اگر ہم اردو زبان کی تاریخ پر نظر ڈالیں اور گیسوئے اردو کو سنوارنے والی صفوں کو دیکھیں تو پائیں گے کہ یہ زبان کسی ایک مذہب کے پیروکاروں کی زبان نہیں ہے۔ اس پر کسی ایک فرقے یا طبقے کی اجارہ داری نہیں ہے۔ یہ کسی ایک خطے کی زبان نہیں ہے۔ یہ پورے ملک کی زبان ہے اور تمام فرقوں اور طبقوں کی زبان ہے۔ یہ زبان ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کی زبان ہے جسے گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ زبان بھی کہا جاتا ہے۔ ہندوستان کی بیشتر تہذیبوں اور ثقافتوں کا علمی ورثہ اس زبان میں موجود ہے۔ ا س کی پرورش و پرداخت کسی ایک فرقے یا طبقے یا مذہب کے ماننے والوں نے نہیں کی بلکہ اس میں تمام ہندوستانیوں کی شرکت رہی ہے۔ لیکن ایک ایسا خاص طبقہ ہمیشہ موجود رہا ہے جو اس کی مخالفت کو اپنے لیے عین ثواب سمجھتا ہے اور اردو اور اہل اردو کو زک پہنچانا باعث فخر تصور کرتا ہے۔ اگر چہ یہ طبقہ چند مٹھی بھر لوگوں پر مشتمل ہے پھر بھی اس کی سازشوں نے سماج میں زہریلے بیج بوئے ہیں اور پیار محبت کو فروغ دینے والی اس زبان کے نام پر دو فرقوں کو لڑا کر ان میں فسادات بھی کروائے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کچھ لوگ یہ پروپیگنڈہ کرنے میں ہمیشہ ملوث رہے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ حالانکہ آج کے دور میں بھی ایسے غیر مسلموں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو اردو سے پیار کرتے ہیں، جنھیں اس سے عشق ہے اور جو اس کے لیے اپنی جان تک کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہیں۔ بہت سے غیر مسلموں کی روزی روٹی بھی اسی زبان کی وجہ سے چل رہی ہے۔ ایسے لوگ بھلا اس کے دشمن کیوں کر ہوں گے اور ایسے لوگوں کی موجودگی کے پیش نظر یہ پروپیگنڈہ کیسے قبول کیا جا سکتا ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔
لیکن روزگار سے مسلسل دور ہوتے جانے کی وجہ سے اردو پر اس کے زوال کا عہد طاری ہے۔ اس کو روزگار سے جوڑنے کی باتیں تو خوب کی جاتی ہیں لیکن حقیقتاً وہ روزگار سے اس قدر جڑی ہوئی نہیں ہے جیسا کہ ہونا چاہیے۔ آج ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو اردو سے روزی روٹی کما رہی ہے او راس کے توسط سے اپنی دنیاوی اور مادی ضرورتیں پوری کر رہی ہے۔ اس کے باوجود اس کو اس کا حق نہیں دیا جا رہا ہے اور اس زبان میں روزگار کے جو امکانات ہیں ان کو تلاش کرنے کی کوئی سنجیدہ اور مثبت کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ حکومتی ادارے تو کسی نہ کسی شکل میں اپنا کام کر رہے ہیں اگر چہ وہ بھی پورا حق ادا نہیں کر پا رہے ہیں لیکن اردو کے غیر سرکاری ادارے اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ وہ پروگراموں کے انعقاد، خبروں کی اشاعت او ربیان بازیوں تک ہی محدود ہیں۔ عملاً کوئی قابل ذکر کام ان کے پلیٹ فارم سے نہیں ہو رہا ہے۔ لیکن بہر حال اردو کے نام پر سیاست کے توسط سے ہی اردو پر گفتگو ہوتی رہتی ہے اور مطالبات و سفارشات کا بازار گرم رہتا ہے۔ یہ گرم بازاری بھی کچھ کم نہیں کہ اس سے اردو والوں کے خون میں حدت باقی رہتی ہے۔ ورنہ اگر یہ گرم گفتاری اور گرم بازاری بھی ختم ہو جائے تو پھر اردو کا نام لیوا بھی کوئی نہیں بچے گا۔
9نوبر کو یوم اردو منانے کا آغاز ایک غیر سرکاری اور نجی تنظیم ہی نے کیا تھا جس کا نام اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن ہے۔ اس سے اشتراک کیا ایک اور نجی تنظیم یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا نے۔ ان دونوں تنظیموں نے 1997میں یوم اردو منانے کا سلسلہ شروع کیا اور آج یہ ننھا سا پودا ایک تناور درخت بنتا جا رہا ہے۔ پہلے اس دن صرف ہندوستان ہی میں یوم اردو منایا جاتا تھا۔ لیکن جب اس چراغ کی روشنی دوسرے ملکوں میں پہنچی تو وہاں موجود محبان اردو نے بھی اس چراغ سے اپنے چراغ جلائے اور انھوں نے بھی اسی تاریخ کو یوم اردو منانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آج ان تمام ملکوں میں جہاں جہاں بھی اردو والے موجود ہیں 9نومبر کو اردو ڈے منایا جا رہا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ محض ڈیڑھ دہائی کے اندر یوم اردو نے عالمی یوم اردو کا جامہ پہن لیا اور یہ تاریخ اردو کے حوالے سے ایک یادگاری تحریک بن گئی۔ اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اور یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا کے زیر اہتمام جو کہ عالمی یوم اردو کی بانیان ہیں ہر سال ایک یادگاری مجلہ بھی شائع کیا جاتا ہے۔ مجلے کو یا تو کسی شخصیت کے نام معنون کیا جاتا ہے یا پھر کسی خاص موضوع پر ایک خصوصی اشاعت کی شکل میں اسے چھاپا جاتا ہے۔ اب تک جن شخصیات پر مجلہ شائع کیا جا چکا ہے ان میں آزاد ہندوستان کے عظیم صحافی مولانا محمد عثمان فارقلیط، جناب محفوظ الرحمن اور مولانا محمد مسلم قابل ذکر ہیں۔ جبکہ عالمی یوم اردو 2013کے موقع پر جید عالم دین، صحافی، ادیب و دانشور مولانا عبد الماجد دریابادی کی حیات و خدمات پر خصوصی اور یادگاری مجلہ شائع کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر اردو تعلیم کے انتظام اور عالمی اردو صحافت پر بھی مجلہ شائع کیا جا چکا ہے۔ کئی یادگاری مجلے شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبال کے نام بھی شائع کیے جا چکے ہیں جن میں اقبال کی شاعری، ان کے فلسفہ، ان کے نظریات اور ان کے وژن پر مضامین شامل کیے گئے ہیں۔
اب کچھ باتیں علامہ اقبال کے حوالے سے کہ یہ دن اقبال کا یوم پیدائش بھی ہے۔ اقبال صرف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ایک مفکر اور دانشور بھی تھے۔ مختلف قومی وبین الاقوامی معاملات پر ان کی آفاقی نظر تھی۔ ان کی نگاہ دور بیں ان چیزو ںکا بھی احساس کر لیتی تھی جو پردہ خفا میں ہوں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں ایسے بہت سے نکات پر روشنی ڈالی ہے جن پر عام لوگوں کی نظر نہیں پہنچ سکی۔ انھوں نے اردو شاعری کے ذریعے ایسے بہت سے گوشے بے نقاب کر دیے ابھی تک پر اسرار راز بنے ہوئے تھے۔ انھوں نے سب سے پہلے شاعری میں ایسی علامات اور ایسے الفاظ استعمال کیے جو اس سے پہلے مستعمل نہیں تھے۔ ملی معاملات ہوں یا غیر ملی معاملات، ان کی چھٹی حس بہت سی نادیدہ باتوں کی تہہ تک پہنچ جاتی تھی۔ علامہ آزادی کے علم بردار، مزدوروں کے ہم نوا اور سرمایہ داری کے مخالف تھے۔ انہوں نے جب 1904میں نظم ’تصویرِ درد‘لکھی تو وہ اردو ادب میں پہلی للکار تھی جس میں انہوں نے ہندوستانیوں کو خطراتِ افرنگ سے ہوشیار کیا تھا۔انہوں نے تحریک آزادی میں مختلف پہلوو ¿ں سے ہندوستانیوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور اسی کے ساتھ انہوں نے ہندوستان کی عظمت کے گیت بھی گائے۔عوام کے درمیان اتحاد کی دعوت دی اور فرنگی استحصال کی سازشوں سے باہر نکلنے کے لیے جھنجھوڑا بھی۔انگریزوں کو سب سے پہلے اقبال نے ہی چنگیز کہا تھا اور عوام کو مغرب کی فسوں کاری سے باخبر کیا تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ یہ نہ لکھتے:
رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاوگے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
اردو ادبیات میں علامہ نے سب سے پہلے اس قسم کے الفاظ استعمال کیے:اٹھو، جاگو، رست خیز، برخیز،انقلاب،از خواب گراں خواب گراں خواب گراں، کمر بستہ ہونا، کفن بدوش ہوناوغیرہ۔ اقبال کی شاعری احتجاجی پیغام کی شاعری ہے۔انگریزی اقتدار کے خلاف جتنی شدت سے جدوجہد اقبال کے یہاں ہے کسی اور کے یہاں نہیں ہے۔اسی طرح سرمایہ دارانہ اور استحصالی نظام کے خلاف سب سے پہلے اردو ادبیات میں اقبال نے آواز اٹھائی۔ علامہ صالح فکر کے طرف دار تھے اور کہا کرتے تھے کہ فکر کی گمراہی انسان کو حیوان بنانے میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے،جب کہ صحت مند فکرکی تازہ کاری سے ہی قوت عمل مرئی پیکر وجود میں نمودار ہوتی ہے۔ جہان تازہ کی تخلیق کا یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور اس بدیہی حقیقت کے بعد تدبیر یا فکر پر پابندی عائد کرنا مہلک ہو جاتا ہے۔ اقبال کی شاعری کے دو ایسے منفرد پہلو ہیں جن کی نظیر عالمی ادب میں شایدہی ملے۔ان کا کلام عصری واقعات و حادثات کا جام جہاں نما ہے جس میں رنج و راحت کے کئی پہلو بہت نمایاں ہیں۔دوسری انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے شعر و تخلیق کو عالمی معاملات و مسائل کی آگہی بخشی۔اردو زبان آفاقی وسعتوں سے ہم کنار ہوئی۔ جبکہ دوسرے ادب محدود تصورات میں پابند زنجیر رہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کی بصیرت آج کی صورت حال کو بے پردہ دیکھ رہی تھی اور غیرت دلا رہی تھی۔انہیں اس کا شکوہ تھا کہ امیر عرب صرف نام و نسب کا حجازی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ نہ حجازی ہے نہ غازی۔یہی شیخ حرم ہے جو گلیمِ بوذر اور چادرِ زہرا کو بیچ کھاتا ہے۔انہوں نے امت عربیہ کے ضمیر کو بھی للکارا تھا اور انگریزوں کی فسوں ساز حکمت عملی سے باخبر رہنے کی تاکید بھی کی تھی۔1923ءمیں ہاشمیوں کے ہاتھوں ناموس دین مصطفی کا سر بازار بکنا اقبال کو گوارا نہ تھا۔ ان کا یہ قول ضرب المثل بن گیا:
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی
انہوں نے عربوں کی لوحِ تقدیر بھی پڑ ھ لی تھی اور سرزمین عرب اقبال کے فیض نظر سے محروم رہی۔ مغربی آقاوں کی غلامی سے نجات حاصل نہ ہو سکی۔البتہ تھوڑی جنبش ضرور پیدا ہوئی اور اقبال کے اشعار کے تراجم اور مختلف تحریروں نے ایک تحریک پیدا کی اور پھر 1933ءمیں طارق بن زیاد کی دعا مستجاب ہوئی:
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے
علامہ نے 1936ءمیں یہ پیشین گوئی کی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب یہودی نظام فکر و عمل کی صورت میں ہر محاذ پر حاوی ہوگا۔سب سے پہلے عیسائی اس کی زد میں ہوں گے، کلیساوں کے متولی یہودی ہوں گے اور مقتدی عیسائی ہاتھ باندھ کر ان کی امامت قبول کریں گے۔ساحل چین سے بحر روم تک انسانوں کی ہئیت اجتماعیہ کا تصور انہیں اکثر تڑپاتا رہا۔یہ اضطراب کسی نہ کسی حد تک موثر ہوا اور 1947ءکے بعد ترکی، ایران اور پاکستان کے علاقائی تعاون کی تنظیم نے جنم لیا۔ مسلم ممالک اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کے متحدہ اداروں کے قیام میں بیداری کی بازگشت سنی جا سکتی ہے۔سارک ممالک کا اتحاد وجود میں آیا۔جنوب مشرقی ممالک میں تعاون کی انجمن قائم ہوئی۔ روس نے اپنے حلیف ملکوں کی دولت مشترکہ بنائی اور افرو ایشیائی ممالک کے باہمی اتحاد کی صورت بھی پیدا ہوئی۔
اس طرح علامہ اقبال کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی ایک خطے کے شاعر نہیں تھے، کسی ایک ملت کے شاعر نہیں تھے۔ وہ ایک آفاقی شاعر تھے اور آفاقی نظر، نظریہ اور وژن رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے توسط سے جن پوشیدہ رازوں کو بے نقاب اور بے حجاب کیا تھا وہ آج بھی دلوں اور نگاہوں میں گرمی پیدا کرتے ہیں اور ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے والوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم 9نومبر کو اردو ڈے بھی منائیں اور اقبال ڈے بھی۔ اگر ہم اقبال کے اشعار کی گرمی اور ان کی روشنی میں اردو کے لئے کوئی کوشش کرتے ہیں تو بلا شبہ اس کوشش میں نیا جوش و ولولہ پیدا ہوگا اور ہم پوری طاقت و قوت سے یہ لڑائی لڑ پائیں گے۔
***
Suhail Anjum
sanjumdelhi[@]gmail.com
Suhail Anjum
sanjumdelhi[@]gmail.com
سہیل انجم |
Urdu, urdu-day and Iqbal Day. Article: Suhail Anjum
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں