طلباء میں اردو کتب بینی کی اہمیت - تحریری مقابلے کا جلسہ تقسیم انعامات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-27

طلباء میں اردو کتب بینی کی اہمیت - تحریری مقابلے کا جلسہ تقسیم انعامات

سنٹر فار ٹرائی لنگول اینڈ اسلامک اسٹڈیز کی جانب سے ایک تحریری مقابلہ بعنوان "طلباء میں اُردو کتب بینی کی اہمیت " مقرر کیا گیا۔ جس کا جلسہ تقسیم اسنادات آج مغلپورہ، اُردو گھر میں منعقد کیا گیا ۔ اس موقع پر تحریری مقابلہ میں حصہ لینے والے تمام طلباء نے پروگرام میں شرکت کی۔ جلسہ کا آغاز قرأت کلام پاک سے ہوا ۔اس کے بعد طلباء نے کلچرل پروگرام پیش کئے۔ صدر سوسائٹی جناب اعجاز علی قریشی نے سوسائٹی کے قیام کے مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ آپ نے کہا کہ سوسائٹی کا قیام سعادت علی قریشی نے عمل میں لا یا تھا۔ اور آپ ایک حرکیاتی شخص تھے۔ اور وہ اُردو کے لئے کافی فکر مند رہتے تھے ۔اُنہی کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے سوسائٹی آج سرگرمِ عمل ہے۔ اور اُردو کی بقاء و تحفظ کے لئے سوسائٹی مسلسل کام کرتی رہی ہے اور آگے بھی کرتے رہے گی۔ اور اسی طرح کے پروگرام منعقد کرتے ہوئے طلباء کو اُردو کی طرف راغب کیا جائے گا ۔ پروگرام میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کر رہے جناب غوث علی سعید، ڈائرکٹر 4tvنے کہا کہ آج ہم اُردو کے معاملہ میں پیچھے جا رہے ہیں اور اُردو زبان تیزی سے تنزل کا شکار ہورہی ہے ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ آج لوگ اُردو کو چھوڑنے پر کیو ں مجبور ہو رہے ہیں؟ اُنہوں نے کہا کہ کسی بھی زبان کی بقاء کا دارومدار دو چیزوں پر ہوتا ہے ایک کہ زبان سے روزگار سے مربوط رہے اور دوسرا یہ کہ جذبات سے مربوط رہے یعنی لوگوں کا اس سے جذباتی لگاؤ رہے۔ آپ نے کہا کہ لکھنؤ کبھی اُردو کا گڑھ تھا لیکن آج وہاں اِس کو آٹے میں سے بال کی طرح نکال دیا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُردو اگر صرف مسلمانوں کی زبان ہوتی تو جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود وہاں کیوں اُردو کا چلن نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ حیدرآباد ہی وہ شہر ہے جہاں اُردو زندہ ہے۔ اور اُردو میں جتنا اسلامی لٹریچر موجود ہے اُتنا کسی اور زبان میں دستیاب نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے کہا کہ طلباء کو چاہئے کہ وہ اُردو کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں پر بھی عبور حاصل کریں۔ اور جو انسان مادری زبان پر عبور حاصل کر لیتا ہے وہ دنیا کی کسی بھی زبان کو آسانی سے سیکھ سکتا ہے۔ ہمارے گھر کا ماحول اُردو اور اسکول کا ماحول انگریزی ہونے کی وجہ سے بچہ کسی بھی زبان پر عبور حاصل نہیں کرسکتا اور نہ وہ اِدھر کا رہتا ہے اور اُدھر کا۔
اس کے بعد پروگرام کے صدر جناب پروفیسر پی.ایچ. محمد صاحب (مانو) نے کہا کہ اُردو زبان ہماری زبان ہے اور اس کی حفاظت کے لئے تمام لوگوں کو آگے آنا چاہئے اور اپنے بچوں گھر میں اُردو تعلیم دینے کا اہتمام بھی ہم کو کرنا چاہئے ۔ اُنہوں نے کہا کہ اُردو میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے موقع دستیاب ہیں جس کے لئے حکومت نے مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کا قیام عمل میں لا یا ہے۔ جہاں پی .ایچ.ڈی. تک کی تعلیم اُردو میں دستیاب ہے۔ اور حکومت طلباء کو بڑے پیمانے پر اسکالرشپس بھی فراہم کر رہی ہے۔
سیکریٹری سوسائٹی جناب الیاس طاہر صاحب نے کہا کہ اُردو کے تعلق سے جو رویہ حکومت نے اپنایا ہے اُس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اُردو کے چند دن ہی باقی رہے گئے۔ کیونکہ اس کو روزگار سے بالکل الگ کردیا گیا ہے آصف سلطانی اُردو اکیڈیمی ، جدہ نے کہا کہ مادری زبان کے لئے کوئی بھی شخص اگر کچھ کام کرتا ہے تو اس کو اپنے آپ فخر ہونا چاہئے کیونکہ وہ اپنی مادری زبان کی خدمت کر رہا ہے۔ اُنہوں نے سوسائٹی کے انتظامیہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے سمیناروں اور پروگراموں کو اُردو والوں کو حوصلہ اور ایک تحریک ملتی ہے۔
محترمہ منورخاتون صاحبہ، ڈائرکٹر اشرف المدارس ہائی اسکول، نے اپنی تقریر میں کہا کہ اُن کے ہاں غریب طلباء پڑھتے ہیں اور کئی سابقہ طلباء نے اُردو تعلیم کے ذریعہ سماج میں بلند و اعلیٰ مقام حاصل کےئے ہیں۔ اِن غریب طلباء کی جو اُردو میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ بعد ازاں منعقدہ تحریری مقابلہ میں حصہ لینے والے طلباء میں انعامات کی تقسیم عمل آئی جس میں پہلا انعام اسریٰ بیگم (اشرف المدارس ہائی اسکول)، دوسرا انعام حسنیٰ انجم (احد ہائی اسکول) ، تیسرا انعام مشرف (ڈریم برڈ ہائی اسکول) اور ترغیبی انعام آفرین بیگم (انوارالعلوم ہائی اسکول) کو دیا گیااس موقع پر طلباء کی کثیر تعداد موجود تھی۔
پروگرام کی کارروائی سیکریٹری سوسائٹی الیاس طاہر نے چلائی۔ اور اعزازی مہمان محسن خان کے شکریہ پر پروگرام کا اختتام عمل میں آیا۔

***
محسن خان
(ایم اے فارسی : مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی)
mohsin_246[@]yahoo.com
موبائل : 9397994441
محسن خان

importance of urdu book reading in students, a literary competition. Article: Mohsin Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں