پولیس اور مسلمان - دونوں کے رویے میں تبدیلی ضروری - آئی بی سربراہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-08

پولیس اور مسلمان - دونوں کے رویے میں تبدیلی ضروری - آئی بی سربراہ

آئی بی کے سربراہ آصف ابراہیم کا کہنا ہے کہ انڈین مجاہدین (آئی ایم) کی دہشت گردی کا جو چیلنج ہمیں درپیش تھا۔ اس میں کمی نہیں ہوئی ہے اور وزیراعظم نے دہشت گردوں کی انتخابات کو درہم برہم کرنے کی دھمکیوں کے خلاف قوم کو چوکنا بھی کیا ہے۔ ہم کس طرح ایسے مسلمان نوجوانوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں جنہیں خود ہماری سرزمین پر انتہا پسندی کی تعلیم دی جائے گی۔ اس کا ایک حل ہے جو آئی بی کے سربراہ آصف ابراہیم نے پیش کیا ہے کہ "تحقیقات سے جو سراغ ہمارے ہاتھ لگیں گے ہم سختی سے ان کی چھان بین کریں گے تاکہ آئی بی کے نیٹ ورک کو بے اثر کیا جاسکے۔ مجھے اس پر شدید حیرت ہوگی اگر اس بیان میں تضاد نہ پایا جاتا ہو، اگر ہمارا پچھا کرنے کا یہ عزم واقعی کارآمد ہوتا تو انڈین مجاہدین کا چیلنج ہمارے لئے کیوں اب بھی کم نہ ہوتا؟ آئی ایم کو سطحی پولیس کارروائی کے ذریعہ سے نہیں روکا جاسکتا۔ مسلمانوں کی ناراضگی کی سرزمین پر اس کے رنگروٹوں کا اضافہ ہوتا رہے گا اور پولیس کی نگرانی میں اگر تشدد پیدا ہوجائے اور خاص طورپر اس کا نشانہ غلط پڑجائے تو یہ خود اس کی مدد کا باعث بن جائے گا۔ صرف پاکستان ہی کو اس کے لئے دوش مت دیجئے۔ پاکستان فطری طورپر ناراض مسلم نوجوانوں سے فائدہ اٹھائے گا۔ راہول گاندھی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے حالیہ فسادات کے بعد مظفر نگر کے مسلمانوں سے بات چیت کی تھی۔ یہ نوجوان آئی ایس آئی سے خواہ مخواہ کیوں بات کرتے اگر اس علاقہ کے مسلمانوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا اور جو جھگڑا فساد کی بنیاد بنا فوری اس کا سدباب کیا جاتا۔ ہمیں اقلیتوں کے حساس وابستگی کو مٹنے سے بچانا چاہئے۔ مسلم برادری شدید تنہائی اور بے کسی کا شکار ہوگئی ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ کس سے مدد لینی چاہئے۔ ہر سیکولر سیاسی جماعت نے مسلمانوں کو دھوکا دیا، اس کے علاوہ یہاں جارحانہ ہندوتوا طاقتوں کو بھی خطرناک حدتک وسعت حاصل ہورہی ہے۔ ایک طرف حملہ آور کھڑے ہیں اور دوسری طرف انہیں حملے سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ مسلمانوں کو ایسامحسوس ہورہا ہے وہ چاروں طرف سے گھر گئے ہیں اور یہ تنہائی اور کسمپرسی، انہیں بدنام کرنے کی کوششوں کے باعث مزید بدترین بن گئی ہے۔ ایک مکتب خیال ایسا بھی ہے جو انہیں انسانی خون کی پیاسی برادری کی حیثیت سے پیش کرتا ہے اور بعض لوگ اس پروپگنڈہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مسلمان انڈین مجاہدین سے اس لئے نفرت کرتے ہیں کہ اس نے ان کے نام کو بدنام کردیا۔ مسلمانوں کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ ان کے اس داغ دھبے کو مٹانے میں مدد کرنے کے بجائے پولیس اسے مزید برا بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ اگر پولیس اصل دہشت گردوں کو پکڑ کر انہیں سزائیں دلواتی، معصوم مسلمانوں کو حراست میں لے کر انہیں عقوبت خانوں میں بند کرکے سزائیں نہ دیتی، طویل عرصہ تک جاری رہنے والے مقدمات کے قانونی طریقہ کار سے انہیں نہ گزارتی اور انہیں لمبے عرصے تک جیلوں میں نہ رکھتی تو یہ برادری اپنے آپ کو خوش و خرم سمجھتی۔ اس کے بجائے یہ برادری محسوس کرنے لگی کہ اسے تکلیف پہنچائی جارہی ہے۔ ایک لڑکا جسے پولیس حراست میں لے لیتی ہے تو وہ رہائی کے بعد بھی ملازمت حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی وہ شادی کرسکتا ہے اور کوئی اسے اپنی بیٹی دینے تیار نہیں ہوتا۔ سارے خاندان کا حقہ پانی گویا بند کردیاجاتا ہے۔ ہمارے پولیس والے آنکھ بند کرکے گولی چلادیتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری لڑائی بس ایسی ہی ہوتی ہے۔ ہم اندھیرے میں اندھا دھند تیز دھاراسلحہ گھمانے لگ جاتے ہیں۔ یہ خیال نہیں کرتے کہ اس سے کون زخمی ہورہا ہے۔ اس لئے یہ برادری یہ سمجھنے لگی ہے کہ مخالف دہشت گردی اقدامات مخالف مسلمان کاروائیاں حتی کہ اسلامی فوبیا ہیں۔ پولیس اور مسلمان برادری کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ دونوں ایک دوسرے کے وہی دقیانوسی تصور سے استفادہ کرتے ہیں۔ اسی چیز نے مسلمانوں کی اس امیدیا خواہش کو ختم کرڈالا کہ وہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پولیس کا ساتھ دیں۔ مسلمانوں اور پولیس کے درمیان جو عدم اعتماد کی دیوار ہے سے ڈھادینا چاہئے۔ اندرون ملک جو انتہا پسندی فروغ پائے گی اسے آپ مسلمانوں کی شراکت داری کے بغیر بدل نہیں سکتے۔ اس لڑائی کو انٹلی جنس پر مبنی لڑائی سے وسعت دے کر مسلم برادری کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنے کیلئے ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فوری ان کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہئے اور دوسرے ان کے ساتھ پیدا ہونے والے تنازعہ کو فوری سلجھا دینا چاہئے۔ مظفر نگر میں متعلقہ لڑکی کی ہراسانی کے معاملے کو حل کرنے کیلئے پولیس اگر اس برادری سے گہرے روابط رکھتی تو اس سارے معاملے کو آسانی سے حل کرلیاجاتا۔ یا کم از کم اسے پرتشدد شکل اختیار کرنے سے پہلے ختم کردیا جاسکتا تھا۔ لیکن کوئی انسدادی کارروائی نہیں کی گئی۔آئی بی کے سربراہ کو اس بیماری کے علاج کی کھوج کرنی چاہئے۔ وہ اب بھی غلط سمت میں حرکت کررہے ہیں۔ وہ بیماری کی علامات کا علاج کررہے ہیں( بیماری کا علاج نہیں کرپارہے ہیں)۔ اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ مسلمانوں میں اعتماد پیدا کرنے میں بے شمار الجھنیں پائی جاتی ہیں۔ پولیس کے ساتھ مسلمان ہرگز تعاون نہیں کریں گے اگر پولیس مسلمانوں میں صرف زیادہ سے زیادہ مخبر پیدا کرنے کا ارادہ کرے گی وہ پولیس کے حلیف رہنا گوارا کریں گے۔ جاسوس بننا پسند نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کے ساتھ معاونت کے قیام کی امید پائی جاتی ہے۔ دیوبندی علماء کا مسلمانوں کے ایک مسلک پر بڑا اثر ہے۔ اس مسلک کے بعض علماء نے دہشت گردی کے خلاف قوی فتوی بھی جاری کیا تھا اور دہشت گردی کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔ مسلمانوں کے دوسرے فرقوں اور مکتب خیال نے بھی دہشت گردی کی مذمت کی ہے۔ انڈین مجاہدین کی دھمکیوں کی بہت سے ملاؤں نے کوئی پرواہ نہیں کی ہے۔ پولیس کو چاہئے کہ وہ ملاؤں، علماء اور مسلم سماجی اداروں سے روابط قائم کرے تاکہ نچلی سطح پر ہی تنازعات کا کوئی حل نکل آئے۔ جب مسلم برادری دیکھے گی کہ پولیس فوری حرکت میں آجاتی ہے اور معاملات کو براہ راست حل کرنے کی کوشش کرتی ہے حقوق انسانی کی پاسداری کرتی ہے اس سے نہ صرف انتہا پسندی کے لئے درکار زمین بنجر ہوجائے گی بلکہ اس برادری میں خود دہشت گردی کی سرگرمیوں کے خلاف چوکسی پیدا ہوجائے گی۔ ان سب باتوں سے ہٹ کر آئی بی کے پہلے مسلمان سربراہ اس بات سے بھی اتفاق کریں گے کہ خود مختلف فورسس میں مسلمانوں کی بھرتی بھی فائدہ مند رہے گی۔ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

A Subtler Intelligence, It takes more than lock-up interviews to tackle Islamist terror. Article: Arun Sinha.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں