دینی مدارس کا ماضی و حال - مرکزی مدرسہ بورڈ کے نقصانات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-15

دینی مدارس کا ماضی و حال - مرکزی مدرسہ بورڈ کے نقصانات

past-n-present-of-madrasa
موجودہ زمانے میں تعلیم کی تاریخ پر کافی تحقیق کی گئی ہے، اور اس موضوع پر کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں، اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کی تاریخ میں اسلام کا ایک بہت بڑا حصہ ہے، اسلام نے معلوم تاریخ میں پہلی بار علم اور تعلیم کو محدود دائرے سے نکال کر وسیع دائرے تک پہنچایا، ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اسلام کا ظہور ہوا، اسلام سے پہلے علم صرف خواص کے دائرے کی چیز بنا ہوا تھا، اس کے تحت آنے والے انقلاب کے بع تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ علم کو خواص کے دائرے سے نکال کر عوام کے دائرے میں لایاگیا، توسیع تعلیم کی یہی انقلابی تحریک ہے جس کو تعلیم کی تاریخ میں مدرسہ کہا جاتا ہے ، انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا 1984ء میں تاریخ تعلیم پر 92 صفحات پر مشتمل ایک مفصل مقالہ شامل ہے۔
جس طرح پہلے دن ماں کے دودھ سے بچے کی جسمانی نشوونما کا آغاز ہوجاتا ہے، اللہ اکبر سے تصور حیات دینے کا عمل شروع ہوجاتاہے، کان میں اذان دینے سے بچے کا مسلم معاشرے میں ایڈمیشن شروع ہوجاتا ہے۔
مدرسہ بذات خود ایک نہایت اہم اور حساس ادارہ ہے، تمام اہل الرائے کا اس بات پر کلی اتفاق ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کی داستاں تعلیمی اداروں اور درس گاہوں میں لکھی جاتی ہے، تعلیمی ادارے معاشرے کا دل ہے، یہ درست ہوگا تو تمام شعبہ ہائے حیات درست ہوں گے، اور اس کے خراب ہونے سے پورا نظام فساد اور خرابی کا شکار ہوجاتا ہے۔
تعلیمی ادارے کا آج معاشرے کا کل ہے، مدرسہ ایک قدر افزا ادارہ ہے جو فرد کی افادیت کو بڑھاکر اسے معاشرے کیلئے زیادہ موثر بناتا ہے۔ تعلیمی ادارے کی اصل روح میں دو چیزیں بہت نمایاں ہیں:
1۔ بنیادی تصور حیات
2۔ مہارتیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو مدرسے کی ساکھ کا تعین کرتی ہے، جب تصور حیات اور مہارتیں جمع ہوتی ہیں تو اس تعلیمی ادارے کی ساکھ بنتی ہے، یہی ساکھ روح عصر ہوتی ہے، دوسری طرف یہی معاشرے کی قوت نمو ہوتی ہے۔

مغرب کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ چوں کہ ہم ترقی یافتہ ہیں، اس لئے ہمارا تصور حیات ہی سب سے اعلیٰ ہے، جب کہ ہم ان کی مہارتوں سے مرعوب ہوکر ان غلط تصور حیات کے تحت ان مہارتوں کا معاشرے میں استعمال اور اطلاق ہی دنیا میں موجودہ بگاڑ کا سبب ہے، جیسے سیٹلائٹ کی مہارت بذات خود کوئی بڑائی نہیں رکھتی، لیکن جن تصور حیات کے تحت اس کا استعمال ہورہا ہے اس سے وہ تہذیب خود بھی نقصان اٹھارہی ہے اور یہ مہارت فحاشی پھیلانے کا ذریعہ بن گئی ہے، اسی طرح بنک کاری کی مہارت سودی نظام کے تحت معاشی استحصال اور ظلم کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئی ہے، اگر یہی مہارتیں اسلام کے تصور حیات کے تحت استعمال کی جاتی تو فرد کتنا پرسکون ہوتا اور معاشرہ بھی کتنا پرامن، مدرسہ معاشرے کی اصل دھارے کی تشکیل کرتا ہے اس کیلئے مقدار اور معیار کی ضرورت ہے، حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ : مومن وہ ہے جس کا آج کل سے بہتر ہو، تعلیمی ادارہ یہی کام کرتا ہے وہ طالب علم کا آج اس کے گزرے ہوئے کل سے بہتر بنا تا ہے، اور آنے والے کل کے وسیع امکانات سے اسے روشناس کراتا ہے، مدرسہ ایک مکمل معاشرے کا ایک چھوٹا سا نمونہ اور اس کا حقیقی آئینہ ہوتاہے، کسی معاشرے کا مستقبل دیکھنا ہوتو اس کے مدرسے کاحال دیکھے۔

غیر دینی درسگاہوں میں جو فلسفہ حیات رائج ہے اس فلسفہ کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ انسان لذت اور مسرتوں کے حصول کو اپنی زندگی کا واحد مقصد بنالے، چنانچہ آج غیر دینی درسگاہوں کے تعلیم پائے ہوئے لوگ اسی واحد مقصد کے تحت زندگی گذار رہے ہیں، غیر دینی درسگاہوں میں تربیت پائے ہوئے لوگوں کا حال ہرجگہ یہی ہے خواہ وہ ہندوستان کے لوگ ہوں یا بیرون ہندوستان کے لوگ۔
دینی مدرسہ میں تعلیم پائے ہوئے انسان کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے، ایسے لوگ جس فلسفہ حیات کا سبق لے کر اپنے مادر علمی سے نکلتے ہیں وہ یہ ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کیلئے ہے نہ کہ حصول مسرت کیلئے یہ نقطہ نظر ان کے رویے کو یکسر بدل دیتا ہے وہ دنیا کی کامیابی کے بجائے آخرت کی کامیابی کو اپنی منزل بنالیتے ہیں، دنیا میں عیش ڈھونڈنے کے بجائے آخرت میں لذت کا حصول ان کا نشانہ بن جاتا ہے۔
سوچ کے اس فرق کا نتیجہ ہوتا ہے کہ دینی مدارس میں تعلیم پائے ہوئے لوگ تعیش کے بجائے ضرورت کو اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہیں، وہ فراوانی کے بجائے قناعت کے اصول پر راضی ہوتے ہیں، کل کی خوشی کا احساس آج کے غم کو ہلکا کردیتاہے، وہ کبھی مایوسی سے دوچار نہیں ہوتے، کیونکہ جو کچھ انہیں موجودہ دنیا میں ملتا ہے اسی کو وہ اپنے لئے کافی سمجھتے ہیں، ان کا سینہ حرض و حسد جیسے منفی احساسات سے پاک ہوتاہے، کیونکہ حرص و ہوس جیسے احساسات مادی کمی کے ذہن سے ابھرتے ہیں، اور دینی تعلیم کے تربیت یافتہ لوگ اپنے غیر مادی ذہن کی بناء پر اس کمزوری سے مکمل طورپر محفوظ رہتے ہیں، یہ چند مثالیں بتاتی ہیں کہ دینی مدارس اور غیر دینی مدارس میں کتنا فرق ہے۔ یہ درحقیقت دین ہے مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب کا، جسے ایک بالغ نظر عالم دین نے اپنی دینی بصیرت کی روشنی میں مرتب کیا تھا، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

مغل حکمرانوں کے دور میں ہندوستان علم و ہنر کا بڑا مرکز تھا، اس عہد میں جو نظام تعلیم رائج تھا وہ درسی نظامی کے نام سے مشہور ہے، اس نظام نے ہندوستان بلکہ برصغیر میں ہزاروں اہل علم و معرفت اور ماہرین صنعت و فنون پیدا کئے۔

درس نظامی ملا نظام الدین سہالوی (متوفی 1161ھ) کی طرف منسوب ہے، آپ بحرالعلوم علامہ عبدالعلی کے فرزند ارجمند تھے، آپ ہکنو کے مضافاتی قبضہ سہالہ میں 1088ھ میں پیدا ہوئے، شیخ علامہ نقشبندی اور شیخ امان اللہ بناری جیسے عظیم اساتذہ اور ماہرین تعلیم کے سامنے زانو تلمذ طئے کیا اور علوم و فنون کی گہری بصیرت حاصل کی، فراغت کے بعد اپنے والد بزرگوار کی مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوئے، آپ کے زیر نگرانی اس مدرسہ نے تمام علوم و فنون میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام حاصل کرلیا اور ہندوستان میں سب سے بڑا علمی مرکز قرار پایا۔
آپ نے اپنے مدرسہ کیلئے ایک نصاب مرتب کیا اور اس کا تجربہ بھی کیا، اس نصاب کی اہم خصوصیات کے پیش نظرہندوستان کے باقی مدارس نے بھی اسی کو اپنالیا اور انگریزی حکومت کے قیام تک ہندوستان کے تمام تعلیمی اداروں میں یہی نصاب بنیادی حیثیت سے نافذ تھا، یہ نصاب علوم عربیہ، تفسیر، حدیث، فقہ، عقائد، فلسفہ، منطق، ریاضی، طب اور ہندسہ وغیرہ تمام علوم کا جامع تھا، یہ نصاب گویا دینی و دنیوی علوم کا حسین امتزاج تھا، اسی لئے اس نظام کے فارغ التحصیل عملی زندگی کے ہر شعبے کی ذمہ دارایاں اٹھالینے کی استعداد رکھتے تھے، چنانچہ ہر شخص اپنے ذوق اور صلاحیتوں کے مطابق زندگی کے جس شعبے کو اختیار کرتا تھا اس کو ترقی کے تمام تر مواقع میسر رہتے تھے اس نظام تعلیم کے زیر تربیت کبار علماء، مفسرین، محدثین، فقہاء، متکلمین، فلاسفہ، اُدباء اور مصنفین کی طرف ماہر طب و سائنس، بڑے بڑے آفیسرس اور ماہرین قانون بھی پیدا ہوئے جو علم دین کے میدان میں مکمل ستگاہ رکھتے تھے۔
اس نظام تعلیم کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ آدمی اپنے دین میں مکمل رسوخ حاصل کرے اور اپنے عقائد میں پختگی پیدا کرکے اپنی عملی زندگی کو دینی بنیادوں پر استوار کرے نیز اپنے معتقدات اور علم کی صحت و درستگی کے دلائل سے کماحقہ واقف ہوسکے، تاکہ غلط نظریات اس کو کسی دھوکے میں مبتلا نہ کرسکیں، یہی وجہہ ہے کہ فراغت کے بعد کوئی طب و سائنس کا شعبہ اختیار کرلیتا یا فلسفہ و منطق کا، خاہ تفسیر و حدیث یا فقہ و قانون کے شعبوں کو اپنالیتا، مگر اس کے بارے میں راہ راست سے بھٹک جانے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔
ہندوستان پر جب انگریزوں کا تسلط ہوا اور انہوں نے ایک جدید نظام تعلیم کے نفاذ کا پروگرام مرتب کیا تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس نظام تعلیم کے اغراض و مقاصد (عقائد و اعمال میں پختگی و استقامت اور صحیح علمی ذوق) کی کچھ پروانہ نہ کی، بلکہ اس کے علی الرغم اپنی تمام تر کوشش اس کام میں لگادی کہ مسلمانوں کے دل سے دین اسلام اور اللہ و رسول کی محبت کو محو کردیا جائے، علوم قرآن و سنت اور مسلمانوں کے اسلاف کے تذکروں کو سرے سے اڑا دیا جائے اور صحیح دینی فکر سے مسلمانوں کو یکسر محروم کردیاجائے۔
لیکن بحمد اللہ ان مدارس نے اسلام اور مسلمانوں کیلئے عظیم خدمات انجام دی ہیں، انگریزوں کی خواہش کے خلاف اور اس راہ میں پیش آمد و مشکلات کے باوجود ایسے اکابر علماء پیدا کئے جنہوں نے اپنی وسعت علمی اور تقوی سے مدد لیتے ہوئے دینی موضوعات پر بے شمار تالیفات کیں، پرچم اسلام کی سربلندی کیلئے خود کو فنا کردئیے اور کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور خدا اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ غایت درجے کی محبت رکھنے میں متقدمین کی یاد تازہ کردی، بہرحال ہندوستان کے دینی مدارس اور اس کے نصاب کی افادیت سے انکار ایک حقیقت ثابتہ کا انکار ہوگا۔
موجودہ حکومت بھی مرکزی مدرسہ بورڈ کا شوشہ چھوڑ کر اور حقیقت مدارس کی افادیت اور اس تشخص کو پامال کرنا چاہتی ہے، وہ مدارس میں بھی مال و زر کی حرص و ہوس کی فضاء قائم کرنا چاہتی ہے جس کے نتیجے میں کردار کشی، فرائض کی ادائیگی میں تساہلی، احتساب کے خوف سے بے فکری، استعداد کے بجائے خدمات و مناصب کی کی سپردگی میں رشوت کا چلن اور اس طرح کی ناقابل بیان برائیوں کو فروغ دینا چہاتی ہے، چنانچہ بہار، یوپی اور بنگال کے مدرسہ بورڈ کی خرابیاں اظہر من الشمس ہیں۔ اسی لئے اس کی پرزور مخالفت جامعہ نظامیہ، دارالعلوم حیدرآباد، دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلوم، مظاہرہ علوم سہارنپور، مدرسہ قاسمہ شاہی مراد آباد اور دیگر اداروں اور تنظیم مثلاً آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعےۃ العلماء ہند، جماعت اسلامی وغیرہ نے کی ہے۔

***
مولانا محمد رحیم الدین انصاری
ناظم جامعہ اسلامیہ دارالعلوم ، حیدرآباد۔

The past & present of madrasa - Damages of Central Madrasa board. Article: Mohammad Rahimuddin Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں