دہلی اسمبلی انتخابات - سیاسی جماعتوں کے دلچسپ و عجیب انتخابی نشان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-01

دہلی اسمبلی انتخابات - سیاسی جماعتوں کے دلچسپ و عجیب انتخابی نشان

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشان ان کی اوران کے امیدواروں کی شناخت میں بے حد اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ دوسری طرف عوام کی کثیر تعداد بیلیٹ پیپرس اور الکٹرانک وٹنگ مشینوں پر لکھے ہوئے نام بھی پڑھنے سے قاصر ہے ۔ دہلی اسمبلی انتخابات کے لیے اب صرف 4دن باقیرہ گئے ہیں اور قومی دارالحکومت میں ہر طرف پوسٹرس اور بیانرس چسپاں نظر آتے ہیں جن میں جانی پہنچانی یا عجیب وغریب علامتوں کے نام پرووٹ مانگے جارہے ہیں ۔ سب سے زیادہ جانے پہچانے نشانوں میں کانگریس کا ہاتھ ہے جو دراصل سرف ہتھیلی ہے اور بی جے پی انتخابی نشان کنول ہے ۔ اسی طرح بی ایس پی کے ہاتھی اور صرف ایک سال پرانی جماعت عام آدمی پارتی کی جھاڑو سے عوام اچھی طرح واقف ہیں ۔جو مختلف آزادامیدواروں یا غیرمعراف سیاسی جماعتوں کوالاٹ کئے گئے ہیں ۔ ان میں تختی ، ٹوپی ، آٹورکشا ، ٹیلی ویژن ، ہنیڈپمپ ، سیونگ مشین ، بلیک بورڈ ، غبارہ ، پین اسٹانڈ ، پتنگ ، خیمہ اور دیگر شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ دیگر نشانات میں بنگلہ ، پھلوں کی باسکٹ ، ہاکی اسٹک اور بال ، چشمہ ، گیس سلینڈر ، استری ، پیالی اور طشتری ، سیڑھی ، گھڑی اور قینچی ، گاجر ،پھول گابی ، کیک ، اسکول بیاگ ، وائلن ،شطرنج کی بساط ، ہکیٹ اور کیالکولیٹر شامل ہیں ۔ راشٹریہ علماء کونسل کوکیتلی الاٹ کی گئی ہے ۔ لوک پر یہ سماج پارٹی واکنگ اسٹک کے نشان پر ووٹ مانگ رہی ہے ۔ سمتا سنگھرش پارٹی کو مومی شمعیں الاٹ کی گئی ہیں ۔ اکھل بھارت ہندومہاسبھا کا انتخابی نشان کیمرہ ہے ۔ کلیان کاری جن تانترک پارٹی کا انتخابی نشان ٹیلیفون ہے جب کہ کرکٹ کے دیوانے ملک میں آدرش وادی کانگریس پارٹی نے بلے باز کو اپنی انتخابی علامات بنانا پسند کیا ہے ۔ انتخابی علامتوں کے الاٹمنٹ کا آغاز 1952 میں لوک سبھا انتخابات سے ہوا ۔ اس وقت عوام کی اکثریت ناخواندہ تھی اس کیباجود ان کے لئے ووٹ دینا ضروری تھا اسی لیے انتخابی عہدیداروں نے امیدواروں کی شناخت کے لیے انتخابی نشان الاٹ کرنے کا نظریہ پیش کیا ۔ گذشتہ کئی دہوں کے دوران بعض معراف انتخابی علامتیں جیسے بھارتیہ جنسنگھ کا ، چراغ ، اور کانگریس کا قدیم انتخابی نشان گائے اور بچھڑا، اب معدوم ہوچکی ہیں ۔ سیاسی تجزیہ نگار جی وی ایل نرسمہا راؤ نے بتایا کہ ابتدا میں جب سیاسی نشانوں کے الاٹمنٹ کاسلسلہ شروع ہواتو اس کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کا پہچاننے میں مدد کی جائے لہذا سیاسی جمعتوں نے ایسی علامات کا انتخاب کیا جو یا تو ان کے نظریات یا ان کے انتخابی اساس کی نشاندہی کرتے تھیں ۔ مثال کے طور پر عام آدمی پارٹی نے کاڑیوں کی جھاڑو کا انتخابی نشان پسندکیا جو ایک غیرمعمولی علامت ہے ۔ پارٹی پنی انتخابی علامت کے انتخاب سے یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ وہ سیاست کو کارپوریشن سے پاک کر نے کے عہد کی پا ہند ہے ۔ قو می اور ر یا ستی سطح کی مسملہ سیاسی جماعتوں کی انتخابی علامتوں کو دوسرے ا ستعمال نہیں کرسکتے ۔ الیکشن کمیشن دوسروں کو اس کیتیار کئے گئے مفت انتخابی نشانات میں سے کوئی نشان پسند کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے ، کسی زمانے میں چڑیاں ،طوطے ، مور ، فاختہ مقبول انتخابی علامات ہوا کرتی تھیں ۔ بعد ازاں یہ شکایت سامنے آئیں کہ امید وار ووٹ مانگنے کے لیے ان معصوم پرندوں کو قید میں رکھ رہے ہیں اور انھیں رائے دہندوں کے سامنے پیش کررہے ہیں ۔جس پر حیوانات سے محبت رکھنے والے حرکت میں آگئے اور ان علامتوں پر امتناع عائد کرادیا ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں