Asaduddin Owaisi strongly opposes Hyderabad as UT
بیر سٹر اسدالدین اویسی رکن پارلیمنٹ حیدرآباد صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین نے اعلان کیا ہے کہ 12نومبر مجلس گروپ آ ف منسٹرس کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے اپنا موقف واضح کرے گی۔ حیدرآباد پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ حید رآباد ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اس پر سب کا حق ہے لیکن حیدرآباد کی تہذیب و تمدن اور تاریخ ہماری ہے اس میں کسی قسم کی مداخلت قابل قبول نہیں ۔ مراد نگر میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے صدر مجلس نے کہا کہ گنڈی پیٹ کا پانی پینے والا بے شک حیدرآباد میں رہ سکتا ہے لیکن پانی پیتے ہی حیدرآباد پر دعوی پیش کرنا یہ مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے مرکزی وزیر چرنجیوی کی جانب سے حیدرآباد کو مرکز کے زیر انتظام لانے کے مطالبہ پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی وزیر حیدرآباد کی 400سالہ تاریخ سے واقف نہیں ہیں، اس لئے وہ ایسا کہہ رہے ہیں کہ حیدرآباد ترقی کے لئے انہوں نے 50,000کروڑ روپے لگائے ہیں۔ بیر سٹر اویسی نے کہا کہ سارے ہندوستان میں جس وقت برقی نہیں تھی اس وقت حیدرآباد میں ایک علحدہ پاور پلانٹ موجود تھا۔ چرنجیوی جس علاقہ میں رہتے ہیں وہاں ٹیلی فون کا تصور نہیں تھا اور حیدرآباد میں ٹیلی فون کا نظام تھا۔ یہاں پر ریلوے سروس شروع کی گئی تھی۔ حیدرآباد میں چار مینار ، قلعہ گولکنڈہ اور کئی فن تعمیر کے شاہکار موجود ہیں جبکہ چرنجیوی کا اس علاقہ سے تعلق ہے جہاں پہاڑی کھنڈر ہے۔ حیدرآباد میں کئی صنعتیں قائم کی گئیں ۔ حیدرآباد میں برسوں قبل ہی ترقی ہوئی تھی اس لئے شہر کی ترقی سے متعلق چرنجیوی، چندر ابابو نائیڈو اور دوسرے قائدین جو مطالبہ کر رہے ہیں وہ مضحکہ خیز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد میں مائیکرو سافٹ، آئی ایس بی ، فیس بک اور دوسرے بین الاقوامی اداروں نے اپنے مفاد کی خاطر دفاتر قائم کئے ہیں۔ ایر پورٹس اور ہائی ٹیک سٹی اوقافی جائیدادوں پر موجود ہے۔ صدر مجلس نے کہا کہ اگر تلنگانہ کے کانگریس قائدین حیدرآباد پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کریں تو وہ ان 700نوجوانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں جنھوں نے تلنگانہ کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کے تلنگانہ قائدین میں 25قائدین چیف منسٹر شپ کے دعویدار ہیں اور وہ اقتدار حاصل کرنے کی چکر میں اپنے اصل مقصد کو فراموش کرر ہے ہیں۔ حیدرآباد کے بغیر تلنگانہ ریاست دو دن بھی نہیں چل سکے گی۔ ایچ ایم ڈی اے کے حدود کو الگ کرتے ہوئے تلنگانہ دینے کی بات کہی جارہی ہے جو ناقابل فہم ہے۔ 34اسمبلی حلقوں کو تلنگانہ سے نکال دیا جائے گا تو تلنگانہ میں کچھ نہیں بچے گا۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنانے کی بات کرنے والے تروپتی اور ویزاگ کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنانے کے مخالف کیوں ہیں۔ انہوں نے حیدرآباد کے لا اینڈ آر ڈر کو گورنر کے حوالہ کرنے کی تجویز کی بھی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ لا اینڈ آرڈر ریاست کے اختیار میں ہوتا ہے اس کو مرکز کے حوالہ کرنا غیر دستوری اور غیر جمہوری ہے۔ اگر مرکز کے حوالہ ہی کرنا ہے تو پھر حیدرآباد کے ساتھ رنگا ریڈی، نظام آباد، کھمم اور دوسرے اضلاع کے ایس پیز کو بھی مرکز کے زیر انتظام لانا ہوگا۔ رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے تقسیم کے بعد آندھر ا پردیش حکومت نے جو اراضیات کے الاٹمنٹ سے متعلق جو معاہدے کئے ہیں اس میں مداخلت نہ کرنے سے متعلق انتونی کمیٹی کی تجویز کی بھی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی طریقہ سے اوقافی ارضیات حکومت نے الاٹ کی ہیں اگر عدالت سے وقف بورڈ مقدمہ جیت جاتا ہے تو ان اراضیات کو مسلمانوں کو واپس کرنا ہوگا، لیکن ایساکہا جار ہا ہے کہ معاہدوں میں مداخلت نہ کی جائے جو غیر جمہوری اور غیر قانونی ہے۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ مجلس نے تقسیم کے مسئلہ پر اپنا ایک موقف اختیار کیا تھا۔ پرنب مکرجی کمیٹی ، سری کرشنا کمیٹی مرکز کی جانب سے طلب کئے گئے کل جماعتی اجلاس اور پارلیمنٹ میں بھی مجلس نے یہ بات کہی کہ ریاست کو توڑنے سے آر ایس ایس اور بی جے پی کو سیاسی فائدہ ہوگا اس کے باوجود ریاست کی تقسیم کی جارہی ہے جو بھی نتائج ہوں گے اس کی ذمہ دار مرکزی حکومت ہوگی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مجلس کسی مذہب یا علاقہ کے خلاف نہیں ہے وہ آر ایس ایس ، بی جے پی اور دیگر فرقہ پرستوں کے خلا ف ہے ان کا جمہوری طریقہ سے مقابلہ کیا جائے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں