دارالحکومت میں کانگریس کی ناک کٹنے سے بچانے والا کون؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-12

دارالحکومت میں کانگریس کی ناک کٹنے سے بچانے والا کون؟

congress in delhi
دارالحکومت میں کانگریس کی ناک کٹنے سے بچانے والا کون؟
زوال پذیر کانگریس میں اقلیتی کردار ناقابل فراموش،اکثریت نے کٹوائی ناک

2013 اسمبلی انتخابات کے نتائج سامنے آتے ہی کانگریسی اعلی کمان سے لیکر علاقائی لیڈران تک کی راتوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں ۔خلاف قیاس کانگریس کی شکست نے سبھی پارٹیوں اور عوام الناس کو چونکا دیا ہے۔ انتہا تو یہ ہوگئی کہ دہلی میں برسراقتدار کانگریس کی سپاسالار شیلا دکشت کو بھی شرمناک شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔وہیں حکومت دہلی کے پانچ وزرا میں اے کے والیہ،راج کمار چوہان اور پروفیسر کرن والیہ بھی اپنی عزت وحرمت پامال ہونے سے نہیں بچا سکیں۔عام آدمی پارٹی نے کانگریسی خیمے میں کہرام بپا کردیا ہے۔کانگریس نے محض آٹھ اسمبلی حلقوں میں کامیابی حاصل کی ،جس میں چار مسلم امیدوارہارون یوسف،آصف محمد خان،حسن احمد،چودھری متین اور دو سکھ امیدوار اروند سنگھ لولی اور پرہلاد سنگھ سہانی شامل ہیں۔جس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے اقلیتوں نے ہی کانگریس کی ناک کٹنے سے بچائی۔ورنہ محض دوسٹیں ہوتیں وہ بھی شیڈول کاسٹ کی ۔ مسلم امیدواروں نے اپنی مقبولیت کا لوہا صرف کانگریس میں ہی نہیں منوایا بلکہ دیگر پارٹیوں کے مسلم امیدواروں نے بھی خلاف توقع نتائج پیش کیے ہیں۔مٹیامحل حلقہ اسمبلی سے پانچویں دفعہ فتح یاب ہوکر شعیب اقبال نے خود کو ثابت کردیا ہے۔دوسری جانب نومولود عام آدمی پارٹی کی مشہور و معروف بہ صلاحیت امیدوار شاذیہ علمی نے بھی اپنی مقبولیت، صلاحیت اورصاف ستھری شبیہ کو پیش کردیا ہے۔ اپنوں کی بغاوت کے باوجود صرف 326ووٹ سے شاذیہ علمی کوشکست ہوئی ہے ۔اس بات سے عوام پر شاذیہ علمی کااعتماد صاف ظاہر ہے۔ایسی مثالیں ذاکر خان ،شکیل انجم وغیرہ نے بھی پیش کی ہیں،لہذا سیاسی پارٹیوں کو مسلم امیدواروں کے تئیں سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کرنے ضرورت ہے۔
دہلی میں ہوئے اسمبلی انتخاب نے کانگریس کو سبق لینے کا موقع فراہم کیا ہے،اس شکست کو شکست کے نظریے سے نہ دیکھیں بلکہ محاسبہ کریں اور اپنی خامیوں کو پارلیمانی انتخاب سے قبل درست کرلیں تاکہ دوبارہ ایسی شرمناک شکست سے دوچار نہ ہونا پڑے۔کانگریس نے کبھی بھی مسلمانوں اور سکھوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے ٹکٹ نہیں دیا ہے،جب کہ اس بات کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے ۔ آبادی کے تناسب سے ٹکٹ دیں اور اس بات کا خیال بھی رکھیں کہ امید وار کی عوام الناس میں کیسی شبہہ ہے،عوام اس سے آشنا ہے بھی، یا نہیں ۔لیکن کبھی بھی ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا اور آنکھیں بند کرکے سفارشات کی بنیاد پر ٹکٹیں تقسیم کردی جاتی ہیں۔2013اسمبلی انتخاب میں کانگریس نے محض چھ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا۔جس میں ہارون یوسف وہ امیدوار ہیں جنہوں نے پانچویں دفعہ تاریخ ساز فتح حاصل کی ہے،جسے جلی حروفوں میں صفحہ قرطاس پر اتارا جاسکتاہے۔اسی طریقے سے کانگریس کے دیگرمسلم امیدواروں نے بھی حسب دستور کامیابی حاصل کی ہے۔ ان میں کوئی دوسری تو کوئی چوتھی دفعہ کامیاب ہواہے۔وہیں کانگریس نے مٹیامحلحلقہ اسمبلی میں اس سال تبدیلی کی تھی اور مرزا جاوید علی کو ٹکٹ دیا تھا۔مرزا جاوید نے بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض 2800ووٹ سے شکست کھائی ہے۔جاوید کی اس شکست کا ثمرہ بھی کانگریسی کارکنان کے سر جاتاہے۔کانگریس کے آپسی تنازعات کے سبب اس سیٹ پر کانگریس کی شکست ہوئی۔ان سبھی باتوں کے باوجود کانگریس کی وزیر اعلی شیلا دکشت نے عوام الناس کی رضا مندی کی جانب اپنی توجہ مرکوز نہیں کی اور چرب زبانیوں میں مصروف رہتے ہوئے اپنے پروجکٹ کا افتتاح بڑے پیمانے پر کرتی رہیں،محترمہ کو اب یہ بات سمجھ میں آچکی ہوگی کے عوام سیاسی حکمت عملی سے بھی بخوبی واقف ہیں۔دوسری جانب انسانوں کے خون کی پیاسی بی جے پی بگل بجارہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ قاتل نریندر مودی کا جادو چل گیا۔ لیکن میں بی جے پی کو بتانا چاہوں گا کہ عوام نے کانگریسیوں کی نااہلی ،مہنگائی اور بدعنوانی کے خلاف یہ انقلاب برپا کیا ہے نا کہ مودی جیسے جھوٹے قاتل وجابر حکمراں کی آواز پر لبیک کہا ہے۔مودی نے دہلی کے مختلف علاقوں میں کئی اجلاس سے خطاب کیا،جس میں روہنی کا اجلاس عوامی رابطہ مہم کے تحت کافی بڑا تھا ۔میڈیا نے بھی زبردست طریقے سے مودی کی اس مہم کو پرموٹ کیا اور مودی نوازی کی کثر پوری کردی ۔اس کے باوجود روہنی سے عام آدمی پارٹی کے راجیش گرگ کے ذریعہ بی جے پی امیدوار جئے بھگوان اگروال کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اگر مودی کی ہوا ہوتی تو روہنی سیٹ پر بی جے پی کی ریکارڈ توڑ فتح ہوئی ہوتی۔
کانگریس کو مسلمانوں اور سکھوں کی ناراضگی کے اسباب سمجھنے کی ضرورت ہے۔آخر شکست کے اسباب کیا رہے ہیں۔یہی دو طبقے ایسے ہیں جو کانگریس پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں اور ہمیشہ فتح سے ہمکنار کراتے رہے ہیں۔مگر دارالحکومت میں کانگریس نے اقلیتوں کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ نہ دیا۔وزیر اعلی نے مسلمانوں سے وعدہ کیا کہ اردو میڈیم اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری کی جائے گی ،لیکن نہیں کی گئی۔زبانی طور پر اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا مگر وہ محض کاغذات تک ہی محدود رہا ۔عملی جامہ پہنانے کی کبھی وزیر اعلی شیلا دکشت نے زحمت گوارہ نہیں کی۔مساجد کے مسئلے پر حکومت دہلی کبھی سنجیدہ نہیں ہوئی اور مساجد شہید کی گئیں۔اسی طریقے سے سکھوں کے ساتھ بھی ناانصافی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔سکھوں سے وعدے پر وعدے کیے گئے کہ 1984کے گناہ گاروں کو سزا دی جائے گی مگر اب تک نہیں دی گئی۔ لہذا کانگریس کو خواب خرگوش سے بیدار ہوکر سوچنے کی ضرورت ہے کہ دوبارہ حکومت کا ذائقہ چکھنے کے لیے کیا لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ مسلم اور سکھ ہی ایسے ووٹر ہیں جو اپنے حق رائے کا استعمال ناحق کانگریس کے لیے کرتے رہے ہیں۔ اگر ان باتوں پر غور کرلیا گیا تو پارلیمانی انتخاب کی کمان کانگریس کے ہاتھوں میں محفوظ رہے گی ورنہ خدا خیر کرے۔

***
سید عینین علی حق ، نئی دہلی
alihaq_ainain[@]yahoo.com
موبائل : 9268506925,9868434658
سید عینین علی حق

Who is going to save Congress in the capital? Article: Ainain Ali Haq

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں