ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:16 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-07

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:16


پراسرار کہانیوں کے خالق سلامت علی مہدی (مرحوم) کی ایک تجسس آمیز پراسرار کہانی "ایک بت" کو قسط وار شکل میں تعمیر نیوز بیورو (ٹی۔این۔بی) کی جانب سے پہلی بار انٹرنیٹ پر شروع کیا گیا تھا ۔۔ چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ سلسلہ 15 ویں قسط (18/ مئی) کے بعد سے تعطل کا شکار ہو گیا جس کے لیے ہم اپنے معزز قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔ اس ہفتہ سے یہ ہفتہ وار سلسلہ جاری کیا جا رہا ہے۔ سولہویں قسط یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

گذشتہ اقساط کا خلاصہ :
ونود نے اگات پور میں ایک حویلی خریدی۔ اس کے پرانے کنویں کی صفائی کی گئی تو اس میں سے ایک بت نکلا۔ بت ایک خوبصورت نوجوان اور گمنام عورت کا تھا۔ ونود نے یہ بت اپنی حویلی کے سامنے حوض میں نصب کر دیا لیکن ایک رات یہ بت اپنی جگہ سے غائب تھا۔ ونود کی بیوی شانتا نے کہا کہ بت کی عورت میرے بستر کے قریب کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی۔ بھید کی کھوج میں دہشت زدہ ونود حویلی کے تہہ خانے میں پہنچا جہاں اسے ایک لاش چبوترے پر رکھی ملی۔ سہم کر وہ واپس اپنے کمرے میں پہنچا تو دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔ چند لمحوں بعد بت جیتے جاگتے روپ میں آ نمودار ہوا۔ بت نے ونود سے کہا : "میرا نام شاتو ہے ، میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ ایک زندہ عورت پتھر کے بت میں کیسے تبدیل ہو گئی؟"۔ لیکن کہانی ادھوری رہ گئی ۔۔۔ چند دن بعد وہ ایک پروفیسر کو اپنی حویلی میں لایا اور اسی رات پروفیسر اپنے کمرے میں بت کے جاگنے کے فوراً بعد مر گیا اور پولیس انسپکٹر نے ونود کو پروفیسر کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا۔۔۔

قسط : 1 --- قسط : 15

ونود کی لاری باہر نکلی اور میں نے شاتو کے بت کی طرف دیکھا۔ بت کے چہرے پر بدستور مسکراہٹ موجود تھی ، لیکن میں نے ایسا محسوس کیا جیسے بت کی یہ مسکراہٹ کچھ اور بھی زیادہ گہری ہو گئی تھی۔ میں دیر تک بت کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔۔ شانتا روتی رہی ، نوکر آنسو بہاتے رہے اور ماحول کی افسردگی بڑھتی رہی۔
یقیناًشاتو نے اپنے انتقام کی ابتدا کردی تھی۔
میں نے شانتا کو سمجھانے کیلئے اس کا بازو پکڑا اور کہا:
شانتا۔ رونے کے بجائے آؤ اب ہم دونوں یہ سوچیں کہ ونود کی رہائی کیلئے ہمیں فوری طورپر کیا کارروائی کرنا چاہئے۔۔۔۔"
میرا جملہ سن کر شانتا نے میری طرف آنسو بھری نظروں سے دیکھا اور جیسے میرا کلیجہ کانپ گیا۔۔۔۔ بڑی اداسی تھی ان نظروں میں بڑی مجبوری تھی ان آنکھوں میں ۔۔۔۔ یہ آنکھیں کیا تھیں، درد اور غم کا ایک لہریں مارتا ہوا سمندر تھا۔۔۔ میں ان نظروں کی تاب نہ لاسکا اور اب خود میری آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ میں نے شانتا سے کہا
"خود مجھے بھی کچھ کم غم نہیں ہے شانتا۔۔۔۔ تم یقین جانو خود میرا کلیجہ بھی ونود کی اس مصیبت پر پھٹا جارہا ہے"۔

چند منٹ تک میں شانتا کو اس طرح سمجھاتا رہا۔ حد یہ کہ شانتا کو کچھ صبر آگیا۔ اور وہ تھکے تھکے قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔ میں نے شانتا سے کہا۔ تم چل کر آرام کرو، میں ابھی آتا ہوں۔
"آرام اب قسمت میں کہاں رہ گیا ہے کمار"۔۔۔۔ شانتا نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
لیکن ہر مصیبت عارضی ہوتی ہے شانتا۔۔۔۔ میں نے مزید سمجھایا۔
شانتا نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیاوہ خاموشی کے ساتھ اپنے کمرے میں داخل ہوگئی۔ میں نوکروں کے پاس آیا۔ کالکا سے میری واقفیت چوں کہ پرانی تھی اس لئے میں نے اس سے پوچھا ونود کااسکوٹر کہاں ہے؟
"میں نے اسے رات ہی کو گیرج میں رکھ دیا تھا"۔ کالکا نے جواب دیا۔
تم اس کی ضروری صفائی کردو میں تھوڑی دیر بعد شہر جاؤں گا۔ میں نے کہا۔
اتنا کہہ کر جب میں دوبارہ شانتا کے کمرے میں داخل ہوا تو شانتا پلنگ پر لیٹ چکی تھی اور خالی خالی نظروں سے چھت کی طرف دیکھ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ چونکی اور اس نے پوچھا "تم ابھی کالکا سے کیا کہہ رہے تھے۔۔۔؟ "
"میں اس سے کہہ رہا تھا کہ وہ ونود کا اسکوٹر صاف کردے"۔
"لیکن کیوں۔۔۔۔" شانتا نے پوچھا۔
"میں ونود کی رہائی کے سلسلے میں شہر جانا چاہتا ہوں۔ میں کسی وکیل سے مل کر قانونی مشورہ کرنا چاہتا ہوں"۔ میں نے جواب دیا۔
"میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی۔۔۔" شانتا نے بڑی آہستہ آواز میں کہا۔
"نہیں۔۔۔ میں تمہیں ساتھ نہیں لے جاؤں گا اور اصولاً تمہیں حویلی ہی میں موجود رہنا چاہئے"۔
"میں اس حویلی میں تنہا نہیں رہ سکتی کمار"۔ شانتا نے بڑے دلگیر لہجے میں کہا "میں پاگل ہوجاؤں گی میں مرجاؤں گی"۔
"نہیں شانتا،ل میں نے کہا میں تمہیں ساتھ نہیں لے جاؤں گا"۔
"مجھے اپنے ساتھ نہ لے جاکر تم میرے ساتھ دشمنی کروگے کمار"۔ شانتا نے کہا۔
"تم پہلیوں میں باتیں نہ کرو" میں نے الجھن کھاکر کہا۔
"میں پہلیاں نہیں بجھارہی ہوں کمار۔۔۔، شانتا نے بڑی نرم آواز میں کہا "تمہیں خود یہ بات معلوم ہے کہ اس حویلی میں شاتو کے علاوہ ایک مرد کی روح بھی موجود ہے اور یہ روح مجھے تنہا پاتے ہی میرے قریب آجاتی ہے اور مجھ سے باتیں کرنے لگتی ہے"۔ ایک لمحہ تک خاموش رہنے کے بعد اس نے مزید کہا
"وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہے کمار۔۔۔۔ تم اگر مجھے حویلی میں تنہا چھوڑ دوگے تو وہ مجھے دبوچ لے گا۔۔۔۔ وہ میرا خون پی لے گی"۔
"لیکن شانتا میں شام تک واپس آجاؤں گا اور اس دوران کالکا تمہارے بالکل قریب موجود رہے گا وہ ایک لمحہ کیلئے بھی تم کو تنہا نہیں چھوڑے گا"۔
"جیسی تمہاری مرضی۔" شانتا نے انتہائی نا اُمید ہوکر کہا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور مجھے اطمینان ہوگیا۔

اب میں نے کالکا کو آواز دی۔ وہ آیاتو قبل اس کے کہ میں اس سے کچھ کہتا اُس نے مجھ سے کہا "بڑا غضب ہوا بابو جی"۔
کیا ہوا۔۔۔؟ میں نے پریشان ہوکر پوچھا۔
"تمام نوکر حویلی چھوڑ کر جاچکے ہیں۔۔۔ میں نے ان کو بہت سمجھایا، لیکن وہ یہاں رہنے پر راضی نہیں ہوتے وہ بڑے خوف زدہ بھی تھے اور بہت پریشان سبھی"کالکا نے کہا۔
"اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب حویلی میں تمہارے علاوہ اور کوئی نوکر نہیں ہے"۔ میں نے انتہائی پریشانی کے عالم میں پوچھا۔
"جی ہاں"۔ کالکا نے جواب دیا۔
شانتا بھی میری اور کالکا کی گفتگو سن رہی تھی اور اس نے آنکھیں کھولیں اور کہا "میری بات مانو کمار۔۔۔۔ تو ہم یہ حویلی ہی کیوں نہ چھوڑ دیں۔۔۔ آخر یہاں رہنے سے فائدہ بھی کیا ہے"۔
"حویلی چھوڑدیں گے تو کہانی ادھوری رہ جائے گی شانتا"۔ میں نے جواب دیا
"اور میں یہاں کہانی مکمل کرنے آیا ہوں۔۔۔۔ ونود نے مجھے یہاں مسائل کو حل کرنے کیلئے بلایا تھا اور میں اس حویلی کے مسائل حل کرکے رہوں گا"۔

الغرض۔۔۔! کالکا کو شانتا کے کمرے میں چھوڑ کر میں ونود کا ایک اسکوٹر لے کر شہر روانہ ہوگیا میں جلد ازجلد ونود کی رہائی کے سلسلے میں کسی بڑے وکیل سے مشورہ کرنا چاہتا تھا۔ روانگی سے قبل میں نے شاتو کے خاموش بت کی طرف دیکھا۔ بت مسکرارہا تھا اچانک خود بخود میرے لبوں پر بھی مسکراہٹ تیرنے لگی۔ میں نے شاتو کے بت سے مخاطب ہوکر کہا "میں آج رات کو بارہ بجے تم سے ملاقات ضرورکروں گا شاتو اور دیکھوں گا کہ تم کتنے پانی میں ہو"۔
مجھے پورا یقین تھا کہ شاتو کی روح میرے قریب ضرور موجود ہوگی ورنہ میں یہ جملہ نہ کہتا۔ میں شاتو کو چیلنج نہ کرتا۔

جب میں شہر پہنچا ونود کو حوالات میں بند کیا جاچکا تھا۔ وہ ایک تحریری بیان بھی دے چکا تھا جس میں اس نے وہی سب لکھا تھا جو وہ حویلی میں انسپکٹر پولیس سے کہہ چکا تھا۔ میں اسپتال پہنچے تو وہاں پروفیسر کی لاش کا پوسٹ مارٹم ہوچکا تھا۔ میں نے پولیس ڈاکٹر سے ملاقات کی، اپنا تعارف کرایا اور اس سے کہا "میں آپ کا بے حد ممنون ہوں گا اگر آپ مجھے یہ بتادیں کہ مقتول کی موت کا اصل سبب کیا تھا؟
"میں حیران ہوں ڈاکٹر کمار، پویس ڈاکٹر نے کہا "عمر میں پہلی مرتبہ میں نے ایک ایسی لاشت کا پوسٹ مارٹم کیا ہے جس کی موت کا سبب معلوم کرنے میں مجھے ناکامی ہوئی ہے"۔
"یعنی۔۔۔۔" میں نے گھبراکر کہا۔
"یعنی یہ کہ بظاہر پروفیسر کی موت گلا گھٹنے سے ہوئی ہے لیکن اس کی گردن پر انگلیوں یا ہاتھیوں کا کوئی نشان نہیں ہے" آپ ہی بتائیے ان حالات میں ثبوت کے بغیر یہ کیسے لکھا جاسکتا ہے کہ موت گلا دبانے سے ہوئی ہے۔ "
"پھر آپ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کا کیا سبب لکھیں گے"۔ میں نے پوچھا۔

"وہی جو میں آپ سے کہہ چکا ہوں۔۔۔ میں صاف لکھ دوں گا، کہ میں موت کا اصل سبب معلوم کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ مقتول کے جسم پر کوئی زخم نہیں ہے، کسی چوٹ کا نشان نہیں ہے۔ اس کا دل آخر وقت تک ٹھیک طرح سے کام کرتا رہا تھا، اس کے دماغ کا نظام بالکل ٹھیک تھا، اس کو کوئی بیماری نہیں تھی لیکن پھر بھی وہ مرگیا۔۔۔، ڈاکٹر نے تفصیل سے کہا۔

میں نے اس کے بعد ڈاکٹر سے اور کوئی بات نہیں کی۔۔۔ میں وہاں سے چلا آیا۔ میں یہ کہہ کر اس کے دماغ کو الجھانا نہیں چاہتا تھا کہ مقتول کی قاتل ایک روح ہے اور اس روح کے علاوہ دنیا میں اور کوئی نہیں بتا سکتا کہ اس نے پروفیسر کا قتل کیسے کیا؟

اب میں دوارہ ونود سے ملا۔ میں نے اسے تسلی دی اور کہاکہ میں جلد ہی اس کو رہا کرالوں گا میں نے اس کے مزید اطمینان کیلئے اس کو ڈاکٹر کے فیصلے سے بھی مطلع کردیا۔ ونود نے مجھ سے کہا
"شانتا کا خیال رکھنا کمار۔۔۔۔ مجھے ڈر ہے حویلی کی روح شانتا کیلئے بھی کوئی نئی مصیبت نہ کھڑی کردے"۔

ونود نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔ حویلی کی روح شانتا کیلئے بھی ایک خوفناک گڑھا کھود رہی تھی اور یہ گڑھا صرف شانتا کی تباہی کے لئے نہیں تھا۔ اس گڑھے میں خود مجھے بھی گرنا تھا۔ روح اب مجھ پر بھی وار کرنے جارہی تھی۔
میں نے ونود کی فوری رہائی کیلئے ایک بڑے وکیل سے بھی ملاقات کی۔ میں نے اس کو ونود کی پوری داستان سنائی اور میں نے اس کو یقین دلادیا کہ ونود نے واقعی پروفیسر تارک ناتھ کا قتل نہیں کیا ہے، بلکہ یہ قتل یا شاتو کی روح نے کیا ہے اور یا پھر پروفیسر دہشت میں خود ہی مرگیا ہے۔

وکیل نے میری باتیں بڑے غور سے سنیں اور مجھے سے وعدہ کیا کہ وہ دو دن کے بعد عدالت میں ونود کی درخواست ضمانت پیش کردے گا۔۔۔ میں نے اس کو اس کی فیس کی رقم بھی ادا کردی۔ کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ ونود کی رہائی میں کوئی چیز بھی رکاوٹ بنے۔
میں یہ سب کچھ تمام دن کرتا رہا اور شاید شاتو کی روح تمام دن میری نگرانی کرتی رہی۔۔۔۔ کیوں کہ تمام دن میں یہ محسوس کرتا رہا کہ جیسے میں تنہا نہیں ہوں۔۔۔۔ جیسے کوئی میرے بالکل قریب موجود ہے ہر وقت میرے ساتھ ہی رہا ہے۔

شام کے چار بجے میں اگات پور واپس ہوگیا۔
جب میں حویلی میں داخل ہوا تو اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔۔۔ حویلی کے صرف اس کمرے میں روشنی نظر آرہی تھی جہاں میں دن میں شانتا اور کالکا کو چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔۔ میں نے پورٹیکو میں اسکوٹر روکا اور کالکا کو آواز دی۔۔۔ لیکن کالکا نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اور جیسے ایک انجانے خوف کے تحت اسی لمحے میرے سارے جسم میں سردی کی ایک لہر سی دوڑ گئی میں نے پلٹ کر بت کو دیکھا تو بت کا چبوترہ خالی تھا۔
ابھی شام کے سات بجے تھے لیکن بت جاگ چکا تھا جب کہ وہ روزانہ رات کو بارہ بجے ہی جاگا کرتا تھا۔۔۔۔ حوض کا چبوترہ خالی دیکھ کر میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔۔۔۔ میری ساری بہادری پلک جھپکتے میں رخصت ہوگئی۔۔۔۔ میں نے ایک مرتبہ پھر پوری قوت سے کالکا کو پکارا۔۔۔

لیکن۔۔۔
جواب میں مجھے بالکل قریب سے ایک آواز سنائی دی۔۔۔۔ یہ آواز میرے لئے بالکل اجنبی تھی۔۔۔۔ یہ ایک عورت کی آواز تھی۔۔۔۔ آوازکیا تھی ایک موسیقی تھی جس نے ایک ثانئے کیلئے مجھے مسحور سا کردیا۔۔۔۔
یہ یقیناًشاتو کی آواز تھی ۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:16

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں