مولانا محمد ولی اللہ رشادی قاسمی وانمباڑی کی رحلت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-06

مولانا محمد ولی اللہ رشادی قاسمی وانمباڑی کی رحلت

maulana-waliullah-rashadi
حضرت مولانا محمد ولی اللہ رشادی قاسمی صاحب مہتمم مدرسۂ معدن العلوم ،وانمباڑی رحلت کر گئے

مدرسۂ معدن العلوم کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ولی اللہ صاحب رشادی قاسمی مختصر سی علالت کے بعد رحلت کرگئے ۔ مولانا عید الاضحی سے پہلے علیل ہوئے تھے اور چنئی (مدارس) میں عید سے قبل اپنے علاج کے سلسلہ میں گئے ہوئے تھے۔ تاہم ڈاکٹر سے ملاقات اور مشورے کے بعد وہ واپس وانمباڑی چلے آئے ۔عید کے دوسرے دن ان کی طبیعت دوبارہ ناساز ہوئی تو آپ کے بڑے بھائی حضرت مفتی محمد اشرف علی صاحب ، امیرِ شریعت کرناٹک نے انہیں علاج کے لئے بنگلور بلوا لیا اور یہاں کے مشہور استپال نارائن ہرد یالیہ میں ان کا علاج شروع کیا گیا۔ لیکن ڈاکٹروں کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں اور کل رات ساڑھے آٹھ بجے مولانا نے داعئ اجل کو لبیک کہا اور اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اِنّا للہ وَاِنّا الیہ راجعون۔
مولانا کی وفات پر اظہار تعزیت کرنے والوں میں ٹی ایم ایم کے لیڈر جواہر اللہ، آمبور حلقہ کے ایم ایل اے اسلم باشاہ، تمل ناڈو آل پارٹی مسلم فیڈریشن کے صدر۔ اے کے حنیفہ، ایس ڈی پی آئی کے ریاستی صدر تہلان باقوی اور صحافی فیصل مسعود ، حکیم عبدالستار صاحب وغیر ہم کے نام شامل ہیں۔ مولانا کے پس ماندگان میں ان کے دو فرزند مولانا رحمت اللہ معدنی اور مولانا طلحہ معدنی اور دو دختران بھی شامل ہیں۔ حضرت مولانا محمدولی اللہ صاحب آل انڈیا ملی کونسل ٹمل ناڈو کے جنرل سکریٹری اورآل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن میقاتی تھے۔آپ دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور کی مجلس شوریٰ کے رکن اورمدرسہ عربیہ قاسمیہ ،ارکونم ،مدرسہ ازہریہ ٹونڈی اور دارالعلوم سعودیہ چنتامنی پٹی کے رکنِ عاملہ بھی تھے۔ اس کے علاوہ آپ ڈسٹرکٹ جماعت العلماء کے سکریٹری کی حیثیت سے بھی کئی برسوں سے خدمت انجام دے رہے تھے ۔ان تمام ذمہ داریوں کے علاوہ آپ جمعیۃ الا صلاح ٹرسٹ ،امین آباد (وانمباڑی)کے مینجنگ ٹرسٹی اورمجلس العلماء اورمدرسہ خلیلیہ وانمباڑی کے بھی ٹرسٹی رہے ۔ وانمباڑی کے مشہور ومعروف مدرسہ نسوان اوردارالحفاظ کی مجلسِ عاملہ کے رکن بھی ہیں ۔ سن 2006 ء اور اس کے بعد سن 2010 میں جب حکومتِ تمل ناڈو نے ٹمل لیرننگ ایکٹ نافذ کیا اور پھر مساوی نظامِ تعلیم کی آڑ میں اردو زبان کو اسکولی نصاب سے خارج کردیا تو حضرت نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اردو بچاؤ تحریک شروع کی اور مدرسۂ معدن العلوم میں پہلی بار ایک عظیم الشان اجلاس منعقدکرکے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اردو زبان کو دوبارہ اسکولی نصاب میں شامل کیا جائے ورنہ اس تحریک کے دائرۂ کار کو اور بھی بڑھایا جائے گا۔ تب سے لے کراپنی موت تک حضرت مولانالگاتار حکومت کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کرتے رہے اور اردو زبان کی بحالی کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ حضرت کے وصال سے نہ صرف علماء کرام بلکہ پورا اردو دان طبقہ بھی صدمہ سے نڈھال ہے اور پریشان ہے کہ حضرت کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے اسے کون پورا کرے گا۔ حضرت مولانامحمد ولی اللہ صاحب کی پیدائش 5جون 1942ء کو ضلع ویلور ٹمل ناڈو کے ایک شہر پلی گنڈہ میں ہوئی۔اس وقت آپ کے والد حضرت مولانا ابوالسعود ؒ صاحب اسلامیہ ہائی ا سکو ل میل وشارم میں شعبہ دینی تعلیم کے انچارج تھے۔آپ کی ابتدائی تعلیم انجمنِ تبلیغ الاسلام کے ماتحت مدرسہ مدینتہ العلوم میل وشارم میں ہوئی۔ 1953ء میں آپ نے باقیامت صالحات ویلور کے شعبہ حفظ میں داخلہ لیا۔ایروڈ کے مدرسہ داؤدیہ میں مکمل کئے ۔اس کے بعد 1961ء سے 1967ء تک دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور میں تعلیم حاصل کی ۔یہ دارالعلوم سبیل الرشاد کی اولین بیاچ تھی جس سے سات علماء کرام فارغ ہوئے تھے۔ان سات علماء کرام میں 2 ٹمل ناڈو کے ، 2کرناٹک کے اور3کیرالا کے تھے ۔1968ء میں آپ نے دارالعلوم دیوبند سے دور حدیث مکمل کیا ۔اس کے بعد 1969ء میں آپ نے مسلسل ایک سال تک مختلف ممالک کے تبلیغی دورے کئے جن میں سعودی عرب ،عراق ،جورڈان ،سوڈان وغیرہ شامل ہیں ۔اسی دوران آپ کوحج کی سعادت بھی نصیب ہوئی ۔8اپریل 1970ء کوآپ نے مدرسہ معدن العلوم ،وانمباڑی کی ذمہ داری سنبھالی ۔تب سے آپ وانمباڑی کی اس عظیم دینی درسگاہ کی خدمت انجام دیتے چلے آرہے تھے ۔
مولانا محمدولی اللہ صاحب نے جس وقت مدرسہ کی ذمہ داری سنبھالی اس وقت مدرسہ محلہ قلعہ میں مسجدِ قلعہ کی عقبی گلی میں واقع اُسی قدیم عمارت میں چلایاجارہاتھاجہاں اسکی شروعات ہوئی تھی ۔عمارت سیلن زدہ اورتاریک تھی اوربچے اکثربیمار ہوجایاکرتے تھے ۔دوسال تک صبر کیاگیا اس کے بعدطے پایا کہ مدرسہ کسی بڑی عمارت میں منتقل کیاجائے ۔چنانچہ جناب آلتورحاجی عبدالحمید صاحب نے قلب شہر میں ساڑھے تین ایکڑاراضی اس مقصد کیلئے خریدی اور1975ء میں حکیم الامت قاری محمدطیب صاحبؒ کے ہاتھوں ،حضرت مولاناابوسعودصاحبؒ کی صدارت میں منعقدہ ایک تقریب میں مدرسہ کی عمارت کاسنگ بنیاد رکھاگیا۔
شہر وانمباڑی ریاست ٹمل ناڈوکے ویلورضلع کاایک چھوٹاساعلمی ،ادبی وتجارتی مرکزہے ۔اس شہرکو عام طور پرجنوب کاعلی گڑھ بھی کہاجاتاہے۔ایک ایسے وقت جب کہ ہندوستان میں تعلیمی مراکز اوردینی مدارس کافقدان تھاوانمباڑی میں دینی اورعصری تعلیم کے مدارس شروع ہوچکے تھے اورتعلیم کی اہمیت یہاں کے عوام کے دلوں میں روشن ہوچکی تھی ۔دینی تعلیم کی طرف خاص رجحان تھا۔ 1888ء میں دینی جذبے سے سرشار شہرکے دودردمندحضرات جناب مدیکار محمد غوث صاحب اورجناب حاجی عبدالصمدصاحب مرحوم نے مدرسہ معدن العلوم کی بنیادرکھی اورصرف دوبچوں سے مدرسہ کاآغاز کیا۔آج اس مدرسہ کو قائم ہوئے 125سال کاعرصہ گزرچکاہے ۔اس دوران کئی اتارچڑھاؤ آئے ۔دومرتبہ مدرسہ تعطل کاشکار بھی رہالیکن 1970ء کے بعد یہ مدرسہ بتدریج ترقی کے منازل طے کرتا ہوا آج ایک عظیم دینی درس گاہ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ تمل ناڈو کے اس مشہور مدرسہ کی ترقی وکامیابی میں جہاں دینی جذبے سے معمور مخیّر وپرخلوص حضرات کاہاتھ تھاوہیں ۔حضرت مولانا محمد ولی اللہ صاحب دامت برکاتہم کی جدوجہد اورمحنت بھی اس مدرسہ کی شہرت سمندرپارتک پہنچانے کاباعث ہے ۔
مولانا کی نمازِ جنازہ مدرسۂ معدن العلوم میں دوپہر ڈھائی بجے پڑھائی گئی۔ تدفین مسجد قادر پیٹ میں عمل میں آئی۔ صبح کی نماز کے فورا بعد دیدار کے لئے لوگوں کی آمد شروع ہوگئی تھی ۔ دیدار کے لئے پہلے الرحمن نرسری و پرائمری اسکول میں حضرت کے جسدِ خاکی کو رکھا گیا تھا۔ ساڑھے بارہ بجے عوامی دیدار کے لئے مدرسۂ معدن العلوم میں میت رکھی گئی تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں حضرت کے چاہنے والوں اور عقیدت مندوں نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ حضرت مولانا کے بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد اشرف علی صاحب، امیر شریعت کرناٹک نے نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے بعد حضرت مولانا کو مسجدِ قادر پیٹ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

اکبر زاہد

Maulana Waliullah Rashadi Qasmi of Vaniyambadi passes away

1 تبصرہ:

  1. Moulana passed away on 3rd November 2013 at 8.30pm @ Naryanahurdlaya Hospital. Jamatul Ulama has announced a book on his life & services by name "Hayath e Vali",

    جواب دیںحذف کریں