اردو- ماضی حال اور مستقبل - اسلامیہ کالج ورنگل میں منعقدہ قومی اردو سمینار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-09

اردو- ماضی حال اور مستقبل - اسلامیہ کالج ورنگل میں منعقدہ قومی اردو سمینار

Urdu-Past-present-Future-Seminar-islamia-college
شہر ورنگل قدیم تاریخی و افسانوی شہر ہے مورخین کے مطابق 1000ء میں آباد ہوا۔ یہاں کی تاریخی عمارت دیول ہزار ستون مشہور ہے۔ ورنگل علاقہ تلنگانہ کا ایک اہم شہر ہے جہاں ایک مشہور و معروف مادر علمیہ کا کتیہ یونیورسٹی کے نام سے قائم ہے اسی طرح اس شہر کو علمی شناخت بھی حاصل ہے اسی شہر میں اردو کا ایک قدیم و معروف ادارہ اسلامیہ ایجوکیشن سوسائٹی کے نام سے 125سال سے اردو کی شمع کو روشن کئے ہوئے ہے۔اسلامیہ ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت اسلامیہ آرٹس اینڈسائنس کالج ایم ۔جی روڈ ورنگل میں قائم ہے ۔ جہاں اردو میڈیم میں کالج کی سطح کی تعلیم دی جاتی ہے۔شعبہ اردو اسلامیہ کالج ورنگل کی جانب سے ایک اہم عنوان"اردو ماضی ،حال اور مستقبل"پر ایک روزہ سمینار کا انعقاد 26نومبر 2013ء بروز منگل کالج کے گراونڈمیں عظیم الشان پیمانہ پرعمل میں آیا۔ سمینار کے روح رواں ڈاکٹر عزیز احمد عرسی پرنسپل اسلامیہ کالج تھے ۔ جو سائینس کے لیکچرر ہونے کے باجود اردو ادب کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔انہوں نے سمینار کے اعلان کے بعد ساری ریاست میں ادب دوست احباب کو شرکت کرنے اور مقالہ پڑھنے کے دعوت نامے دئے۔چناچہ ان کی دعوت پراس ایک روزہ سمینار میں تلنگانہ کے مختلف علاقوں اوربیرون ریاست سے بھی ریسرچ اسکالر س نے شرکت کی۔
سمینار کا آغاز حافظ محمدمجاہد کی تلاوت قرآن مجیدسے عمل میں آیا۔تلاوت قران مجید کے بعد نعت شریف کا نذرانہ جناب نجم الدین نے پیش کیا ۔ڈاکٹر سید تاج الدین صاحب لیکچرار اردو اسلامیہ کالج نے افتتاحی کلمات اداکیئے اور تمام مہمانان کا استقبال کیا۔ڈاکٹر خواجہ عزیز احمد عرسی صاحب پرنسپل اسلامیہ کالج نے سمینار کے انعقاد کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سمینار کے ذریعہ ان عوامل کا جائز لیناہے جن کی باعث اردو انحطاط پذیر ہورہی ہے ان چیلنجزسے بھی واقف ہونا ہے جو مستقبل میں اردو کے فروغ میں حائل ہیں اور سمینار میں پیش ہونے والی دانشوروں کے تجاویزمشوروں کو حکومت اور حکومت کے اداروں تک پہنچانا ہے۔
سمینار کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہو ئے ڈاکٹر مسعودجعفری صاحب سابق ریڈر نے اسلامیہ ڈگری کالج کے آغاز و ابتدائی تاریخ سے واقف کروایا اور کہا کہ کالج میں طلبہ میں تعلیم کے ذریعہ اسلامی اور اخلاقی قدریں پیدا کی جارہی ہے یہ کالج ایک کلچرار سنٹر بھی ہے جہاں طلبہ کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کی کوشیشیں جاری ہیں دراصل یہ کالج اخلاقیات کا مرکز ہے۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ رجسٹرار مولاناآزاد اردو ینشنل یونیورسٹی حیدرآباد نے اس سیمنارکے موضوع سے متعلق کہا کہ اس موضوع پر سمینا ر کا انعقاد دراصل وقت کی ضرورت ہے اردو کی زبوں حالی سے متعلق ہم حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن ہم خود اس کے ذمہ دار ہیں انہوں نے مزید کہا کہ اردو کے فروغ کیلئے جس طرح عثمانیہ یونیورسٹی نے انجینئر نگ کی تعلیم اردو میں شروع کی تھی آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیور سٹی نے پروفیسر محمد میاں وائس چانسلر کی نگرانی میں انجینئر نگ کورسس کا آغاز کرچکی ہے ۔پروفیسر اکبرعلی خاں وائس چانسلر تلنگانہ یونیورسٹی نظام آباد نے بطور مہمان خصوصی کے حیثت سے شرکت کی اور سمینار کے ساونیئرکی رسم اجراء انجام دی اور خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سمینار کا موضوع دراصل اردو کے جدید چیلنجز سے متعلق رکھا گیا ہے اس پر بہت زیادہ گفتگو کی ضرورت ہے سمینار میں پیش کی گئی تجاویز جو کہ اردو کے مستقبل سے متعلق ہوں انھیں ہم حکومت ہند اور خاص کر اردو اکیڈمیوں اور اردو کونسل نئی دہلی پہنچائیں تاکہ اردو زبان کے فروغ کی کوششوں میں تیزی پیدا کی جائے اور زبان کی بقاء ممکن ہو انہوں نے اپنی تقریر میں اردو زبان کے گرتے میعار پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اردو اکیڈمی اردو کے اساتذہ کے میعار کو جانچے اور انھیں بسٹ ٹیچر ایوارڈ سے نوازیں انہوں نے مزید کہا کہ ردو زبان نے تحریک آزادی کے لیئے بہترین نعرے دئے لیکن اب تلنگانہ تحریک میں اردو زبان کے نعرے نظر نہیں آتے ۔اردو کیلئے ریسرچ سنٹر جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو قائم کیے جائیں سمینار کا کلیدی خطبہ پروفیسر خالد سعید مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے دیا انہوں نے کہا کہ کیا اردو کو کسی مخصوص طبقہ یا مذہب سے جوڑنا چاہیے یا نہیں؟لسانیات کا اصول ہے ہر زبان کا ایک گروہ ہوتا ہے لسانی گروہ کا بھی ہونا ضروری ہے اردو کا طبقہ زیادہ تر مسلمانوں پر منحصر ہے جو درداور تہذیبی جراء ت اردو سے جڑی ہیں وہ دیگر تقاضوں کے تحت ہے انہوں نے دستور ہند کے دفعات سے واقف کرواتے ہوئے کہا کہ ہر فرد کو اپنی تہذیب اور اپنی زبان اور مذاہب کو اختیار کرنے کا پورا پوراحق حاصل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر زبان سیکولر ہے اردو زبان کے سیکولر ہونے سے متعلق بہت زیادہ پروپگنڈہ کیا جاتا ہے دراصل یہ اردو کے سیکولر ہونے کی دلیل ہے دور حاضر میں اردو کے متعلق دوسکے آج کل چل رہے ہیں ایک مولانا آزاد اور دوسرا اردو مشاعرے کا انہوں نے مزید کہا کہ غیر اردو داں حضرات بھی اردو شاعری کے لطف سے آشنا ہیں۔افتتاحی پروگرام کی کاروائی غلام محی الدین لیکچرار نے چلائی۔
افتتاحی سیشن کے بعد بغیر کسی وقفہ کے سمینار کے ٹکنیکل سیشن کی کاروائی کاآغازہوا۔ڈاکٹر عزیز احمد عرسی نے نظامت کیلئے مائیک سنبھالا اور سب سے پہلے جناب اسلام الدین مجاہد صاحب کو مقالہ پڑھنے کی دعوت دی ۔اسلام الدین مجاہد صاحب نے "موجودہ دور میں اردو کی تعلیمی صورتحال " پر مقالہ کا آغاز کیا اور اپنے منفرد انداز بیاں و برق رفتاری سے مقالہ پڑھ سنایا اور کہا کہ انگریزوں کے دور حکومت میں اردو کے حق میں آواز نہیں اٹھائی گئی جبکہ حکمراں طبقہ اردو والوں کا تھا انہوں نے سوال کیا کہ عصر حاضر کے تقاضوں اور اردو زبان حکومت کی اکیڈیمیاں کسطرح اردو کے فروغ کیلئے کوشش کرسکتی ہیں! انہوں نے سچر کمیٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلم لڑکیوں میں تعلیم کی کمی کی اہم وجہہ سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے انہوں نے تجویز پیش کی کہ تلنگانہ کے ہر گاوں اور شہر میں اردو زبان بولی جاتی ہے علحدہ ریاست تلنگانہ میں اردوکوcoآفیشل لینگویج کا درجہ دیا جائے۔ دوسرے مقالہ نگار ڈاکٹر نسیم الدین فریس صدرشعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد نے" نوجوانوں میں ذوق مطالعہ کا انحطاط " پر اپنا مقالہ پیش کیا اور کہا کہ دور حاضر میں تعلیم کا رحجان بڑھ رہا ہے لیکن طلباء و طالبات میں مطالعہ کا ذوق نہیں بڑھ رہا ہے تعلیم کا رحجان ہے مگر کتب بینی کا رواج نہیں۔ جسکی وجہہ سے اردو ادب میں ادب اطفال تیار نہیں ہو پارہا ہے ۔
تیسرے مقالہ نگارڈاکٹر اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو گونمنٹ گری راج کالج نظام آباد نے 'اردو اور انفارمیشن ٹکنالوجی کا فروغ" کے عنوان پر مقالہ پڑھا اور کہا کہ اردو زبان پہلے قلمی کتابت کا زریعہ اخباروں اور کتابوں سے عوام تک پہونچتی تھی اب کمپیوٹر کتابت اور الیکٹرانک ذرائع سے ہم آہنگ ہوکر ترقی کی راہیں طے کر رہی ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی میں اردو کی ترقی اپنی راہ پر ہے ۔
چوتھے مقالہ نگار کے طور پر ڈاکٹر مسرور سلطانہ لیکچرار کریم نگر نے "اردو کے بہتر مستقبل کے لیے کچھ مشورے" کے عنوان پر مقالہ پڑھا اور کہا کہ نئی نسل میں اپنی مادری زبان سے عدم واقفیت بڑھتی جارہی ہے اس لیے اردو کی بقاء اور ترویج کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو لازمی طور پر اردو پڑھائیں۔ پہلے سیشن کے پانچویں مقالہ نگار ڈاکٹر ناظم علی پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ نظام آباد نے " ہندوستان میں اردو کا مستقبل اور اکیسویں صدی " کے عنوان پر اپنا مقالہ پڑھا اور کہا کہ اردو کو عصری علوم و فنون کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تو اکسیویں صدی میں اردو کی ترقی کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔
ان کے بعد محترمہ نکہت آراء شاہیں ن صاحبہ نے" اردو اور ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ " کے عنوان پر مقالہ پڑھا انہوں نے زور صاحب کی سوانح عمری اور ان کے ادبی کارناموں کو بیان کیا۔پہلے سیشن کے صدر اجلاس پروفیسر یوسف رحمت زئی صاحب نے ان مقالوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اردو والوں کو اردو کے مستقبل سے متعلق مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اردو زبان عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہورہی ہیں اور اس کا مستقبل بہت درخشاں ہے انہوں نے تفصیلی طور پر فردا فردا پڑھے گئے مقالوں پرروشنی ڈالی اور مقالوں کا جائزہ پیش کیا ۔دوپہر 3بجے دن دوسرے ٹکنیکل اجلاس کا آغاز عمل میں آیاسب سے پہلے محمد کاشف ریسرچ اسکالر نے اپنا مقالہ"انیسویں صدی کے اردو ناول" کے عنوان پر پڑھا اورکہا کہ 1857ء کے بعد اردو ناول کا ظہور ہوا ۔ناول مخصوص سماج میں پیدا ہوتا ہے۔دوسرے مقالہ نگار محمد عبدالقدوس لیکچرار گورنمنٹ جونیر کالج چنچل گوڑا حیدرآباد نے "سائبر دنیا میں اردو" کے موضوع پر مقالہ پڑھا اور کہا کہ میرے مقالہ کا مقصد اردوداں طبقہ کے افراد کو جو اب تک انٹر نٹ پر موجود اردو کے مواد تک رسائی حاصل نہ کرسکے ہوں ان تک ان کی رسائی کروانا ہے۔ پروفیسر یوسف رحمت زئی صاحب نے سابق صدر شعبہ اردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے" انفارمیشن ٹکنالوجی ارو اردو "پر مقالہ سنایا اور کہا کہ اردو یونی کوڈ سسٹم ارو اردو ٹکنالوجی کے استعمال کے طریقوں سے واقف کروایا کہ کسطرح آج اردو سے متعلق مواد انٹر نٹ پر بڑی تعداد میں آسانی سے دستیاب ہے۔ محمد عبدالعزیز سہیل کنٹراکٹ لیکچرار گورنمنٹ mvsڈگری کالج محبوب نگر وریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے" اردو صحافت۔ماضی ،حال اور مستقبل" کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کیا اور کہا کہ دور حاضرمیں انسانی زندگی کو بڑے پیمانے پر متاثر کرنے والا ذریعہ صحافت ہے دور حاضر میں پرنٹ میڈیا پر الکٹرانک میڈیا کا غلبہ ہے ایسے میں صحافت سماجی تبدیلوں کے ساتھ ساتھ ایک پیشہ وارانہ تجارت کے طور پر اپنا سمت سفر طئے کررہی ہیں
دوسرے ٹکنیکل سیشن میں نامور صحافی جناب غضنفر علی صاحب مدیر وقار ہند نے بھی خطاب فرمایا۔پروفیسر حبیب نثار صاحب حیدر آباد سنٹرل یونیورسٹی نے " ورنگل کے صوفیا اور اردو" کے عنوان پر مقالہ پڑھا اور کہا کہ ضلع ورنگل ایک قدیم و تاریخی مقام ہے جہاں صوفیا ئے اکرام نے دعوت دین کیلئے اپنی تلقین و تعلیم کے لیے اس جگہ کو منتخب کیا حضرت شاہ حماد بغدادی اور آپ کو خانوادے نے بھی ورنگل کی سر زمین کو اپنی خدمات کے ذریعہ سنوارا نکھارا۔محمد زاہد الحق حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی ، محمد معین الدین ، محمدیحیی ریسرچ اسکالر ظہیر آباد ،جناب سرور علی افسرصاحب ،جناب علی الدین گوہر صاحب،جناب مسعود مرزا محشرصاحب نے بھی مقالات پیش کیے۔ پروفیسر خالد سعید صاحب مولانا آزاد نشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد نے اس اجلاس کی صدارت کی اور مقالوں پر تبصرہ فرمایا۔

حضرت غلام افضل بیابانی خسرو پاشاہ صاحب وقف بورڈ چیرمین آندھرا پردیش نے اختتامی اجلاس میں بطور خاص مہمان خصوصی شرکت کی اور ریسرچ اسکالرس کو سرٹیفکیٹ عطا کیے۔اور اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان شیرینی کی تاثیر رکھتی ہے اردو زبان کی ترقی اور فروغ کیلئے ہمیں ذمہ داری سے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اور اردو زبان میں ہم اپنے بچوں کو تعلیم دلاوئیں تاکہ اردو زبان کا مستقبل روشن ہو۔پروفیسر ایس اے شکور ڈائر کٹر اردو اکیڈمی آندھرا پردیش نے بھی بطور مہمان خصوصی سیمنار میں شرکت کی اور اپنے خطاب سے نوازا۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان کی بقاء کیلئے تمام ہی افراد کو متحدہ کو شش کرنی ہوگی اور اردو زبان حکومت کے تعاون و اشتراک سے ترقی کر رہی ہے لیکن حکو مت کی ذمہ داری سے زیادہ ہماری ذمہ داری بنتی ہیں کہ ہم زبان کے فروغ و ارتقاء کیلئے جدجہد کریں ۔ ہندوستان میں اردو زبان کا مستقبل حوصلہ افزاء ہے اردو زبان یہاں کی تہذیبی روایات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں ضرور ت اس بات کی ہے کہ ہم اردو زبان کی نئی نسل تیار کریں۔ سمینار کی صدارت شیخ بشیر احمد صاحب صدر اسلامیہ سوسائٹی ورنگل نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ علم کا حاصل کرنا ضروری ولازمی ہے ہندوستان میں اردو زبان ابھی ارتقاء کی منزلیں طئے کررہی ہیں اردو کو بحیثیت مادری زبان کے ہم اس کا تحفظ کریں۔

اس طرح شہر ورنگل کے اسلامیہ کالج میں منعقد ہونے والا یہ اردو سمینار کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ طالبات کی ایک کثیر تعداد اور شہر ورنگل کے باذوق ادب نواز احباب نے اس سمینار میں شرکت کی۔ عزیز احمد عرسی صاحب کی کامیاب انتظامی صلاحیتوں کے سب ہی معترف رہے۔ کالج کے تمام شعبوں کے لیکچررس نے انتظامات میں حصہ لیا۔ سمینار کے نتائج اردو کی بقاء اور فروغ اور عصر حاضر کے تقاضوں سے اردو کو ہم آہنگ کرنے کے ضمن میں اہم سمجھے گئے۔سمینار کا اختتام جناب عزیزاحمد عرسی صاحب کے شکریہ پر ہوا۔

***
محمد عبدالعزیز سہیل۔ Ph.D ریسرچ اسکالر(عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل، لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeez.sohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل

Urdu- Past, present & Future. Seminar in Warangal Islamia College. Reportaz: M.A.A.Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں