آئے دن شعری مجموعوں کی رونمائیاں ہوتی ہیں اور ان پر اظہار خیال ہمارے ناقدین ہی فرماتے ہیں، چاہے وہ مجموعے کسی بھی نوعیت کے کیوں نہ ہو، ان کی فکر و فلسفہ، زبان کی پختگی، اظہار و بیان کی چاشنی اور لطافت، خیال میں ندرت، الفاظ کا صحیح انتخاب، نشست و برخاست، در و بست، سلیقے اور ہنرمندی سے ہوا ہویا نہ ہوا، ناقدین، صاحب کتاب کو آسمان ادب کا آفتاب نہیں تو روشن ستارہ ضرور بنادیتے ہیں۔ ایسا کرنے میں وہ کوئی عار محسوس کرتے ہیں اور نہ ہچکچاہٹ۔
جہاں کچھ نام نہاد ادیب اور شاعر ادب میں مسائل اور خرابیاں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں وہیں ایسے ناقدین بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے جو تنقید کے اصول و ضوابط سے بھی نابلد ہوتے ہیں اور فن پارے میں موجود اسقام اور اغلاط کی نشاندہی نہ کرکے شعر و ادب میں رطب و یابس اور جھاڑ جھنکار پیدا کرنے اور پھیلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ دوسری ایک اور وجہ یہ ہے کہ آج عملی تنقید کا فقدان ہے۔ ہماری تنقید عملی تنقید سے بے بہرہ ہوچکی ہے۔ اس کا ایک سبب (معذرت کے ساتھ) تو یہ ہے کہ ہمارے اکثر ناقدین عرض و بحور اور اوزان وغیرہ سے بڑی حد تک ناواقف ہوتے ہیں اور الفاظ کے در و بست اور صحیح انتخاب سے بھی۔ تو پھر وہ کسی فن پارے پر لکھتے ہوئے کسی طرح ان باریکیوں ، نزاکتوں اور تہہ در تہہ معنی کا خیال رکھ سکتے ہیں اور ان پر کسی طرح ناقدانہ اظہار خیال فرماسکتے ہیں؟ اس طرح نہ تو تنقید کا حق ادا ہوتا ہے اور نہ فن پارے کے ساتھ انصاف۔
غزلیہ شاعری پر تنقید کرتے ہوئے کچھ ناقدین غزل پر طرح طرح کے الزام لگاتے ہیں اور خاص کر تنگنائے غزل کا رونا روہتے ہیں۔ حالاکہ ایسا نہیں ہے۔ غزل لامحدود اور لامتناہی ہوچکی ہے۔ آج غزل پوری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ زندگی کا کون سا گوشہ اور موضوع ہے جسے غزل میں نہیں سمویا جاسکتا یا نہیں سمویا گیا۔ یہ تو شاعر کی ذات، اس کی فکر، زاویہ نظر اور مشاہدے پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح موضوع کو شعر کے قالب میں ڈھالتا اور اپنے انداز بیان سے کتنا دلکش اور جاذب نظر بناتا ہے۔ غزل کے بارے میں اور عام طورپر شاعری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ شعر کی اصل بنیاد جذبات و خیالات ہوتے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ احساسات، فکر اور پیرایہ اظہار ک بھی شامل کرلیا جائے تو اچھی اور بڑی شاعری کے امکانات پیدا ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے، حالانکہ فلسفیانہ اور اصلاحی موضوعات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن بنیادی بات فن شاعری ہے جس میں فکر و خیال، حسن بیان، موضوع کا انتخاب، ہےئت، اسلوب، الفاظ کا درو بست اور زبان کے حسن و قبح کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ شاعر کی فکری سطح، مطالعہ، ذہانت اور شاعرانہ مزاج بھی شاعری کو نکھارنے اور سنوارنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ تشبیہات و استعارات سے شاعری اور خاص طور سے غزل کی شاعری میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور خوبصورت تراکیب اس کے حسن میں اضافہ کرتی ہیں۔ دور ازکار تشبیہات و استعارات شاعری کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔
غزل کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہوئے یہ فرمودہ بھی قابل ذکر ہے کہ غزل کے کچھ آداب ہوتے ہیں، اس کی اپنی ایک تہذیبی سطح بھی ہوتی ہے اور کچھ اصول و ضوابط بھی۔ غزل، تفصیل اور تفسیر کانام نہیں، اختصار و ایمائیت کا نام ہے یا یوں کہہ لیجئے غزل محرمانہ یا زیر لب گفتگو کا نام ہے اس لئے اشارے کنائے، استعارات و تشبیہات اور خوبصورت تراکیب اس کی وسعت میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ غزل میں شعریت اور حسن بیان بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں یعنی غزل میں تغزل کی شان، فکر و فلسفے اور خیال کی رنگ برنی قندیلیں روشن نہ ہوں، احساسات و جذبات کا زیرو بم اور بیان میں حسن اور بانکپن نہ ہوتو اُسے غزل کہنا سراسر زیادتی اور نا انصافی ہوگی۔ حسن بیان ہی سے شعریت اور شعر میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنے والا پر گو اور قادر الکلام، عمدہ نظم نگار اور قصیدہ گو تو ہوسکتاہیل غزل کا اچھا شاعر نہیں ہوسکتا کیونکہ غزل تو آبگینے کی طرح ہوتی ہے۔
ہمارے ناقدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہارکرتے وقت ان مسلمات اور لوازم کے ساتھ قواعد و ضوابط کا بھی خیال رکھیں۔ شاعری اور خاص طورپر غزلیہ شاعری پر تنقید کرتے ہوئے جہاں محاسن کی نشاندہی کی جاتی ہے وہیں کوتاہیوں، غلطیوں اور فنی معاملات کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے تاکہ شاعر خود بھی اپنی اصلاح کرسکے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو نکھارنے میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ خرابیوں کے پیدا ہونے کا اُس وقت زیادہ امکان ہوتا ہے جب کسی فن پارے پر اظہار خیال کرتے ہوئے دوستی نبھائی جائے۔ فرمائشی تبصرے اور تنقید، شعرو ادب میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے ناقدین نہ صرف شاعری بلکہ شاعر کے ساتھ بھی ظلم کرتے ہیں اور تنقید کا حق ادا نہیں کرتے۔
The impairment of ordered reviews and criticism
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں