کل آنگن میں ایک لاڈلی جل رہی تھی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-13

کل آنگن میں ایک لاڈلی جل رہی تھی

dowry deaths
جہیز۔ ۔ ۔ ۔ جہیز۔ ۔ ۔ ۔ جہیز۔ ۔ ۔ ۔ جب یہ لفظ میرے کانوں میں پڑتا ہے تو بار بار قلم اٹھانے کو جی چاہتا ہے۔ اب تک تین مضامین بعنوان ۔ ۔ ۔
  • لڑکی والوں سے جہیز میں اگر کفن بھی مانگ لیتے تو اچھا ہوتا
  • جہیز کی خاطر ہم نے اپنا ضمیر بیچ دیا
  • شادیوں میں فضول خرچی کیوں؟ نفس پرستی غالب بن گئی
قارئین کی نذر کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔

قارئین کرام!آج جو حالات سامنے آرہے ہیں، اسے دیکھ کر اورپڑھ کر ہمارے دلوں میں غم و الم کے طوفان اٹھ رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ہم انسانیت کے چمن میں ہیں یا درندوں کے کسی جنگل میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک ایک لمحہ انسانیت کے ساتھ شرافت کی زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ آج انسان، انسان سے ڈر رہا ہے۔ انسانیت کے نام سے خوف معلوم ہو رہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان کی شکل میں یہ درندے کہا ں سے آگئے، جنہوں نے شیطان کو بھی شرمندہ کردیا۔ شیطان بھی سوچ رہا ہوگا کہ جو کام ہمیں کرنا تھا وہ آج کے انسان کر رہے ہیں۔ آج ہم اخبارات میں پڑھتے ہیں، نیوز چینلوں میں دیکھتے ہیں کہ فلاں مقام پر مزید جہیز جوڑے کی رقم کا مطالبہ پورا نہ ہونے پرایک معصوم لڑکی کو زندہ جلا دیا گیا۔ فلاں نے گاڑی نہ ملنے پر نازک سی زندگی کا قتل کردیا۔ فلاں مقام پر من پسند جہیز نہ ملنے کی وجہ سے ظالم سسرال والوں نے امت مسلمہ کی اس بے قصور بیٹی کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال کرہلاک کردیا۔
کل آنگن میں ایک لاڈلی جل رہی تھی
ابھی جس کے ہاتھوں میں مہندی رچی تھی
خطاؤں میں خطا اس دلہن کی یہی تھی
جہیز کی فہرست میں ابھی کچھ کمی تھی

ایسے کئی واقعات ہماری نظروں سے گزر رہے ہیں، سننے ، دیکھنے اور پڑھنے میں بھی آرہے ہیں۔ آخر ان جلتی ہوئی تصویروں کو دیکھتے ہیں، ان رپوٹس کو پڑھتے ہیں تو دل بار بار یہی پوچھتا ہے کہ کیا جرم تھا اس معصوم سی بچی کا؟ کیا گناہ تھے اس کے؟ کیا بات تھی اس کی؟ کیوں تم اس کو سزا دیتے ہو، کیا تمہارے دلوں میں یہ سوال نہیں اٹھتا کہ بتاؤ اس معصوم سی اور نازک سی زندگی نے وہ کو نسا جرم کیا تھا کہ تمہاری عدالت نے اسے موت لکھ دیا؟ کیوں ہم اس ملعون جہیز کی خاطر بے گناہ بہو، بیٹیوں کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں؟ ملتِ اسلامیہ کی بیٹیاں چیخ چیخ کر ہم سے یہ کہہ رہی ہیں کہ کیوں ہم پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں؟ کیوں ہمارے اوپر مٹی کا تیل چھڑک کر ہمیں نذر آتش کر رہے ہو؟ کیا ہمیں اس لئے جلایا اور مارا پیٹا جارہا ہے کہ ہمارے پاس جہیز میں دینے کے لئے گاڑیاں، جوڑے کی رقم اور ساز وسامان نہیں ہے؟ جہیز کے لئے بھینٹ چڑھنے والی معصوم بچیاں اسلامی شریعت سے کہہ رہی ہیں کہ کاش ہماری اسلامی شریعت صرف کتابوں، وعظوں، نصیحتوں، تقریروں اور اخبارات کے کالموں کے بجائے حقیقی معنوں میں عمل سے ہوتی تو شاید آج خوداسلامی شریعت کو یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے، اور دوسری اقوام کے لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملتاکہ اسلام بھی ہماری ہی طرح کے اصولوں اور طور طریقوں کا مذہب ہے۔

یاد رکھو مسلمانو!ہمیں ان جلتی ہوئی دوشیزاؤں کی فریاد کا جواب کل قیامت کے دن دینا ہوگا۔
(واذاالموء ودۃ سئلت بای ذنب قتلت)
جب قیامت کے دن زندہ درگور کی گئی لڑکیوں سے، ان موت کے گھاٹ اتاری گئی دوشیزاؤں سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جرم کی پاداش میں مٹی کا تیل چھڑک کر جلایا گیا تھا؟ تمہیں کس گناہ کے نتیجے میں پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا تھا؟ اس وقت ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوگا۔ آج مجھے بہت دکھ ہوتاہے اور بڑا افسوس ہوتا ہے کہ جہیز کے نام پر ہماری بہنوں کے ساتھ جو ظلم و ستم اور زیادتیاں ہوتی ہیں؟ جس طرح انہیں مارا پیٹا جاتا ہے، ان کے دستِ حنائی کو کھرچا جاتا ہے۔ ان کے سر کے بال پکڑ کر پٹخ دیا جاتا ہے۔ انہیں زہر کھانے پر، پھانسیاں لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جس طرح تیل چھڑک کر انکی جان لی جاتی ہے۔ اس پر دل تڑپ اٹھتا ہے، بیقرار و بے چین ہوجاتا ہے، آنکھوں سے آنسو وں کا سیلاب جاری ہوجاتا ہے۔
ملتِ اسلامیہ کی بیٹیوں کا قصور یہی ہوتا ہے کہ وہ منہ مانگا جہیز نہیں لا سکتیں۔ آج ہمارے مسلم سماج میں ایسے کئی خطرناک واقعات ہورہے ہیں، جس سے شرم کے مارے ہماری شریعت بھی منہ چھپا تی ہوگی۔
دوستو!اسلام کی بہت سی بیٹیاں جہیز کے لئے زندہ جلادی گئیں۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ان درد بھرے واقعات سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے اہلِ اسلام میں دن بدن جہیز کے مطالبات میں ترقی ہورہی ہے۔ جاہل تو جاہل ہیں مگر مہذب اور پڑھے لکھے گھرانے والے بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں بڑی بے حیائی و بے غیرتی سے جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں جس انداز سے رشتے طئے کئے جاتے ہیں، وہ بالکل کاروباری، ہوس پرستی اور غیر اسلامی ڈھنگ کے ہوتے ہیں۔ ان میں صرف جھوٹی شان و شوکت اور دوسری قوموں جیسی رسم و رواج کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ ان رشتے ناطوں سے اسلامی شریعتِ مطہرہ کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔

پہلے دیکھا تھا بازار میں صنم بکتے ہیں
آج کیوں شرم نہیں آتی ہم بکتے ہیں

قارئینِ کرام!حقیقت میں اس درد کا احساس اور اس درد کی تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب یہ معاملہ ہماری اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ پیش آئے۔ ہمارے یہاں بیٹیاں اور بیٹے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ہم اپنے بیٹوں کی بدولت جہیز، دعوتیں، جوڑے اور بہت سا تعیش کا سامان چاہتے ہیں اور جب بیٹی جوان ہوتی ہے تو سماج پر تنقید کرتے ہیں۔ آخر ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ جب ہم اپنے بیٹوں کی بدولت اپنے کل ارمان پورے کرنا چا ہتے ہیں تو پھر دوسروں سے یہ توقع کیوں کرتے ہیں کہ وہ ہم سے کچھ طلب نہ کرے؟ ہم جو خسارہ خود اٹھانا نہیں چاہتے اسکی توقع دوسروں سے کیوں کرتے ہیں؟ اپنے لاڈلوں کی اونچی بولی لگانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کے گھر میں بھی بیٹیاں ہیں؟ اپنی بیٹیوں کے ساتھ بھی تو ایسا ہوسکتا ہے؟ کیااپنی بیوی کو ستانے یا جلانے والا مرد غیرت مند ہو سکتا ہے؟ ایسے مردوں کو مرد نہیں نامرد کہنا چاہئے۔ اپنی بیویوں کو مارنا، جلانا ان پر ظلم کرنا مردانگی اور بہادری نہیں بزدلی ہے۔ ایسے مرد معاشرے کا کلنک ہیں۔
کیا یہ دین سے لا علمی کا نتیجہ نہیں ہے؟ کیا ہم اسلام کو بدنام نہیں کر رہے ہیں؟ کیا ضرورت اس بات کی نہیں ہے کہ ایسے مجرموں کو عبرت ناک سزائیں ملنی چاہئے؟ تو پھر حکومت اس سلسلے میں کچھ کیوں نہیں کر رہی ہے؟ اگر ہم نے جہیز کا لین دین ختم نہ کیاتواس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے جس کا تصور بھی ہم نہیں کرسکتے، یہ چند لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ پورے مسلم معاشرے کا مسئلہ ہے۔ ہم کو اس کے خلاف میدان میں آنا ہوگا، اور اس تحریک میں نوجوانانِ ملت کو اپنا پورا پورا تعاون دینا ہوگا۔
درس گاہوں، دینی مجالس اور خطیب صاحبان اپنی اپنی مساجد میں اس لعنت کے خاتمہ کے لئے زور دار تحریک چلانی ہوگی۔ تبھی ملتِ اسلامیہ کو اس لعنت سے چھٹکارا نصیب ہوگا۔ اگر ہم اس وقت کھڑے نہ ہوئے اور اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی تو وہ دن دور نہیں جب مسلمان بھی غیروں کی طرح اپنی بچیوں کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالیں گے۔ جاگو مسلمانو!ورنہ دورِ جاہلیت لوٹ آئیگی، حیوانیت کا زمانہ پلٹ آئے گا، اسلام نے جس فتنہ کو بند کردیا تھا وہ فتنہ پھر سر اٹھا رہا ہے، آگے بڑھئے اور اس فتنہ کا دروازہ بند کردیجئے۔

میری دعا ہے:
میری بہنوں کو بے موت مرنے سے بچا لے یارب
رسمِ جہیز کو اس دنیا سے اب اٹھا لے یارب

***
irfanmuneeri[@]ymail.com
دارالعلوم سراج المنیر، شاہین نگر، حیدرآباد
عرفان منیری

The tragedy of dowry deaths. Article: Irfan Muneeri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں