خفیہ نگرانی کا امریکی پروگرام محدود کرنے کی سفارش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-20

خفیہ نگرانی کا امریکی پروگرام محدود کرنے کی سفارش

واشنگٹن
(رائٹر)
امریکہ میں خفیہ نگرانی کے پروگرام\'پریزم\'پرصلاح دینے والی کمیٹی نے قومی سلامتی ایجنسی(این ایس اے)کے اس متنازعہ پروگرام کوختم کرنے کامشورہ تو نہیں دیاہے لیکن اس پرلگام لگانے اوراسے شفاف بنانے پرزوردیا ہے۔کمیٹی نے مشورہ دیاہے کہ مستقبل میں غیرملکی رہنماؤں کی خفیہ نگرانی کیلئے اعلی ترین سطح پراجازت نامہ چاہیے یعنی ان کی نگرانی کیلئے امریکی صدرسے منظوری حاصل کرنالازمی قراردیاجائے۔اس کے علاوہ اس میں یہ بھی مشورہ دیاگیاہے کہ امریکی شہریوں کے ٹیلی فون،ای میل اورٹیکسٹ میسجز سے حاصل شدہ معلومات این ایس اے کے پاس نہ رہیں۔اسے کسی تیسری پارٹی یااس ٹیلی فون کمپنی کے پاس رہنے دیاجائے جس کے ذریعہ یہ معلومات حاصل کی گئی ہوں۔واضح رہے کہ اس کمیٹی تشکیل صدربارک اوبامانے کی تھی۔اس کمیٹی نے اپنی308صفحات کی رپورٹ میں46سفارشات پیش کی ہیں۔اوبامانے اس کمیٹی کی تشکیل اس وقت کی تھی جب این ایس اے کیلئے کام کرنے والے ایڈورڈ اسنوڈین نے اس بات کاانکشاف کیاتھاکہ امریکہ کس طرح اپنے دوست ممالک سمیت اپنے شہریوں کی بھی نگرانی کرتاہے۔فی الحال اسنوڈین روس میں پناہ گزین ہیں اورامریکہ میں انھیں عام معافی دئیے جانے کی باتیں بھی گرم ہیں۔ان سفارشات میں کہاگیاہے کہ کسی بھی شخص کی ٹیلی فون پرکی جانے والی بات چیت کی معلومات حاصل کرنے سے پہلے وفاقی عدالت کی منظوری ضروری ہوگی اس میں یہ بھی کہاگیاہے کہ عدالت کویہ بتاناہوگاکہ یہ معلومات دہشت گردی سے منسلک ہیں یاپھرکسی دوسرے خفیہ پروگرام سے۔امریکہ کے وقاقی جج کی جانب سے اس نگرانی کے پروگرام کوغیرقانونی قراردئیے جانے کے بعداس کاجائزہ لیاگیا ۔این ایس اے نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت صرف یہ اعدادو شمار جمع کی جاتی تھیں کہ کن کن نمبروں پر بات چیت کی جارہی ہے اور کن نمبروں پر زیادہ بات کی جارہی ہے اور پھر شبہ کی بنیاد پر تفصیلی جانچ کی جاتی تھی۔ سابق خفیہ حکام نے کہا کہ این ایس اے کو لگام دینے جو کوششیں ہور ہی ہیں اس سے ملک کا سیکورٹی نظام کمزور ہوگا اور اس پروگرام کا مقصد کسی کی ذاتی زندگی میں جھانکنا نہیں ہے۔ بعض دوسرے ماہرین نے کہا کہ کانگریس اور اوباما انتظامیہ ان اصلاحات کے ذریعہ این ایس اے میں ضروری تبدیلی لانے اور اسے بہتر بنانے کی جانب حوصلہ افزائی کریں گے۔ اس سے قبل اوباما نے خفیہ ٹیکنالوجی کے جائزہ گروپ کے 5ارکان سے ملاقات کی۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا کہنا تھا کہ اس جائزہ اجلاس میں جو سفارشات کی گئی ہیں ان کی اشاعت جنوری میں ہونی تھیں لیکن میڈیا میں اس کے بارے میں غلط رپورٹ آنے کی وجہ سے اس کی اشاعت کی جارہی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اوباما نے کمیٹی کی سفارشات سے بھی پرے جاکر اس معاملہ پر غور کیا ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ اس گروپ نے رائے عامہ کے تحت فیصلہ کیا ہے اور اس کمیٹی میں شامل افراد دہشت گردی کی روک تھام ، خفیہ اداروں ، عام شہری اداروں اور پرائیویسی جیسے شعبوں میں کام کرچکے ہیں۔ صدر اوباما نے اس گروپ سے کہا کہ امریکی اپنی خفیہ معلومات کا استعمال قومی سلامتی کیلئے کرتا ہے اور وہ کام خارجہ پالیسی، رازداری اور مساوی شہریت اور عوام کے اعتماد کو ذہن میں رکھ کر کرتا ہے۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ کمیٹی کی طرف سے کی جانے والے سفارشات کی مخالفت ہوگی اور خفیہ اداروں کے حکام اس میں پیش پیش ہونگے۔ ایسے میں ان میں سے کتنی سفارشات اوباما انتظامیہ کو منظور ہوگی وہ ابھی غیر واضح ہے۔
Obama Task Force: Limit NSA Snooping on Americans

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں