارے کاموں اور کارناموں کی مثال دیں۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ تاریخ اور وقت کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتے جو انہیں پچھاڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتا وہ اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پچھاڑ دیتے ہیں۔ ہاں! سڑک سے پارلیمنٹ تک کافی احتجاج اور مظاہرہ کے بعد 2013ء کے آخر میں جو ایک اہم ڈیولپمنٹ سامنے آیا ہے وہ پرائیوٹ اسکولوں کی من مانی پر بظاہر لگام کسنا لگتا ہے۔ امید ہے کہ محکمہ تعلیم کی یہ پیشرفت نونہالوں کیلئے سود مند ثابت ہوگی اور نرسری میں ان بچوں کو زیادہ سے زیادہ حق ملے گا جن کا حق جان بوجھ کر کچل دیا جاتا تھا۔ نیبر ہوڈ، سیبلنگ (بھائی بہن) والدین الومنی، ٹرانسفر کیس میں اگر آخر کے دو کو چھوڑ دیا جائے تو 6کلو میٹر تک نیبر ہوڈ کے 70 پوائنٹ اور سبلنگ کے 20پوائنٹ سے ہی بچوں کا داخلہ یقینی ہوجائے گا اور اب اسکول بچوں کی پہنچ سے دور نہیں ہوں گے۔

***
طارق انور
صدر "آل انڈیا قومی تنظیم"۔ مرکزی وزیر مملکت برائے زراعت و خوراک و رسد
طارق انور

the exemplary memories of 2013. Article: Tariq Anwar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں