پاکستان کے جوہری ہتھیار سعودی عرب کو فراہم کرنے کی تیاری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-08

پاکستان کے جوہری ہتھیار سعودی عرب کو فراہم کرنے کی تیاری

بی بی سی کے نیوزنائٹ پرگراموں میں دعوی کیا گیا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے جوہری پروگرام میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور بوقت ضرورت وہ پاکستان سے تیار جوہری ہتھیار حاصل کرسکتاہے۔ نیوز نائٹ کو باوثوق ذرائع سے پتہ چلاہے کہ سعودی عرب کے لیے یہ ممکن ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کرلیتا ہے تو سودی عرب پاکستان سے تیار جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوگا ۔ رواں برس کے اوائل میں نیٹو کے ایک اعلی اہلکار نے بی بی سی نیوز نائٹ کے سفارتی اور دفاعی ایڈیٹر مارک اربن کو بتایا تھا کہ انہوں نے ایسی انٹیلی جنس رپورٹیں دیکھی ہیں جن کے مطابق پاکستان نے سعودی عرب کے لیے جوہری ہتھیار تیار کر رکھے ہیں جو بوقت ضرورت سعودی عرب کے حوالے کیے جاسکتے ہیں۔ پچھلے مہینے اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سر براہ اموس یادلن نے سویڈن میں ایک کانفرنس کے دوران کہا تھا : اگر ایران نے جوہری ہتھیار حاصل کرلیے تو سعودی عرب ایک مہینہ بھی انتظار نہیں کرے گا ۔ وہ جوہری بموں کے لیے پہلے ہی ادائیگی کرچکے ہیں۔ وہ پاکستان جائیں گے اور جو وہ چاہتے ہیں لے کر آجائیں گے۔ ،سعودی باشاہ عبداللہ نے مشرق وسطی کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ڈینس راس کو خبر کیا تھا کہ اگر ایران نے جوہری اسلحے کے حصول کے لیے حد عبور کی تو،ہم بھی جوہری ہتھیار حاصل کریں گے ۔ ،2009 کے بعد متعدد بار سعودی عرب نے امریکہ کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اپنی خواہش سے آگاہ کیا ۔ صدر بارک اوباما کے مشیر گیری سیمور نے نیوز نائٹ کو بتایا؛میں نہیں سمجھتا کہ سعودی عرب کی پاکستان کے ساتھ کوئی ایسی مفاہمت ہے کہ وہ بوقت ضرورت پاکستان سے جوہری ہتھیاروں کا تقاضہا کرسکیں گے۔، سعودی عرب کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے حصول اور دور تک مار کرنے والے میزائلوں کو داغنے کے نظام کے حصول کی کہانی کئی عشرے پرانی ہے،۔ سعودی عرب نے 1980ء میں چین سے سی ایس ایس ٹو بیلسٹک میزائل خریدے تھے ۔ ماہرین کا خیال تھا کہ چینی ساخت کے یہ بیلسٹک میزائل کسی بھی نشانے کو بالکل درست انداز میں مار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے ۔ رواں سال جینز ڈیفنس ویکلی نے رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی عرب نے ریاض سے دو سو میل کے فاصلے پر سی ایس ایس تو میزائل کو داغنے کے لیے نیالانچ بیس بنایا ہے۔ مغربی ماہرین الزام لگاتے رہیں کہ سعودی عرب کئی برس سے پاکستان کے میزائل اور جوہری لیبا رٹرویوں کو فراخدلانہ مالی امداد دیتا رہاہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے قریبی تعلق کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے 1999ء اور پھر 2002ء میں سعودی وزیر دفاع شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز السعود کو جوہری لیبارٹری کا دورہ کروایا ۔ پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی دفاعی تعلقات ہیں اور چین نے پاکستان کو بیچے ہیں۔ پاکستانی سائنسدان عبد القدیر خان پر الزام لگا تھا کہ انہوں نے لیبیا اور جنوبی کوریا کو یورینم کو افزودہ کرنے کی معلومات فراہم کی تھیں۔ عبدالقدیر خان کی طرف سے جو ڈیزائن مہیا کیے گئے تھے وہ ایسے ہتھیار وں سے متعلق تھے جو چین کے سی ایس ایس ٹو میزائل پر فٹ ہوسکتے ہیں ۔ سعودی عرب نے یہ میزائل سسٹم 1980 ء میں چین سے خریداتھا ۔ نوے کی دہائی میں جب سعودی عرب اور پاکستان کے مابین جوہری ہتھیاروں سے متعلق معاہدے کی خبریں ظاہر ہوئیں تو سعودی عرب نے یہ کہتے ہوئے اس ک تروید کی کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کر چکا ہے ،البتہ سعودی عرب نیاسرائیل کے جوہری ہتھیار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مشرق وسطی کو جوہری ہتھیاروں سے پاک علاقہ بنانے کی تجویز پیش کی تھی ۔ سعودی عرب کو تیار جوہری ہتھیار مہیا کرنے کی صورت میں پاکستان کے لیے بڑے سیاسی مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔پاکستانی میجر جنرل فیروز حسن خان نے ، ایٹنگ دی کراس ، نامی کتاب میں پاکستان کے جوہری لیبیا ریٹریوں کا دورہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین جوہری ہتھیاروں کا کوئی معاہدہ موجود ہے ، البتہ میجر جنرل فیروز حسن سے پاکستان کا جوہری پروگرام آگے بڑھتا رہا ہے۔ خواہ سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ کوئی جوہری معاہدہ ہے یا نہیں، البتہ سعودی عرب 2003کے بعد سے اپنی جوہری خواہشات کا بر ملا اظہار کرتا رہا ہے ۔ 2003ء میں سعودی عرب کے ایک اعلی اہلکار نے سعودی عرب کے منصوبے کے بارے میں ایک دستاویز لیک کی تھی ۔ اس دستاویز کے مطابق سعودی عرب ایرا ن کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی صورت میں تین ممکنہ امکانات پر غور کررہاہے:(1)خود جوہری ہتھیار حاصل کرے(2)کسی جوہری طاقت سے سعودی عرب کے دفاع کے لی معاہدہ کرے(3)یا مشرق وسطی کو جوہری ہتھیاروں سے پاک علاقہ قائم کیا جائے ۔ سعودی عرب کو ایران کے جوہری پرگوام سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ صدر اوباما کے مشیر گیری سیمور کا کہنا کہ عراق پر امریکی حملے کے بعد سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں کچھاؤ محسوس ہونا شروع ہوا۔ سعودی عرب صدام حسین کو اقتدار سے نہیں ہٹانا چاہتاتھا۔ سعودی عرب کو ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق شدید خدشات ہیں۔ سعودی عرب اسرائیل سے متعلق امریکی پالیسی سے بھی نالاں تھا ۔ سفارتی حلقوں میں2003ء کے بعد سے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین جوہری تعاون کے معاہدے کے بارے میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں ۔ وکی لیکس میں سامنے آنی والی امریکی سفارت خانے نے محسوس کیا کہ پاکستانی سفارت کاروں نے سعودی عرب اور پاکستان کے جوہری تعاون کے حوالے سے امریکی عہدیداروں کی معلومات کے بارے میں سوالات کرنے شروع کردیے۔ سعودی عرب کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دھمکیاں کیا واقع سنجیدہ ہیں یا وہ صرف امریکہ کو ایرن پر سخت موقف اختیار کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ نیوز نائٹ کو ان دونوں سوالوں کا جواب دو پاکستانی اہلکاروں سے ملا۔ ایک پاکستان اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ دونوں ملکوں کے مابین، شاید، غیر تحریری معاہدہ موجود ہے۔ ہم کیا سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب ہمیں کیوں پیسہ دے رہا تھا۔ یہ کوئی خیرات نہیں تھی۔ ایک دوسرے پاکستانی عہدیدار نے جس نے کچھ عرصہ تک انٹیلی جنس افسر کے طور پر کا م کیا ہے ، نیوز نائٹ کے ایڈیٹر کو بتا یا کہ پاکستان کے پاس کچھ ایسے کچھ وار ہیڈ ہیں جو سعودی عرب کے کہنے پر ان کے حوالے کیے جاسکتے ہیں۔

Saudi Arabia said to have bought nukes from Pakistan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں