سینٹرل اسکولوں میں اردو تعلیم کو لازمی بنایا جائے - پروفیسر اختر الواسع کمیٹی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-20

سینٹرل اسکولوں میں اردو تعلیم کو لازمی بنایا جائے - پروفیسر اختر الواسع کمیٹی

وزارت فروغ انسانی وسائل کے ذریعہ اردو زبان کی ترقی اور اقلیتوں میں انگریزی کے حوالہ سے تعلیمی استعداد کے فروغ کے لیے پروفیسر اختر الواسع کی قیادت میں قائم کردہ ضمنی کمیٹی نے آج اپنی رپورٹ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل ڈاکٹر ایم ایم پلّم راجو کو پیش کردی ۔ سب کمیٹی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کمیٹی کے چیئر مین پروفیسر اخترالواسع نے وزیر موصوف پر اعتمادکا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس وزارت کے سربراہ ہیں نجس کے پہلے وزیرر مولانا ابولکلام آزادؒ تھے اور آپ ایسے حکقہ سے منتخب ہوکر آتے ہیں جہاں 1923میں کانگریس کے کاکی ناڈااجلاس کی صدرات جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانی ممبر مولانا محمد علی جوہہر نے کی تھی ۔ مولانا آزاد اور مولاناا محمد علی جوہر دونوں ہی ہماری تحریک آزادی کے کارواں کے سالاروں میں شامل ۔ یہ دونوں کانگریس کے صدر بھی رہے اور اردو زبان وادب اوور صحافت کے عظیم ستون بھی ہیں ۔ ان کے جانشیں ہونے کی حیثیت سے یقینی طور پر آپ اردو زبان کے ساتھ انصاف کو یقینی بنائیں گے اور کامیابی کے ساتھ اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کی اسکیموں کو نافذ کریں گے ۔ اختر الواسع کمیٹی نے فروغ انسانی وسائل کے وزیر کو جورپورٹ پیش کی ہے اس میں شامل اہم سفارشات میں کہا گیاہے کہ ماہرین کی ایک مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دی جائے جو مذکورہ کمیٹی میں سفارشات ودیگر تجاویز کی روشنی میں اردو زبان کیے فروغ سے متعلقہ منصوبوں کے نفاذ کو یقینی بنائے ۔ ایسی مانیٹرنگ کمیٹی میں پرنسل ، دہلی یونیورسٹی ،جامعہ ملیہ اسلامیہ ۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور دیگر اداروں کے اردو میڈیم اسکولوں کے پرنسپل اور اردو ٹیچرس ومعروف اردو اسکالرس کی خدمات حاصل کی جانی چاہئیں تاکہ وہ زمینی حقائق کا جائزہ لے سکیں ۔مزید کہا گیا ہے کہ ااعداد وشمار اورٹکنیک سے آراستہ ایک ایسے جوابدہ ادارہ کو فروغ دیا جانا چاہیے جواردو اساتذہ کی ٹریننگ کو یقینی بناسکے ۔ اختر الواسع کمیٹی نے کہا ہے کہ ہندوستان میں کیندریہ ودیالیہ کا ایسا کوئی اسکول نہیں ہے جہاں اردو کی تعلیم دی جاتی ہو، کیونکہ اس کی شرط کے مطابق اردو پڑھنے والے کم از کم 20طلبہ کی موجودگی میں ہی تدریسی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے ،اس لیے کیدریہ ودیالیہ کے ضابطہ نمبر 122میں مناسب ترمیم کے ذریعے طلبہ کی موجودگی کی شرط کو کم کر کے 5یا6کردیا جائے ۔اردو زبان کو جواہر نوودے ودیالیہ اور کستور باگاندھی بلیکا ودیالیہ میں لازمی مضمون کے طور پر متعارف کرایا جائے ۔ اردو میڈیم اسکولوں کو 5فیصد چھوٹ اور سرکاری کالجوں میں داخلہ کے لیے کوٹامتعین کیا جائے ۔ وہ طلبہ جو بطور مضمون اردو پڑھانے کی ٹریننگ لے رہے ہیں اور ان کا ذریعہ،تعلیم اردو نہیں ہے انہیں بھی مطلوبہ ٹریننگ دی جائے ۔ ٹیچرٹریننگ کا ایک ڈپلومہ کورس مدراس کے فارغین کے لیے ہو اور اسی کے ساتھ ساتھ ڈپلومہ ان مدرسہ ٹیچر ایجوکیشن اور ڈپلومہ ان ایلمنٹری ٹیچر ایجوکیشن کو بھی متعارف کرایا جائے ۔ سب کمیٹی نے اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ اترپردیش اور بعض دیگر ریاستوں میں اردو میڈیم اسکول نہیں کھولے جاسکتے ، کیونکہ وہاں کچھ ایسی قانونی پیچیدگیاں ہیں جن کے تحت سرکاری زبان کا بطور ذریعہ تعلیم استعمال لازمی ہے ۔ اس لیے حکومت کو ایسے قوانین وضع کرنے چاہئیں جن سے اترپردیش اور ان جیسی ریاستوں کو اس بات کی اجازت ہوکہ وہ اردو میڈیم تعلیمی ادارے قائم کرسکیں ۔سہ لسانی فارمولہ کے نفاذ میں شفافیت ہونی چاہیے ، کیونکہ اردو زبان عملی طور پر جدید ہندوستانی زبانوں کے زمرے سے کنارے ہوچکی ہے جس سے طلبہ میں محرومی بڑھ رہی ہے ،طلبہ کو کسی طرح بھی متوجہ کرکے انہیں اردو سیکھنے کی بجائے اس بات کے لئے آمادہ کیا جارہا ہے کہ وہ اردو کی جگہ دیگر زبانیں سیکھنے پر مائل ہوں ۔ اردو زبان کی تشہیر ،فروغ اور تعلیم کے سبھی اداروں کے ایڈمنسٹر یٹیواور نیم اکیڈمک اسٹاف کے لیے اردو جاننا لازمی قرار دیا جائے ۔ کچھ خاص طبقات خاص طور خواتین کے لیے اردو زبان کی تعلیم کے لیے فاصلاتی نظام تعلیم بے حد مؤثر ثابت ہوسکتا ہے ، کیونکہ وہ اپنی تعلیم کے لیے مستقل اسکول نہیں جا پاتی ہیں ۔اس سلسلے میں علی گڑھ میں قائم تعلیمی ادارہ’جامعہ اردو‘نے گذشتہ تقریبا 75برسوں سے نہایت قابل قدررول ادا کیا ہے ، اس لیے اسے ڈیمنڈیونیورسٹی کا درجہ دیا جانا چاہیے ۔اختر الواسع کمیٹی نے کہا ہے کہ فوریطور پر ضروری ہے کہ محروم طبقات خاص طور پر اردو بولنے والی اقلیتوں کے درمیان انگریزی زبان کی صلاحیت کے فروغ کو یقینی بنانے کی منصوبہ بند کوشش کی جائے جو انگریزی زبان کے کورسز کے تعلیمی اور انتظامی امور کے مختلف پہلوؤں پر غور کرے ۔ بول چال کی زبان کو رائج کرنے کی تدریس پر اس طرح خصوصی توجہ دی جانی چاہیے کہ انگریزی زبان کو سمجھنے ، پڑھنے ،لکھنے اوربولنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے ۔اس کے علاوہ یہ سفارش کی گئی ہے کہ درج ذیل مفید سر گرمیوں کو قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو کی اسکیموں وپروگراموں میں شامل کیا جانا چاہیے ۔ یہ پروگرام ہیں ،ترجمہ متعلق کورسز کو متعارف کرایا جائے ، کمپیوٹر کورس اور اردو ڈپلومہ کورس کے مزید سنٹر ملک کے مختلف حصوں ، خاص طور پر اردو بولنے والوں کی کثیر آبادی والے اضلاع اور بلاکوں میں کھولے جانے چاہئیں ، ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو قومی سطح پر ٹرینڈاردو ٹیچرس کا رجسٹر مرتب کرے ، اردو کے میدان میں ڈیجیٹل میڈیا کو فروغ دیا جائے ، اردو سافٹ ویئر کو ترقی دی جائے ، این سی پی یو ایل کے بجٹ کو بڑھاکر 100کروڑ روپے کردیا جائے اور اضافی انفرااسٹرکچر اور جگہ ومکان فراہم کیا جائے تاکہ اس کی مطبوعات کو رکھا جاسکے ۔ اس کے علاوہ اخترالواسع کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ بی ایداور ای ٹی ای ٹرینڈاردو ٹیچرس کے لیے لازمی کم از کم ڈگری کے ضابطہ میں ترمیم کرکے مدراس کے قارعین کے لیے دسویں اور بارہویں درجہ کے سطح کا ایک امتحان ہونا چاہیے جس کے سرٹیفکٹ سے وہ ٹریننگ کورسز میں داخلہ کے اہل ہوسکیں ۔اس کے علاوہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کو علاحدہ بجٹ فراہم کرانے ،اردو جرنلزم کورسزچلانے کی سفارش بھی کی گئی ہے ۔ اس سب کمیٹی کے دیگر ممبران میں سید حسن شجاع ،ڈاکٹر ماجددیوبندی ، پدمشری پروفیسر ایس آرقدوائی ، محترمہ سیدہ بلگرامی امام اور ہائر ایجو کیشن کے ڈپٹی سکریٹری ایس کے موہنتی شامل تھے جب کہ خصوصی ممبر کے طور پر قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین شامل تھے ۔

The sub-committee on promotion of Urdu language Thursday asked the government to enact laws for establishment of Urdu-medium educational institutes in states like Uttar Pradesh and conduct examinations in the language.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں