لسانی ہجرت اور بااختیاری کا عمل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-02

لسانی ہجرت اور بااختیاری کا عمل

language shifting
1970 کے دہے کا ابتدائی زمانہ تھا جب اودھیشور ارون ، مظفرّ پور سے، وجّیکا بھاشا کا ایک اخبار، ناگری رسمِ خط میں نکا لتے تھے۔ وجّیکا ، گنڈک، کوسی اور گنگا ندی کے درمیان بولی جانے والی بھاشا ہے، جسے قدیم جمہوریہ "وجّی" کے نام پر وجّیکا کہا جاتا ہے ۔۔ ۔ دعویٰ تو اس سے کہیں بڑا ہے۔ بھوجپوری،میتھلی،انگیکا اور وجّیکا کے لوگ اکثر مخلوط علاقے کو اپنی جھولی میں ڈال لیا کرتے ہیں۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ویشالی، سمستی پور، مظفّر پور،سیتا مڑھی اور شیوہر کی غالب اکثریت کی بولی یہی ہے۔ یہ بھاشا تو اس علاقہ میں صدیوں سے بولی جاتی ہے مگر اسے یہ نام راہل سانکرتیائن نے دیا تھا۔ راہل جی بھوجپوری، میتھلی، اودھی، برج اور شمالی ہند کی دیگر بولیوں کے آزانہ وجود کے قائل تھے ۔ وہ ان بھاشاؤں کو ہندی کی بولی نہیں مانتے تھے۔ یوں بھی لسانی اعتبار سے زبان اور بولی میں کوئی فرق نہیں ہوتا اور ان کو ہندی کی بولی گرداننا،جن میں سے بعض کا ادبی ورثہ ہندی سے بھی قدیم ہے،کوئی علمی بنیاد نہیں رکھتا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے، انیسویں صدی کے آخر تک،بڑے بڑے ماہر لسانیات اُڑیہ زبان کو بنگلہ کی بولی قرار دیتے تھے۔ ایسا کہنے والوں میں راجندر لال مترا جیسی شخصیتیں بھی تھیں، جن کو سیّد حسین بلگرامی نے بجا طور پر فاضلِ اجل اور ماہر علم لسان کہا ہے۔
میں اُن دنوں ،اپنے دو دوستوں کے ساتھ مل کر، "سیکولر ہندوستان" نکالتا تھا۔ ارون جی سے لنگٹ سنگھ کالج میں آتے جاتے اکثر ملاقات ہوتی تو وہ اس اخبار کی ایک کاپی عنایت فرماتے،اس زبان کی تحریک کےاتار چڑھاوسے باخبر کرتے او ر مدعی ہوتے کہ میں سیکولر ہندوستان میں اس کے بارے میں لکھوں۔ اس تحریک کے بارے میں میری ابتدائی معلومات کا ذریعہ ارون جی ہی تھے۔۔ میرے دونوں ساتھی ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑ گئے۔ 1973 میں، میں بھی دہلی آگیا،پھر بھی دہلی میں رہ کر مظفّر پور سے اسے نکلوانے کی کوشش کرتا رہا۔ مظفّرپور میں میرے چھو ٹے بھائی محمّدعرفان الحق اس کام کو دیکھتے اور پٹنہ میں عظیم آباد ٹائمز والے نعمانی صاحب طباعت میں مدد کردیتے۔ 1974 کے اُس شمارے کےساتھ یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا جس میں بہار یونیو رسیٹیٰ کا اشتہار چھپا تھا۔ پھر نہ تو مظفّر پور سےوہ رشتہ قائم رہ سکا اور نہ ارون جی جیسے دوستوں سےرابطہ رہا، جو وجّیکا کی تحریک کے بارے میں میری معلومات کا ذریعہ تھے۔ غمِ دَوراں نے ایسا دبوچا کہ اُن کا نام اور اخبار کا صحیح نام بھی ذہن سے اُتر گیا؛ صرف اتنا یاد رہا کہ اخبار کا نام وجّیکا کے نام پر تھا۔
بولیوں پر کا م کرتےہوئے کبھی کبھی اُس اخبار کا نام ذہن میں ابھرتا ڈوبتا ر ہتا ۔ کچھ دن پہلے کئی دوستوں کو فون کرکے پتہ لگانے کی کوشش کی۔ بالآخر ایک پرانے ساتھی ڈاکٹر صبغت اللّٰہ حمیدی کی مدد سےارون جی سے رابطہ ہوا تو ان کی فراہم کردہ اطلاعات نے،وجّیکا کی موجودہ صورت حال کے بارے میں، میری حاصل کردہ معلو ما ت کے کئی خلاء کو پُر کر دیا۔
جب ارون جی "وجّیکا سَمئے " نکالتے تھے اس سے پہلے ، منیشور رائےمُنیش، وجّیکا لوک گیت کے مجموعے 'جھانجھ کی جھنک' (1958)، وجّیکا کی پہیلیوں کے مجوعے 'بوجھو تو کیا' (1958)، مضامین کے مجموعے ، ' بجّی سنگھ اور بجّی لوک ساہتیہ' (1968) اوروجّیکا کی لغت (1971) کے ذریعہ نہ صرف داد تحسین وصول کر چکے تھے بلکہ اُس بھاشا کی جڑوں کو بھی مستحکم بنا چکے تھے۔ بعد میں ان کی کم و بیش 14کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔خود اودھیشور ارون جی نے، راما ئن کو وجّیکا میں منتقل کرکے اس بھاشا کے دامن کو مالامال کیا ہے۔
گزشتہ پانچ دہائی میں وجّیکا کے بولنے والوں نے جو زبردست مہم چلائی ہے اس کے نتیجہ میں ، آج وجّیکا میں لکھنے والوں کی تعداد ،سو سے زیادہ ہے۔ ایک درجن سے زائد پبلیشر، وجّیکا میں طباعت و اشاعت کا کام کر رہے ہیں۔ اس بھاشا کا ' اپنا سماچار' نامی چینل کام کر ر ہا ہے جسے صرف عورتیں چلاتی ہیں۔'ہمار ٹی وی' اور آکاش وانی سے بھی اس بھاشا میں نشریات کا سلسلہ جاری ہے۔ 'لکشمی ایلتھن ہمار انگنا' اور 'ساجن ایہا ڈولی لیئکے' جیسی فیچر فلموں کے بنانے کی تیاری ہے۔ سنجیدہ تحقیقی کام بھی ہو رہا ہے۔ ابھیشیش کمار کشیپ کےتحقیقی مقالہ The pragmatic princples of Bajjika اور ایسے دیگر مقالہ جات کو acadmia.edu کی ویب سائٹ پر پڑھا جاسکتا ہے۔ (انہوں نے کچھ ایسا نظم کیا ہے کہ اسے نہ تو ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے اورنہ چھاپا جا سکتا ہے)۔ اس ترقّی کے باوجود کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ وجّیکا اس دباؤ سے آزاد ہے جس کا شکار اُس علاقے کی دیگربولیاں ہیں؟ اور کیا اس بھاشا کے سمٹنے سکڑنےکا عمل بند ہوگیا ہے؟۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندی سمیت تمام بولیاں
اورزبانیں اُس عمل کا شکار ہیں جسے لسانی ہجرت (language shift) کہا جاتا ہےاور جس عمل میں لوگ اپنی زبان سے صرفِ نظر کر کے کسی زیادہ با اختیار زبان کا رخ کرتے ہیں؛ یعنی پہلے لوگ ان بولیوں سے ہندی کی طرف ہجرت کرتے ہیں اور پھر انگریزی کو اپناتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 1960 اور 70 کی دہائی میں ہندی کے جو جیالے اس کی ترقی کے لیے اس حد تک پُرجوش تھے کہ اتّرپردیش اور مدھیہ پردیش میں انگریزی کے سائن بورڈ پر سیاہی پوت دیتے تھے ، ان کی تیسری نسل اب ہندی پڑھنے سے کترا رہی ہے کیونکہ انگریزی ان کو معاشی اور سیاسی طور پر زیادہ با اختیار بنا سکتی ہے ۔ اسی لیےاب جن سنگھ کی جانشین بھارتیہ جنتا پارٹی اور سوشلسٹوں کے ایجنڈے میں ہندی کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ اپنی زبان کو اونچے درجہ پر فائز کرکے دیگر زبانوں کو اپنی بولی قرار دینے کی وجہ سے ہندی ،اِن بھاشاؤں کے ساتھ برابری کا جمہوری رشتہ بنانے میں ناکام رہی ہے۔ نتیجتاً لسانی ہجرت کے اس عمل میں ہندی اکیلی اور بے بس نظر آرہی ہے ۔اس کے بعض بڑے اُدَبا ء ہنگلش( ہندی اور انگر یز ی کے مخلوط استعمال والی زبان ) کے جواز میں دلائل پیش کررہے ہیں اور اِسے لسانی ارتقاء کا نام دے رہے ہیں۔ کسی بھی زبان کے لیے یہ ایک خطرناک مرحلہ ہے۔
یہ صرف ہندوستان میں نہیں ہورہا ہے بلکہ دنیا کی تمام زبانیں اور بولیاں اس کی زد میں ہیں۔اسی لیے یہ اندیشہ ظاہرکیا جا رہا ہے کہ اس صدی کے اواخر تک،موجودہ پانچ ہزار زبانوں میں سے نصف زبانیں معدوم ہوجائیں گی اور صرف وہی زبانیں بچیں گی جو نسبتاً زیادہ با اختیار ہیں؛اس طرح ان زبانوں میں محفوظ انسانی تجربات کا خزانہ ہمیشہ کے لیے کھو جائے گا۔
حیاتیاتی بوقلمونی کو لاحق خطرات پر سائنسی برادری میں ہلچل ہے،دنیا بھر کی حکو متیں اس طرف متوجّہ ہو رہی ہیں، مگر زبان اور ثقافت کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ اجتماعی بے توجّہی کا شکار ہے گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ایک سال قبل، یعنی 8 اکتوبر سے 19 اکتوبر 2012کے درمیان،حیدرآبادمیں منعقد ہونے والا، 192 ممالک کا حیاتیاتی بوقلمونی کنونشن اس اجتماعی تشویش کا مظہر ہے جو حیاتیاتی بوقلمونی کو لاحق خطرات کے بارے میں ساری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ غیر ترقّی یافتہ ممالک کو قدرت نے جو حیاتیاتی دولت عطا کی ہےاس کی لوٹ ،کثیر ملکی کمپنیوں کے ذریعہ اس کا تجارتی استعمال اور اس سے حاصل ہونے والے منافع سے ان ممالک کے باشند و ں کو محروم رکھنا،یہ سب گزشتہ دو دہائی سے بحث کا موضوع رہا ہے۔ 29 اکتوبر2010کو نَگویا (جاپان) میں ہونے والے حیاتیاتی کنونشن میں، حیاتیاتی لوٹ کو روکنے اور کسی بھی خطّے کے حیاتیاتی ذخیرے سے پیدا ہونے والی آمد نی میں مقامی لوگوں کو حصّہ دینے کا التزام کیا گیاتھا؛حالانکہ اس میں یہ وضاحت نہیں کی گئی تھی کہ یہ حصّہ کس طرح ادا کیا جائے گا۔آیا اُن کو یکمشت ادائیگی کرکے تجارتی کمپنیا ں عرصہءدراز تک منافع کمانے کے لیے آزاد ہوں گی یا رائلٹی کی شکل میں مقامی لوگوں لگاتار اپنا حصّہ ملتا رہے گا۔ یہ آدھا ادھور التز ام بھی جو نگویا پروٹوکول کے نام سے جانا جاتا ہے تب ہی رو بہ عمل آسکتا ہے جب دنیا کے کم از کم پچاس ممالک اس کی توثیق کریں۔ حیدر آ با د میں ہونے والے کنونشن تک، یعنی دو سال میں، محض چھ ممالک نے اس کی توثیق کی تھی۔ میزبان ہندوستان نے حیدرآباد کنونشن کےمو قع پر اس کی توثیق کا فیصلہ کیا اوراس طرح وہ توثیق کرنے والا ساتواں ملک بن گیا۔ کنونشن کے مقاصد کے حصول کے لیے ہندوستان نے پچاس ملین ڈالر مختص کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھاجس کی عملی شکل ایک سال گذر جانے کے بعد اب تک ظاہر نہیں ہوئی ہے ۔۔۔ لیکن اس سلسلے میں ترقّی یافتہ ممالک کا رویّہ تو نہایت غیر ذ مہ د ارانہ رہا جن کی تجارتی کمپنیاں حیاتیاتی لوٹ میں سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔ اس میں امریکہ نے شرکت نہیں کی جس کی تجارتی کمپنیاں حیاتیاتی ذخیرہ کے استعمال سے سب سے زیادہ نفع کما رہی ہیں لیکن وہ کنونشن کی کارروائی کی باہر سے نگرانی کرتی رہیں۔ بقیہ ترقّی یافتہ ممالک کے نمائندوں نے کچھ ایسا کردار ادا کیا کہ حیاتیاتی ذخیرے کی لوٹ کو روکنے کے بارے میں کوئی اتّفاق رائے نہیں ہوسکی۔ بعض ترقّی یافتہ ممالک کے مندوبین تو اس بات کے کوشاں رہے کہ پروٹو کول کے اس دفعہ کو ہی باقی نہ رہنے دیا جائے جس میں مقامی لوگوں کو منافع میں شریک کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اپنی تمام کمیوں اور خرابیوں کے باوجود ، نگویا اور حیدرآباد کے کنونشن کی یہ اہمیت تو ہے ہی کہ حیاتیاتی بوقلمونی کو لاحق خطرہ،عالمی توجہ کامرکز بناہوا ہے؛ زبان و ثقافت کے معاملہ میں اتنا بھی نہیں ہورہا ہے۔
جن عوامل کی وجہ سے حیا تیاتی بوقلمونی کو نقصان پہنچ رہا ہے وہ زبان و ثقافت کی تباہی کے لیے بھی ذمہ دار ہیں۔ ان کی بقا بھی ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ پھر بھی، حیاتیاتی کنونشن میں ہونے والی بحث میں لسانی بوقلمونی کو درپیش خطرات کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ثقافت کا ذکر جس انداز میں کیا گیا اس نے اس اصطلاح کا مفہوم ہی بدل دیا۔ اس کا زبانوں کے معدو م ہونے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ محض اتّفاق نہیں ہے کہ دنیا کے بارہ میگا حیاتیاتی بوقلمون خطّوں میں سے دس خطّے،لسانی اعتبار سے بھی،میگا بوقلمون خطّے ہیں۔ جنوبی ایشیا بھی ان میں سے ایک ہے جہاں زبانیں تیزی سے معدوم ہو رہی ہیں۔ انڈو مان نکوبار جزائر جہاں تین درجن سے زائد زبانیں پہلے ہی معدوم ہوچکی ہیں وہاں سے گذشتہ سال خبر آئی کہ ' بو ' زبان بولنے والی آخری عورت بھی چل بسی۔ 2008 میں خبر آئی کہ نیپال میں ' ڈورا ' زبان کی بولنے والی آخری عورت 82 سالہ سوما دیوی بچی ہے۔ اس کی موت کے بعد اس زبان کا جاننے والا کوئی نہیں ہو گا۔ اسی سال خبر آئی کہ 'کَسنڈا ' جسے گم شدہ زبان سمجھ لیا گیا تھا اس کے بولنے والے تین لوگ نیپال میں زندہ ہیں۔ ماہرین لسا نیا ت کَسنڈا کوکسی بھی لسانی خاندان یا گروہ میں نہیں رکھ پائے ہیں؛ایسی ز با ن کو language isolate کہا جاتا ہے ۔ ۔جانوروں میں بھی ایسی اقسام پائی جاتی ہیں ، سائنسداں جن کی درجہ بندی نہیں کرپا تے ہیں۔ان کو connecting link یا missing link کہا جاتا ہے۔ یہ ارتقاء کی کھوئی کڑیوں کا پتہ دیتے ہیں۔اگر یہ کھو جائیں تو حیاتیاتی ارتقاء کی کڑیاں غائب ہو جائیں گی۔
یہی حال language isoletes کا ہے۔ ایسی کسی ایک زبان کا کھو جانا لسانی ارتقاء کی تاریخ کے مطالعہ کو نامکمل بنا د ے گا۔ پھر بھی ایسی زبانیں ناپید ہو رہی ہیں۔ مثلاً ایسی ہی ایک زبان 'نہالی 'ہے جس کے بولنے والے مدھیہ پردیس میں ،تاپتی ندی کے جنوب میں، گوالی گڑھ کی پہاڑیوں کے گرد آباد ہیں۔ اب ان کے بولنے والوں کی تعداد محض دو ہزار رہ گئی ہے۔اسی قسم کی ایک اور زبان بورشکی ہے، جس کے بولنے والے لوگ ہنزا اور نگر میں پچاس ہزار کی تعداد میں اور یٰسین میں اسّی ہزار کی تعداد میں موجود ہیں۔ان کی اچھی خاصی تعداد گلگٹ میں بھی آباد ہے۔ لیکن یہ زبان چاروں طرف سے ایرانی اور ہند آریائی زبانوں سے گھری ہوئی ہے اور باہری دنیا کا دباؤ اس پر بڑھتا جارہا ہے۔ چند دہائیوں میں اس زبان کے معدوم ہو جانے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ شمال مشرقی ہندوستان میں ایسا بہت سا بیش بہا لسانی ورثہ گم ہو رہا ہے ۔ اس سے لاتعلق رہنااجتماعی بےحسی کا غمّاز ہے۔
گرچہ 1990 کی دہائی سے ہی تحقیق و تفتیش کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے یہ واضح کردیا کہ حیاتیاتی بوقلمونی کو نقصان پہنچانے والے عوامل، لسانی بوقلمونی کو تباہ کر کے لیے بھی ذ مہ دار ہیں۔ تحقیقات نے ان کے باہمی رشتہ کو واضح کردیا پھر بھی نہ تو UNESCO کے Universal Declaration on Cultural Diversity میں اور نہ ہی حیاتیاتی کنونشن میں اسے قابلِ اعتناء سمجھا گیا۔ یونیسکو کے ڈیکلیریشن کی دفعات 1 تا 7 میں کلچر کا ذکرجن معنوں میں کیا گیا ہے وہ لسانی تباہی کے بار ے میں پائی جانے والی تشویش سے متعلق نہیں ہے۔ ہندوستان میں، کمشنر برائے لسانی اقلّیت نےبھی اپنی سا لا نہ رپورٹوں میں اسے اہمیت نہیں دی جبکہ یہ سراسر لسانی اقلّیت کا مسئلہ ہے۔ ایسے میں، جب مر کزی کابینہ کے سامنے نگویا پروٹو کول کی توثیق کا ایجنڈا آیا تو اس میں نہ تو لسانی بوقلمونی کو لاحق خطرات کا ذکر تھا اور نہ اس پر غور کیا گیا۔ یونین گورنمنٹ کی طرف سے جاری پریس نوٹ میں کہا گیا کہ ہندوستان ایک میگا بوقلمون خطّہ ہےجس میں متنوع حیاتیاتی مظاہر پائے جاتے ہیں اور یہ کہ "ہندوستان، دنیا کے محض 2ء4 برّی حصّہ پر مشتمل ہے مگر اس میں دنیا کے7تا 8 فیصد حیاتیا تی انواع موجود ہیں۔۔۔" لیکن جو بات نظر انداز کر دی گئی وہ یہ کہ دنیا کے بارہ میگا حیاتیاتی بو قلمون خطّہ میں سے دس لسانی اعتبار سے بھی میگا بوقلمون ہیں اور ہندوستان ان میں سے ایک ہے۔

یہ وہ پس منظر ہے جس میں لسانی ہجرت کے عمل کو دیکھا جانا چاہئے۔جب کسی بھی زبان میں لسانی ہجرت کا عمل شروع ہو تا ہے تو نہ صرف یہ کہ عام لوگ دوسری با اختیا ر زبان کو اپنانے لگتے ہیں بلکہ اس کے بہترین اذہان اپنی دانشورانہ صلاحیتوں کا اظہار بھی اس زبان میں کرنے لگتے ہیں جو بااختیار اور پہلے سےہی مالا مال ہوتی ہے۔ یہ ان کے لیے ذاتی منفعت کا ذریعہ بنتی ہے مگر ان کی اپنی زبان، دانشورانہ جوہر سے محروم ہوتی جاتی ہے۔ اب پطرس بخاری، عزیزاحمد اورقرۃالعین حیدر جیسی صلاحیتوں کے لوگ اردو میں لکھنے کے بجائے انگریزی جیسی بااختیار زبان میں لکھ کر زیادہ مالی فائدہ اور زیادہ شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یا وہ تمام سائنسداں،مور خ اور فلسفی جو اپنی مادری زبان میں اظہار کی قوّت رکھتے تھے اور اس میں لکھنا باعثِ فخرسمجھتے تھے،اس گروہ کے لوگ اب نہ تو مادری زبان میں قدرت رکھتے ہیں اور نہ ہی اس میں لکھنے کو ضروری سمجھتے ہیں؛بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس طبقہ کے لوگ اپنی اولاد کو مادری زبان سکھانا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ ان گھرانوں کے بچّے انگریزی کو اپنی پہلی زبان کے طور پر پڑھتے ہیں۔ جو بچّے انگریزی کو پہلی زبان کے طور پر اپنانے کی استعداد نہیں رکھتے ان کے والدین بھی، کم از کم اس کی خواہش ضرور رکھتے ہیں اور کسی موقع کےمتلاشی رہتے ہیں۔ یہ عمل اردو اور ہندی سمیت تمام ہندوستانی زبانوں میں جا ری ہے؛ کسی میں کم کسی میں زیادہ ۔ اس لیے اگر وجّیکا، میتھلی یا بھوجپوری میں کچھ کام ہورہا ہے تو اس سے کی ترقّی تو ہوری ہے مگریہ اس کی زندگی کی ضمانت نہیں ہے۔ اس کی زندگی کی ضمانت ہوسکتا ہےایک تو اس کے بولنے والوں کا اس سےلگاؤ جو لسانی ہجرت میں سدّراہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثلاً اس معاملہ میں بھوجپوری میں مزاحمت کی زیادہ صلاحیت ہے جس کے بولنے والے کئی نسل کے بعد اور اپنی اصل سرزمین سے کٹ جانے کے باوجود ماریشش، سوری نام اور فجی میں اپنی زبان سے چمٹے ہوئے ہیں اور اپنے روزمرّہ میں اس کا استعمال کرتے ہیں۔ مزاحمت کی یہ قوّت ہندی،اردو، وجّیکا یا میتھلی میں نظر نہیں آتی۔ ان کے بولنے والوں کی دوسری یا تیسری نسل بڑی آسانی سے کسی دوسری زبان میں ہجرت کرجاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ دوسری چیز جو اس کی زندگی کی ضمانت بن سکتی ہے وہ ہے سرکا ر کی توجّہ اور اس کے اندر لسانی بوقلمونی کی سمجھ کہ وہ ان زبانوں کو بااختیار بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس لیے وہ تمام کوششیں تو اہم ہیں جو وجّیکا یا دوسری زبان کے لوگ اپنی زبان کو ترقی دینے کے لیے کر رہے ہیں،مگر ان سب سے اہم ہے ان زبانوں کوتعلیم کی زبان بنانا، و نیز اسے لوگوں کی معاشی اور سیاسی سرگرمیوں سے جوڑنا ؛اور یہیں سےسرکار کی ذ مہ داری شروع ہوتی ہے۔
دستورِ ہند میں واضح طور پر یہ التزام کیا گیا ہے کہ بچّے کو ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں ہی دی جائے۔اس پر جوآدھا ادھورا عمل ہورہاہے، اس میں یہ گڑبڑی بھی شامل ہے کہ عملی طور پر، مادری زبان سے مراد لی جا رہی ہیں صرف وہ 22 زبانیں جو دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈیول میں درج ہیں۔ بقیہ زبانیں جن کے بولنے والےاسی ملک کے شہری ہیں وہ اس لسانی حق سے محروم ہیں ۔
ہمارا جمہوری نظام ابھی عوام کی ضرورتوں اور تمنّاؤں کے سانچے میں اتنا نہیں ڈھلا ہے کہ ضلع کی سطح کے حکّام، عوام سے، اس کی بولی اور اس کی بھاشامیں ہم کلام ہوسکیں۔ چند حکّام اپنے علاقے کی زبان سیکھیں،اس کے بجائے عوام کی کثیر تعداد سے مطالبہ کیا جاتا ہےکہ وہ بااختیار سرکاری زبان سیکھیں اور اس میں حاکم کے سامنے درخواست گذار ہوں۔ حکّام کو اندازہ نہیں کہ مثلاً ایک میتھلی یا بھوجپوری بولنے والے عام آدمی کے لیے انگریزی توکیا ہندی میں بھی درخواست لکھنا کتنا مشکل کام ہے؛ یایہ کہ ان بولیوں کے بولنے والے گھرانے کے بچّے کو پہلی جماعت سے ہی ہندی یا انگریزی پڑھنے میں کن اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگست 1961میں ہونے والی وزرائے اعلیٰ کی کانفرنس میں اس بات پر اتفاق تھا کہ اگر کسی ضلع میں کسی زبان کے بولنے والوں کی تعداد ساٹھ فیصد سے زائد ہو تو اسے دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیے دیا جائے پھر بھی عملی طور پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہورہی ہے۔ مثال کے طور پر نکوباری زبان کے بولنے والوں کی تعداد نکو با ر ضلع میں 28ہزار ہے؛ یعنی یہ اس ضلع کی 60فیصد آبادی کی زبان ہے۔ کمشنر لسانی اقلیت نے سفارش کی کہ اسے اس ضلع میں سرکاری کام کاج کے لیے ایک اور زبان کی قانونی حیثیت دی جائے مگر کچھ نہیں ہوا۔ وہاں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس نے انڈمان نکوبار میں اب تک کسی بھی مذہبی یا لسانی گروہ کو اقلیت کا درجہ نہیں دیا ہے؛ حالانکہ یہ مسئلہ ان کے ماننے یا نہ ماننے کا نہیں ہے بلکہ ایک دستوری حق ہے۔ گرچہ نکوباری میں تعلیم کا محدود انتظام ہے اور اس میں درخواست قبول کرلی جاتی ہے جس کا ترجمہ کرکے اس پر فیصلہ کیا جاتا ہے،پھر بھی اس زبان کو سرکار ی کام کاج کی ایک اور زبان کی حیثیت نہیں دی جارہی ہے۔ جتنا کچھ نکوباری کو ملا ہے اتنا بھی وجّیکا یا بھوجپوری کو نہیں مل سکا۔ بہت سی زبانوں اور بولیوں کے سا تھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ سر کاری کارندوں کے ایسے جانب دارانہ رویہ کی وجہ سے، اب اگر ایک اردو والا یہ محسوس کرتا ہے کہ اردو میں لکھی گئی اس کی درخواست پر مناسب کارروائی نہیں ہوگی یا کارروائی میں تاخیر ہوگی تو وہ اس زبان کی طرف راغب ہوتا ہے جس میں بروقت کارروائی کا امکان زیادہ ہوتا ہے ۔ یہیں سے لسانی ہجرت کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہ پالیسی بھی ذمّہ دار ہے جس نے بعض زبانوں کو بر تر مرتبہ عطا کردیا ہے و نیز وہ غیر علمی فیصلہ بھی جس کے تحت بہت سی بولیوں کو ہندی کی بولی قرار دے کر اس کی آزادانہ نشو نما میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب میتھلی جیسی پرانی اور مکمل زبان کو ہندی کی بولی قرار دیا جاتا تھا۔ وجّیکا کے ساتھ یہ سلوک اب بھی جاری ہے۔ اردو زبان کی فلموں کو ہندی کا سرٹی فیکٹ عطا کیا جانا بھی اسی عمل کا حصّہ ہے۔
بااختیاری کے اس کھیل میں رسمِ خط کا بھی استعمال ہو رہا ہے۔ گریرسن کی رپورٹ بتاتی ہے کہ شمالی ہندوستان میں اردو کے بعد سب سے مستعمل رسمِ خط کیتھی تھا۔عام کہاوت تھی کہ بھوجپوری تو کیتھی میں ہی کھبُتی ہے۔ اس رسمِ خط کا نا م و نشان لگ بھگ مٹا دیاگیا۔ اسی عمل میں میتھلی کا اپنا ترہتیا رسمِ خط بھی اس سے چھن گیا۔ یہ سب بلا وجہ نہیں ہوا۔ رسمِ خط کی تبدیلی کسی زبان کو نہ صرف اس کی تاریخی روایتوں سے جدا کرتی ہے اوربعض لسانی مسائل پیدا کر تی ہے بلکہ اس کی پہچان کو ختم کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ یہ سب معاشی اور سیاسی برتری اور بااختیاری حاصل کرنے کے عمل کا حصّہ ہے۔اس لیے زبان کے تحفّظ و ترقّی کی کوششوں میں ان تمام امور کو ذہن میں رکھناچاہئے۔

***
Dr. Qaiser Shamim
qaiser.shamim[@]msn.com

Linguistic migration and its empowerment. Article: Dr. Qaiser Shamim

1 تبصرہ:

  1. پاکستان کے شہروں میں میڈیا، سرکار، سماج کے دباؤ کی وجہ سے اردو مقامی زبانوں کی جگہ لے رہی ہے، یعنی مادری زبان اردو بنتی جا رہی ہے۔ دادا دادی اور نانا نانی مقامی زبان بولتے ہیں لیکن ماں باپ بچوں کے ساتھ اردو بولتے ہیں۔ اگرچہ پنجابی جیسی بڑی زبان ایسے ختم تو نہیں ہو گی لیکن اب یہ ہنسی ٹھٹھے کی زبان بنتی جا رہی ہے، ایسے بچے ماں باپ نہیں یاروں دوستوں اور گلی محلے سے مقامی زبان سیکھ رہے ہیں (وہ بھی جن کا نچلے یا چھوٹے علاقوں کے بچوں کے ساتھ یارانہ ہے ورنہ وہ اپنے آپ کو اردو سپیکنگ کہلوا کر فخر محسوس کرتے ہیں)۔

    جواب دیںحذف کریں