18/نومبر نئی دہلی پی۔ٹی۔آئی
آندھراپردیش کی تقسیم کے لیے قائم کردہ وزراء کے گروپ نے مختلف فریقین سے تبادلہ خیال کی کارروائی مکمل کرلی ہے اور عاجلانہ طور پرتلنگانہ بل کی پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں پیشکشی کی راہ ہموارکرنے کے لیے مرکزی کابینہ کواپنی رپورٹ پیش کرے گا۔وزیرداخلہ سشیل کمارشنڈے نے بتایا کہ ہم نے دیگرکے ساتھ تبادلہ خیال کی کارروائی کی تکمیل کرلی ہے،وزراء کا گروپ اب بعجلت ممکنہ کابینہ کوداخل کی جانے والی رپورٹ کو قطعیت دینے باہمی تبادلہ خیال کرے گا۔وزراء گروپ اورآندھراپردیش کے مرکزی وزراء چیف منسٹرکرن کماریڈی کے درمیان سلسلہ وار ملاقاتوں کے بعد شنڈے نے میڈیاکوبتایاکہ تلنگانہ بل کو پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں پیش کردیاجائے گا۔وزراء گروپ،جس کی قیادت شنڈے کررہے ہیں،21نومبرکواپنااجلاس منعقد کرے گا۔امکان ہے کہ اس ماہ کے اواخرتک غوروخوض کے لیے مرکزی کابینہ کواپنی رپورٹ پیش کردے گا۔کانگریس ہائی کمان کی ہدایت پروزراء گروپ نے مختلف فریقین بشمول8سیاسی جماعتوں کے ساتھ گذشتہ10دن کے دوران سلسلہ وار ملاقاتیں کی۔درایں اثناء وزارت داخلہ کے عہدیداروں نے مختلف وزراتوں کی رپورٹس کی تیاری کا آغاز کردیاہے،جس کے ذریعہ نئی ریاست اورآندھراپردیش کے دیگرماباقی علاقوں کے درمیان دیگر مسائل اوراثاثوں کی تقسیم پراپنی رائے کااظہار کردیاگیاہے۔کابینہ کی جانب سے تجویز کی منظوری کے ساتھ ہی اسے صدر جمہوریہ سے رجوع کیاجائے گا،جومنظوری کے لیے اسے آندھراپردیش اسمبلی سے رجوع کریں گے،تاہم اسمبلی کی قرارداددستورکے تحت پابندنہیں حکومت بعدازاں آندھراپردیش تنظیم جدیدبل مرکزی کابینہ کی منظوری کے ساتھ تیارکرے گی اوراسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے قبل صدرجمہوریہ سے رجوع کرے گی۔5دسمبر کوپارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کاآغازہورہاہے،جو20دسمبر کو اختتام کوپہنچے گا۔اسی دوران چیف منسٹراین کرن کماریڈی نے انتباہ دیاکہ آندھراپردیش کی تقسیم ساری قوم کے لیے سیکوریٹی اندیشے پیداکردے گی۔انہوں نے وزراء کے گروپ(جی اوایم)پرزوردیاکہ وہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے فیصلہ پر نظرثانی کرے۔چیف منسٹر نے دہلی میں آج وزراء کے گروپ(جی اوایم)سے ملاقات کرتے ہوئے ریاست کی تقسیم کی پرزورمخالفت کی اور بتایاکہ کمزورریاست نظم وضبط کے نئے مسائل پیداکرے گی۔انہوں نے ماوسٹوں کے مسئلہ کاانتباہ دیا،جو2006 سے کنٹرول میں ہے۔انہوں نے بتایاکہ ماوسٹوں کامسئلہ کمزور حکومتوں کے نتیجہ میں دوبارہ سراٹھائے گا۔انہوں نے بتایاکہ نہ صرف حیدرآباد،بلکہ تلنگانہ،سیماآندھرا بلکہ سارے ملک کے لیے سیکوریٹی اندیشے پیداہوجائیں گے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ متعدد مواقع پروزیراعظم نے نکسل ازم(ماؤازم)کوملک کو درپیش سب سے بڑاخطرہ قراردیا۔کرن کماریڈی نے یہ بھی بتایاکہ مہاراشٹرا،اوڈیشہ اور چھتیں گڑھ ودیگرریاستوں کے ماوسٹ قائدین کا تعلق آندھراپردیش بالخصوص تلنگانہ سے ہے۔اگروہ بے قابوہوجائیں تو خطرناک صورت حال پیداہوجائے گی۔انہوں نے بتایاکہ حیدرآباد دہشت گردوں کا نشانہ رہاہے اور تلنگانہ شہراورسیماآندھراکے دیگر علاقے فرقہ وارانہ حساس نوعیت رکھتے ہیں اسی دوران سپریم کورٹ نے آج مفادعامہ کی دائرکردہ درخواست کو قبول کرنے سے انکارکردیا،جس کے ذریعہ علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے لیے آندھراپردیش کی تقسیم پرمرکزی کابینی فیصلے کو چیلنج کیاگیاتھا۔جسٹس ایس ایچ ایل دتواورمدن بی لوکرنے بتایاکہ ریاست کی تقسیم کی کارروائی کے خلاف درخواست قبل ازوقت ہے کیونکہ پارلیمنٹ اورریاستی قانون سازاسمبلی میں اسے ہنورمنظوری حاصل نہیں ہوئی ہے۔بنچ نے بتایاکہ ہم ریاستی قانون سازاسمبلی یاپارلیمنٹ کے ذہن یاان کے ارادہ سے واقف نہیں۔بنچ نے تاہم بتایاکہ درخواست میں جن تمام قانونی مسائل کواٹھاگیاہے ان پرمناسب مرحلہ میں بحث کی جاسکتی ہے۔بنچ نے بتایاکہ ہم درخواست کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں تاہم اس بات کی وضاحت کی جاتی ہے کہ درخواست میں جن قانونی مسائل کواٹھایاگیاہے۔انہیں مناسب مرحلہ پر مناسب مرحلہ پرمناسب درخواستوں کے ذریعہ زیربحث لایاجاسکتاہے۔وائی ایس آر کانگریس کی سیاسی امورکمیٹی کے موجودہ رکن ڈی ایس سومایاجلونے درخواست دائر کرتے ہوئے آندھراپردیش میں علیحدہ تلنگانہ کے قیام کے مرکزی اقدام کوچیلنج کرتے ہوئے بتایاکہ من مانی اور معقولیت سے عاری فیصلے سے ریاست میں بڑے پیمانے پراحتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔جانی اورمالی نقصانات بھی ہورہے ہیں۔درخواست کے ذریعہ استدعاکی گئی کہ/3 اکتوبر کی کابینی قرارداد کو غیردستوری قراردیا جائے۔درخواست کے ذریعہ صدرجمہوریہ کوآندھراپردیش کی تقسیم اور تلنگانہ کی تشکیل کے لیے دستورکی دفعہ3کے تحت کسی بھی سفارشی اقدام سے اس وقت تک بازرکھنے کی مانگ کی گئی تاوقتیکہ ریاست کی تقسیم کے لیے ایک معقولیت پسندانہ پالیسی وضع نہ ہوجائے۔مزیدبرآں درخواست گزارنے بتایاکہ آندھراپردیش کی تقسیم کاموجودہ فیصلہ واضح طورپرکانگریس کے سیاسی مقاصد پرمبنی ہے جومرکزمیں حکومت چلارہی ہے۔جبکہ دستورکی دفعہ14کی بنیادپر چیلنج کرنے کی صورت میں فیصلہ کی مدافعت نہیں کی جاسکتی ہے۔سینئرایڈوکیٹ ہریش سالوے نے درخواست پیش کی اور بتایاکہ دستورکی دفعہ 3کو سیاسی آلہ کارکی حیثیت سے سیاسی تقسیم جومرکز میں پارٹی کے مقاصد کے لیے ہواستعمال نہیں کیاجاسکتاہے۔درخواست میں یہ بھی بتایاگیاکہ نئی ریاست کی تشکیل اوراس کے قیام کی بنیادقانونی اور معقول وجوہات کے تحت ہونی چاہئے۔GoM completes Telangana consultations It will submit report to Cabinet soon
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں