عصری مواصلاتی تکنالوجی کے اس دور میں اگر کوئی طابع/ناشر یا ادیب/صحافی "اشاعتی حقوق [copyrights]" کی ضرورت و اہمیت سے لاعلمی یا ناواقفیت کا اظہار کرے تو یہ نہ صرف ناقابل یقین امر ہے بلکہ قابل مذمت و قابل گرفت عدالتی معاملہ بھی ہے۔
اگر چند ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت سے متعلق کاپی رائٹس کا کوئی معاہدہ یا ضابطہ نافذ نہ ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہرگز نہیں ہے کہ اشخاص یا اشاعتی اداروں کو بلاروک ٹوک ایک دوسرے ملک کی تصانیف کو اپنی مرضی سے شائع کرنے کا اخلاقی و قانونی جواز حاصل ہو گیا ہے۔
ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کے حقوق ان کے اہل خانہ کے پاس محفوظ ہیں۔ اس سلسلے میں براہ راست ابن صفی کے فرزند احمد صفی سے بآسانی رابطہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ سوشل نیٹ ورکنگ پر یہ شخصیت کافی مشہور ہے۔
دہلی کا ایک معتبر اشاعتی ادارہ "فرید بک ڈپو" ایک طویل عرصہ سے ابن صفی ناولوں کی اشاعت میں مصروف ہے اور احمد صفی کے بقول اس ادارے نے ابن صفی کے اہل خانہ سے نہ تو کوئی اجازت حاصل کی ہے اور نہ باقاعدہ اشاعتی حقوق کا کوئی معاہدہ ہی عمل میں لایا ہے۔ لہذا جب ادارہ پر بجا اعتراض کیا گیا تو جواب میں ادارہ کے منیجنگ ڈائرکٹر جناب ناصر خان نے ایک طویل مراسلہ ایک رسالہ "جہاں کتب (شمارہ : اگست-2013)" میں شائع کروایا۔ یہ مراسلہ یہاں ملاحظہ فرمائیں اور پھر فیس بک پر اس کا جو جواب احمد صفی صاحب نے دیا تھا ، وہ بھی ضرور پڑھئے گا۔
ابن صفی کے ناولوں کی معیاری اشاعت اردو کا اہم ادبی فریضہ
ہندوستان میں ابن صفی کے شاہکار ناولوں کی اشاعت و مقبولیت پر حرف گیری کرنے والوں کو الحاج ناصر خان (منیجنگ ڈائریکٹر "فرید بک ڈپو پرائیویٹ لمیٹڈ") کا حقیقت پسندانہ جواب
اپنے 200 سے زائد جاسوسی ناولوں کے ذریعہ بیسویں صدی کے عظیم اردو ادیب ابن صفی مرحوم نے اردو فکشن کے میدان میں جو تاریخ ساز کارنامے انجام دئے ہیں ان سے پوری اردو دنیا واقف ہے۔ ایک وقت تھا جب اردو ادب کے ناقدین و مبصرین نے ابن صفی کی تخلیقات کو عامیانہ سمجھ کر نظرانداز کیا تھا لیکن ان کی عالمگیر شہرت اور غیرمعمولی تخلیقی معنویت نے بالآخر کروڑوں ذہنوں کو مسخر کر لیا اور یہ حقیقت واشگاف ہو گئی کہ ابن صفی اس عہد کے سب سے بڑے فکشن نگار ہیں جنہوں نے جرم و سزا کی کہانیوں کو وسیلہ بنا کر نہ صرف صالح انسانی معاشرے کی تعمیر کی کوشش کی بلکہ اردو فکشن کو سطحیت ، فحاشی اور سستے پن سے پاک کر کے ایک دلچسپ ، آسان اور اثرانگیز اسلوب عطا کیا۔
اردو افسانہ نویسی اور ناول نگاری کی تاریخ میں ایسے عظیم قلمکاروں کی کمی نہیں جو دائمی شہرت و عظمت کے حامل ہیں لیکن یہ عہد حاضر کی سب سے بڑی ادبی صداقت ہے کہ اردو کے کروڑوں عوام و خواص کے ذہنوں پر ابن صفی کی طرح کسی اور قلمکار نے حکومت نہیں کی۔
ہندوستان کو بجا طور پر ناز ہے کہ اردو کا یہ لافانی ادیب اس سرزمین پر پیدا ہوا ، انہوں نے اپنے وطن الہ آباد سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا مگر تقسیم وطن کے المیے نے لاکھوں انسانوں کی طرح ابن صفی کو بھی ترک وطن پر مجبور کیا لیکن بےوطن ہو کر بھی ان کی تخلیقی صلاحیتوں نے ایسی کرشمہ سازیاں دکھائیں کہ پورے برصغیر کے کروڑوں اردو پڑھنے والے ان کی تحریروں کے دیوانے ہو گئے۔ ملکی سرحدیں بےمعنی ہو گئیں اور وہ پورے برصغیر کے سب سے محبوب اور مقبول ادیب بن گئے۔
پاکستان میں ابن صفی نے اپنے ناولوں کی اشاعت کے لیے اپنے اصل نام "اسرار احمد" کی نسبت سے ادارہ "اسرار پبلیکیشنز" قائم کیا تو ہندوستان میں ان کے عزیز ساتھی عباس حسینی نے "جاسوسی دنیا" نکال کر ان کے ناولوں کو ہندوستان کے گوشے گوشے میں پھیلا دیا۔
یہ اردو زبان کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ تقسیمی سیاست نے اس کے ساتھ دشمنانہ سلوک کیا۔ اس ملک کی صدیوں پرانی مشترکہ ہندو مسلم تہذیب کی ترجمان "اردو زبان" کو بےرحم سیاست نے آزاد ہندوستان سے نیست و نابود کرنے کی سازش کی۔ نصف صدی کی ناپاک سیاسی حکمت عملی نے اردو پر اس طرح ضرب لگائی کہ بہت بڑا طبقہ اردو سے محروم ہو گیا۔ اگرچہ اردو مخالف ذہنیت ناکام اور شرمسار ہوئی۔ اردو لاکھ کوششوں کے باوجود مٹائی نہ جا سکی لیکن اردو دشمنوں کو یہ کامیابی ضرور حاصل ہوئی کہ نصف صدی کے دوران اردو کی دو نسلیں اس سے دور ہو گئیں اور اردو پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی چلی گئی، عوامی اخبارات و رسائل بند ہوتے گئے ، اردو زبان و ادب کا دائرہ دانشوروں ، ادیبوں ، شاعروں اور یونیورسٹیوں کے اسکالروں تک سمٹ گیا۔ رہی سہی کسر ٹیلی ویژن اور الکٹرانک میڈیا کے انقلاب نے پوری کر دی۔ تفریح کے لیے کتابیں پڑھنے کا رجحان کم ہوا تو ہندوستان میں خاص طور پر اردو رسالوں اور ناولوں کی اشاعت بھی کم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ گھر گھر پڑھے جانے والے ابن صفی کے ناول بھی غائب ہوتے چلے گئے۔
اگرچہ ابن صفی کی تحریریں لافانی حیثیت رکھتی ہیں اور لاکھوں ذہنوں میں بستی ہیں لیکن ان کے معدوم ہونے کی ایک تکنیکی وجہ بھی تھی کہ ہندوستان و پاکستان دونوں ملکوں میں یہ شاہکار ناول رسالے کے انداز میں معمولی کاغذ پر غیرمجلد چھاپے گئے جو معیاری ادبی کتابوں کی طرح محفوظ نہ رہ سکے۔ اس نقصان کو باشعور اور حساس علمی طبقے میں شدت سے محسوس کیا گیا اور اس عظیم ادیب کی تخلیقات کو ازسر نو تزئین و تدوین کے ساتھ ادب عالیہ کی صورت میں اشاعت کی ضرورت پر زور دیا جانے لگا۔
ہندوستان میں اردو ادب و صحافت کی سرکردہ شخصیت جناب عارف اقبال (مدیر اعلیٰ اردو بک ریویو ، نئی دہلی) نے اس کار عظیم کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے ابن صفی کے ناولوں کو بڑی محنت سے اٹھا کر تلاش کر کے پوری صحت و ادبی ذمہ داری کے ساتھ مدون کیا اور انہیں جدید کمپیوٹر کمپوزنگ سے آراستہ کیا ، ہر کتاب پر پرمغز تحقیقی و تعارفی پیش لفظ اور تبصرے تحریر کیے۔ طباعت و اشاعت کے لیے انہوں نے ہمارے ادارے "فرید بک ڈپو پرائیویٹ لمیٹڈ" سے تعاون کی خواہش ظاہر کی۔ ہمارے ادارے نے ابن صفی جیسے عہد ساز ادیب سے حد درجہ محبت اور ان کی تخلیقات کے تحفظ و ترویج کے مخلصانہ جذبے کی قدر کرتے ہوئے ان شاہکار ناولوں کی اشاعت کو اپنے خاص مشن کا حصہ بنا لیا جس کے تحت ہم اردو ادب کی نایاب اور گراں قیمت پر بھی مشکل سے دستیاب ہونے والی کتابیں کم سے کم قیمت پر شائع کرتے ہیں ۔ اس حقیقت سے ساری اردو دنیا واقف ہے کہ کتابوں کی کم قیمت کے معاملے میں ہندوپاک کا کوئی ادراہ "فریدبک ڈپو" کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔
جناب عارف اقبال کی کاوش و جستجو اور ادارہ فریدبک ڈپو کی خصوصی دلچسپی سے اب تک ابنِ صفی کے 57 شاہکار ناول پہلی بار مجلد اور خوبصورت جدید کتابت و طباعت کے ساتھ شائع ہوچکے ہیں ۔ عہد حاضر کے اس عظیم ادیب کو یہ سب سے بڑا عملی خراجِ عقیدت ہے کہ اس طرح یہ تخلیقات اہلِ نظر تک پہنچ رہی ہیں جب نئے دور میں ابنِ صفی کی علمی ، ادبی ، لسانی اور تہذیبی اہمیت پر اعلیٰ سطحی تحقیق و تنقید کا سلسلہ ساری دنیا میں شروع ہوچکا ہے ۔ اردو ادب کے اس اہم تاریخی موڑ پر اس خوبصورت اور معیاری انداز میں ابنِ صفی کے ناولوں کی اشاعت یقیناً ایک تاریخی کارنامہ ہے جس کا اعتراف اردو دنیا کے تمام ہی سرکردہ دانشوروں نے کیا ہے ۔
برصغیر کی تقسیمی سیاست کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین کتابوں کے کاپی رائٹس اور مطبوعات کی دو طرفہ تجارت کے بارے میں کوئی معاہدہ یا ضابطہ نافذ نہیں ہے ۔ دونوں ممالک میں ایک دوسرے ملک کے ادیبوں ، شاعروں وغیرہ کی تخلیقات آسانی سے چھاپتے رہتے ہیں ، شاید ہی کوئی ہندوستانی ادیب ، دانشور ، ناقد ، شاعر ہوگا جس کی تخلیقات پاکستان میں بلا اجازت اور بلا معاوضہ شائع نہ کی جاتی ہوں ۔ یہی صورت ہندوستان میں پاکستانی تخلیق کاروں کی مطبوعات کے لیے ہے ، لیکن ہندوستان اور پاکستان میں واضح فرق یہ ہے کہ پاکستان میں اردو قارئین اور شائقین کی تعداد زیادہ ہے اس لیے وہاں کے ناشرین کو ہندوستانی کتابوں سے بہت فائدہ پہنچتا ہے جبکہ ہندوستان کی صورتِحال یہ ہے کہ یہاں خریدار برائے نام باقی رہ گئے ہیں ، کتابیں محض کچھ حساس ، باشعور اور شوقین طبقوں تک ہی محدود ہوگئی ہیں ۔ اب یہ بات اظہر من الشمس ہوچکی ہے کہ اردو کی معیاری کتابوں کی اشاعت و تجارت ہر لحاظ سے خسارے کا باعث بن چکی ہے لیکن اس کے باوجود اگر یہ عمل جاری ہے تو اس کے پیچھے اردو سے فطری محبت کا جذبہ اور اپنے تمدنی وجود کا مجنونانہ اظہار ہی ہے ۔ فی الوقت صورتِ حال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کچھ کوتاہ بیں عناصر ہندوستان میں ابنِ صفی کے شہ پاروں کی شاندار اشاعت پر طرح طرح کی حرف گیریاں کر رہے ہیں ، ابھی حال میں ایسی ہی ایک معترضانہ تحریر نظر سے گزری ہے جس میں ایک صاحب نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ جیسے نعوذباللہ ہم یہ کام مالی منفعت کے لیے کر رہے ہیں حالانکہ معترض اس حقیقت سے واقف ہے کہ یہ کام ہندوستان میں کس قدر دشوار ہے ، پھر بھی انھوں نے اپنے اعتراض کے جواز میں اخلاقی قدروں کا واسطہ بھی دیا ہے ۔ ہم ان کے خیالات کی قدر کرتے ہوئے واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک عظیم مصنف کی تخلیقات کو ازسرنو پوری آب و تاب کے ساتھ شائع کرنے اور انھیں ضائع ہوجانے سے بچا کر ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنے کی کوشش کے پس پشت کسی طرح کا تاجرانہ مفاد پیش نظر نہیں بلکہ ہندوستان میں اردو شعر و ادب کی مطبوعات کی صورتِحال (جس کا ذکر پہلے کر چکا ہوں) اس میں ابنِ صفی سے حد درجہ محبت اور عقیدت ہی کارفرما ہے ۔ ہمیں خوشی ہے کہ ابن صفی مرحوم کے لائق فرزند جناب احمد صفی نے ہندوستان میں عارف اقبال صاحب کی ان کوششوں کو اپنے عظیم والد کی سچی خدمت قرار دیا ہے ۔ دراصل سوشل میڈیا پر خواہ مخواہ دخل اندازی کرنے ولے (خواہ وہ ہندوستانی ہوں یا پاکستانی)اس عظیم مصنف کے لیے ہندوستان میں کی جارہی ان کوششوں کو شاید پسند نہیں کر رہے ہیں ۔ اس میں ان کے کونسے مقاصد کار فرما ہیں یہ وہی جانیں لیکن ہم بڑی صاف گوئی کے ساتھ یہ گوش گزار کردینا چاہتے ہیں کہ اگر وہ جائز استحقاق اور اخلاقی و قانونی جواز کے ساتھ ہمارے شامنے آئیں تو ادارہ فرید بک ڈپو بخوشی اردو ادب کی اس اہم خدمت سے دست کش ہونے کو تیار ہے جو اس نے ابنِ صفی کی ادبی عظمت اور اردو زبان و ادب کے خلوص خادم جناب عارف اقبال کے جذبے کے احترام میں انجام دے رہا ہے ۔
Al Hajj Muhammad Nasir Khan saheb of Farid Book Depot has given an explanation for their illegal publications of Ibne Safi Novels (With Arif Iqbal Saheb) in an open letter to monthly Jahn-e Kutub Delhi, in India... The letter is linked at Arif iqbal saheb's associated site.
On behalf of Ibne Safi family (The copyright holders) Ahmad Safi has posted his reply which was forwarded to Al Hajj Nasir Khan saheb through Arif Iqbal Saheb and none has replied back. Arif saheb is not responding to phone calls as of yet...
Piracy is a crime and it cannot be justified.
Please read below.
On behalf of Ibne Safi family (The copyright holders) Ahmad Safi has posted his reply which was forwarded to Al Hajj Nasir Khan saheb through Arif Iqbal Saheb and none has replied back. Arif saheb is not responding to phone calls as of yet...
Piracy is a crime and it cannot be justified.
Please read below.
یکم اگست 2013
لاہور، پاکستان
بنام الحاج محمد ناصر خان،
مینیجنگ ڈائریکٹر، فرید بک ڈپو (پرائیویٹ) لمیٹڈ
محترمی جناب الحاج محمد ناصر خان صاحب، سلام مسنون
آج مجھےبرادرم راشد اشرف نے ای میل کے ذریعے آپ کا مراسلہ جو ماہنامہ جہان ِ کتب (دہلی) کے اگست 2013 کے شمارے میں شائع ہؤا ہے، ارسال کیا۔
آپ نے بہت متاثر کن الفاظ میں ہندوستان میں اردو کی زبوں حالی کی تصویر کشی کی
ہے۔ البتہ اس میں شامل بہت سی باتیں حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ آپ کے آخری پیراگراف سے ابتداء کر رہا ہوں ۔ آپ نے میرے (احمد صفی) کے حوالے سے تحریر کیا کہ میں نے ہندوستان میں عار ف اقبال صاحب کی کوششوں کو اپنے عظیم والد کی سچی خدمت قرار دیا۔ میں نے ایسی کوئی بات نہ کہیں تحریر کی ہے اور نہ کسی تقریر میں ایسا کہا ہے۔ کاش آپ کوئی حوالہ دے سکتے۔ اردو دنیا کی یہی بات تکلیف دہ ہوتی جارہی ہے کہ بیانات بغیر حوالے کے داغ دیے جاتے ہیں اور صاحب ِ معاملہ سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ میں نے کب ایسا کہا۔ اس کے بعد یہی بیانات مقالوں اور تحقیقی کاموں میں حوالے کے طور پر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور مستند قرار پا جاتے ہیں۔ بھائی، عارف اقبال صاحب کی اردو کے لیے خدمتوں سے کون انکار کر سکتا ہے اور میں کیا سب ہی ان کے معترف ہیں۔ جو بات غلط ہے وہ میں آپ تک پہنچاتا ہوں کیونکہ اس سے قبل عارف صاحب کے ذریعے ہی آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن آپ کے مراسلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو کسی بات کا علم ہی نہیں ہے۔
ابن صفی کا ادبی مشن یہ تھا کہ لوگ قانون کا احترام کریں اور کسی بھی صورت میں قانون شکنی نہ ہونے دیں۔ جب میں اپریل سن 2011 میں دہلی میں عارف اقبال صاحب سے ملا تو میں نے یہی بات کی تھی۔ انڈیا سنٹر میں اس ملاقات میں معروف صحافی اے یو آصف صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے۔ میرا صرف ایک سوال تھا اور وہ یہ کہ ابن صفی کی ناولوں کی غیر قانونی اشاعت کیوں ہو رہی ہے۔ اس وقت برصغیر اور دنیا کے دوسرے حصوں میں صرف اسرار پبلیکیشنز اور ابن صفی کے اہل خانہ ان کتابوں کی اشاعت کے حقوق رکھتے ہیں۔ اگر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں بھی ہے تب بھی اخلاقی طور پر انہیں رابطہ کر کے اجازت کی بات کرنی چاہیئے تھی۔ یہ بات شائد میں کتاب والا اور کتاب نما ٹائپ کے چھاپنے والوں سے نہ کر سکتا کیونکہ وہ کتب قزاقی کے زمرے میں آتے ہیں اور یقیناً ان کو اس سلسلے سے مالی منفعت بھی ہو رہی ہو گی ورنہ وہ کاہے کو چھاپتے۔ مگر جو ابن صفی کے مشن کو جانتے ہوں، اس کا پرچار کرتے ہوں وہی قانون کی خلاف ورزی میں ملوّث ہوں تو ان سے شکایت نہ کی جائے تو کیا کیا جائے۔ عارف صاحب کا مؤقف یہ تھا کہ ان کے پاس ہم سے رابطے کا کوئی ذریعہ نہ تھا (انٹرنیٹ
اور مواصلاتی ترقی کے اس دور میں یہ بات قابل فہم نہیں!)
اسی ملک ہندوستان سے جب ادارہ بلافٹ پبلیکیشنز نے جاسوسی دنیا کے تراجم کا فیصلہ کیا تو انہوں نے بڑی آسانی سے انٹرنیٹ پر موجود ابن صفی ویب سائیٹ کے منتظم جناب محمد حنیف صاحب کے ذریعے سےہمارا پتہ ڈھونڈ نکالا اور باقاعدہ گفتگو کے بعد ایک معاہدے کے تحت ان کتب کو شائع کیا۔ رینڈم ہاؤز انڈیا نے عمران سیریز کے تراجم کے سلسلے میں یہی راہ اختیار کی اور ہم سے رابطے اور باقاعدہ معاہدے کے تحت یہ کام شروع کیا۔ اسی طرح جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے ہندی ایڈیشنز کے لیے ہارپر کالنز انڈیا نے بھی براہ راست رابطہ کر کے معاہدے کے تحت ہندی میں ان کتابوں کے تراجم کو شائع کیا۔ ان سب اداروں میں سے کسی نے ابن صفی کی یا ادب کی خدمت کے بلند بانگ دعوے نہیں کیے مگر تمام قانونی تقاضے پورے کر کے اس کام کو سر انجام دیا۔
راقم نے دہلی میں ہونے والی ملاقات ہی میں اس پر عارف اقبال صاحب سے تبادلہء خیال کر لیا تھا۔ ان کے پاس رابطہ نہ کر پانے کا کوئی جواز موجود نہ تھا۔ اس کی گواہی اے یو آصف صاحب بھی دے سکتے ہیں۔ عارف صاحب نے فرید بک ڈپو اور آپ کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ وہ اس سلسلے کو قانونی بنانے کے لیے آپ سے درخواست کریں گے۔ لیکن اس کے بعد سے ہم کسی پیش رفت کے منتظر ہی ہیں۔ اسی لیے اب تک عارف اقبال صاحب کی کسی بھی سرگرمی بشمول ان کی حالیہ کتاب "ابن صفی ۔ مشن اور ادبی کارنامہ" کی کوئی حمایت بھی اسی لیے نہیں کر سکے کہ ہمارا ایک اصولی مؤقف ہے جس کا جواب ہی نہیں دیا جا رہا۔ ابن صفی کی غیر قانونی اشاعت کرنے والے کس طرح ان کے مشن کی بات کر سکتے ہیں؟ مذکورہ کتاب میں میری تصاویر ملاقات میں ہونے والی گفتگو کے پس منظر سے الگ کر کے شائع کی گئی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عارف صاحب اس ملاقات کا احوال بھی درج کرتے اور پوری گفتگو رقم کرتے۔
عارف صاحب نے راقم کے نام اپنے دو خطوط میں آپ سے اس سلسلے میں کی جانے والی درخواستوں کا ذکر بھی کیا ہے اور یہ بھی تحریر کیا ہے کہ انہوں نے آپ تک میرا پیغام بھی پہنچا دیا تھا اور میری ای میل کا پتہ اور فون کا نمبر بھی دے دیا تھا۔ اب اس بات کی صھت کا اُن کے اور آپ کے علاوہ کسی اور کو کیا علم۔ اس بات سے قطع نظر کہ قانونی حقوق رکھنے والے عارف صاحب کے توسط سے آپ سے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں، آپ کے مراسلے تو یہ صاف ظاہر ہو گیا کہ چونکہ ہندوستان میں اور پاکستان میں (آپ کے مطابق) لوگ مال ِ مفت دل ِ بے رحم کے تحت کتابیں چھاپ رہے ہیں لہٰذا آپ کو بھی اس بات کا حق ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہؤے اس کام کو جاری رکھیں، گناہ و ثواب اللہ جانے۔
اس موقع پر میں ایک بار پھر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ابن صفی کے ناولوں کی اشاعت کو قانونی معاہدے کے تحت لانے میں جملہ حقوق رکھنے والوں کی حیثیت سے ہمارا منشاء فروخت اور رائیلٹی کے معاملات سے زیادہ صحت متن اور جعلی ناولوں کے اصل کے ساتھ شامل ہو جانے سے روکنا ہے۔ ابن صفی کے تمام اہل خانہ اپنی اپنی جگہ خوش و خرم ہیں اور ان کی تحریروں کی رائلٹی پر انحصار نہیں کرتے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہندوستان سے شائع ہونے والی جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے ناولوں میں جو نکہت پبلیکیشنز کے ختم ہونے کے بعد غیر قانونی طور پر شائع کی گئیں، کتابت و ادارت کی بے شمار اغلاط ہیں۔ پورے پورے پیراگراف ان قزاقانہ اشاعتوں میں حذف کر دیے گئے ہیں۔ جتنے بھی معاہدے پاکستان سے ہم نے اپنے والد مرحوم کی کتابوں کی اشاعت کے کیے ان میں صحت متن کی ضمانت کے لیے خصوصی شقیں دلوائیں تاکہ اشاعت سے پہلے متن پر نظر ثانی کی جاسکے۔ اس کے علاوہ چند جعلی ناول جو ابن صفی کے نام سے ہندوستان میں رائج ہو گئے ہیں ان کی نشاندہی کر کے ان کو بھی اصل فہرست میں شامل ہونے سے روکا جا سکے۔ سر دست تو ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ فرید بک ڈپو کی شائع شدہ کتابیں کس معیار کی ہیں؟ کیا ان میں غلطیاں تو نہیں راہ پا چکیں؟ ابن صفی سے اتنی محبت رکھنے کے باجود اور ان کی کتابوں کی باقاعدہ ایکسپورٹ کے ہوتے ہؤے، فرید بک ڈپو نے کبھی اس بات کا اہتمام نہ کیا کہ ابن صفی کے اہل خانہ کو بھی ان کتابوں کے دیدار کرا دیتے ۔ عارف اقبال صاحب سے اس سلسلے میں بھی گذارش کی گئی تھی لیکن دیگر تمام گذارشات کی طرح یہ گذارش بھی قابل اعتناء نہ سمجھی گئی۔
میں یہ خط آپ تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں اور کوئی نہ کوئی راہ نکل ہی آئے گی۔ اس کے ساتھ ہی اپنا مؤقف مجھے ماہنامہ جہان ِ کتب کو بھی ارسال کرنا پڑے گا کیونکہ فرید بک ڈپو کی اشاعت پر اعتراض کنندگان کو آپ نے کوتاہ بین قرار دے کر سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا ہے ۔ کوئی نہیں چاہتا کہ آپ اردو کی خدمت سے دست کش ہو جائیں لیکن جو طریقہ جائز ہے اس پر عمل بھی تو کریں۔ دوسرے جو کچھ بھی کرتے رہیں آپ کی پکڑ تو آپ ہی کے اعمال پر ہو گی!
خیر اندیش
احمد صفی
لاہور، پاکستان
Farid Book Depot - Copyright Violations of Ibne Safi's Work
ادارہ تعمیر نیوز کا بے حد شکریہ کہ حق بات کے ابلاغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔۔۔ قارئین کی بڑی تعداد کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ فرید بکڈپو کے تحت ابن صفی کی اشاعت غیر قانونی ہے اور اکثر قارئین یہ جان کر بہت حیران ہوتے ہیں۔ شائد ہندوستان میں ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ اشاعت اجازت کے تحت ہے۔ بہر حال ریکارڈ کے لیے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ تا دم ِ تحریر عارف اقبال صاحب اور الحاج ناصر صاحب نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ عارف صاحب نے یہ خط ناصر صاحب تک پہنچانے سے انکاربھی کر دیا ہے۔ ناصر صاحب سے بات کرنے کا بھی کوئی نتیجہ شائد برآمد نہ ہو کیونکہ ان کے پاس ہمارے سارے رابطے کے پتے اور نمبر موجود ہیں۔ لہٰذا اب کسی اور حل کی طرف جانا پڑے گا۔۔۔ قارئین کی رائے کا انتظار بھی رہے گا تاکہ شوریٰ ہو سکے!۔
جواب دیںحذف کریںخیر اندیش
احمد صفی
لاہور، پاکستان
عزیزم احمد صفی صاحب
حذف کریںتسلیمات۔
اندازہ ہو رہا ہے کہ معاملہ اتمامِ حجّت کی منزل سے گذر چکا ہے۔ اگر الحاج صاحب حجِ بیت اللہ کے اثر و نفوذ سے بہرہ ور نہیں ہوسکے تو اس مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک کا مزید ضیاع غالباً غیر مناسب ہوگا۔ واحد رستہ بظاہر تو یہی ہے کہ یہ حضرات مستقل میں ان سرگرمیوں سے احتراز کی یقین دہانی اور تلافیِ مافات دونوں تحریراً کریں۔
خیر اندیش
ضاؔمن جعفری
کینیڈا
بزم قلم گوگل گروپ پر یواین آئی اردو سروس کے چیف سب ایڈیٹر کا ایک تبصرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںاس سلسلے میں جناب عارف اقبال صاحب کے رول کو بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے۔جہاں تک مجھے معلوم ہے فرید بک ڈپو کو اس منعفت بخش کاروبار کی ترغیب انہوں نے ہی دی تھی۔یہ بات بھی آپ کے علم میں ہوگی کہ جناب عارف اقبال صاحب نے ابن صفی کے ناولوں کوابتدا میں اپنے ادارہ اپلائیڈ بکس سے شائع کیا۔ بعد میں انہوں نے بعض وجوہات کی بنا پر اسے فرید بک ڈپو کے حوالے کردیا ۔ جہاں وہ جہان کتب میں مدیر کے طورپر ملازمت کررہے تھے۔ رہی اردو بک ریویوکے حوالے سے اردو ادب کیلئے ان کی خدمات کی بات تو اردوبک ریویوکی ابتدائی پانچ برسوں کی فائلیں اگر دیکھ لیں توبہت سارے حقائق سامنے آجائیں گے اور بہت سا بھرم ختم ہوجائے گا۔یہاں بھی مکروفریب اور دغاو عیاری کی ایک کہانی ملے گی۔
جاوید اختر
چیف سب ایڈیٹر
یواین آئی اردوسروس
فرید بک ڈیپو نے بہت ہی زبردست کام کیا ہے۔ جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ اس سلسلے میں اگر ابن صفی صاحب کے فرزند محترم جناب احمد صفی صاحب سے اجازت و مشاورت سے کام کیا جائے تو یہ بہت ہی اچھی بات ہے۔ پھر کوئی اعتراض کرنے والا اعتراض بھی نہیں کر سکے گا۔
جواب دیںحذف کریں