اسمبلی انتخابات اور ہمدردان اردو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-17

اسمبلی انتخابات اور ہمدردان اردو

Assembly-Elections-and-sympathy-towards-Urdu
ہندوستان جمہوریت نشان کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی سر گرمیاں جاری ہیں،سیاسی پارٹیاں حسب دستور رائے دہندگان کے مسائل و مصائب پر بھر پور توجہ دینے کے وعدے کررہی ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی نظریں اقلیتوں کے ووٹوں پر بھی ہیں اور انہیں بھی رجھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ راجستھان، مدھیہ پردیش، دہلی ، چھتیس گڑھ اور میزورم میں انتخابی مراحل دسمبر کے پہلے ہفتے میں ہی اختتام پذیر ہوجائیں گے۔ ان ریاستوں میں اقلتیں بالخصوص مسلمان بھی خاصی تعداد میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ دیگر صوبوں کے مسلمانوں کی طرح ان پانچ صوبوں میں بھی مسلمانوں کے سیاسی، تمدنی ، معاشی اور سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ ایک اہم مسئلہ ملی، مذہبی اور لسانی تشخص کو برقرار رکھنے سے متعلق بھی ہے۔ جہاں تک لسانی تحفظ کا سوال ہے تو یہ سوال خاص طور پر سیکولر اردو کی بقا اور زبان کی تعلیم و تدریش سے منسلک ہے۔ مذکورہ بالا پانچوں ریاستوں میں مجموعی طور پر نصف کروڑ سے زائد اہل اردو آباد ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آزادی ہند کے بعد سے جہاں ملک کی دیگر ریاستوں میں اردو زبان کو سرکاری دفاتر، عدالتوں اور اسکولوں سے ختم کیا گیا، وہیں مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ ، راجستھان، دلی اور میزورم میں بھی اردو والوں کو انصاف نہیں ملا یا کم ملا۔ مثلا مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال میں نوابین کے دور اقتدار میں اردو کا بول با لا تھا، ہوشنگ آباد ، اندور، کھنڈوا اور اس ریاست کے دیگر شہروں اور علاقوں میں اردو کا چلن تھا، لیکن تقسیم وطن کے بعد اتر پردیش ، بہار اور پنجاب کی طرح مدھیہ پردیش میں بھی اردو معتوب زبان ٹہری ۔ اگرچہ کانگریس کے دور اقتدار میں اردو والوں کے آنسو پونچھنے کی تھوڑی سی کوشش کی گئی اور ملا رموزی کے نام سے اردو اکادمی کے لیے ایک عمارت بھی تعمیر کی گئی، لیکن بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اس عمارت کا ملارموزی سنسکرتی بھون نام رکھ دیا گیا۔ علاوہ ازیں اردو کی تعلیم و تدریس کی جانب سے بھی غفلت برتی گئی۔ تاہم شیوراج سنگھ چوہان نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں اہل اردو کی داستان غم بھی سنی ۔ اب یہ بات دیگر ہے کہ اس داستان کو سننے کے باوجود اس سیاست کی ماری زبان کو کچھ نہیں ملا۔ اب جبکہ اسمبلی انتخابات سر پر آگئے ہیں اور ہر پارٹی انتخابی وعدے کر رہی ہے تو یہ اہل اردو کا فرض ہے کہ وہ مدھیہ پردیش کی دونوں بڑی پارٹیوں یعنی بی جے پی اور کانگریس کے قائدین کے سامنے اپنے مطالبات بالخصوص اردو اساتذہ کی تقرری اور سہ لسانی فارمولے پر صدق دلی سے عمل کرانے کی مانگیں رکھیں اور ان سے یہ اصرار کریں کہ وہ انتخابی منشور میں اردو کے فروغ کے لیے ٹھوس نکات پیش کریں اور یہ انتخابی منشور ہندی کے ساتھ اردو زبان میں بھی شائع کیا جائے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مدھیہ پردیش میں نصف کروڑ سے زائد افراد کی زبان اردو ہے ، لیکن اردو حلقوں میں اردو اساتذہ کی مناسب تعداد میں تقرری نہیں کی گئی ۔ اسی طرح اردو اکادمی مدھیہ پردیش نے بھی ریاست کے ان شہروں میں اردو کوچنگ سینٹر نہیں قائم کیے، جہاں لوگ دنیا کی اس انتہائی شیریں زبان کو پڑھنا چاہتے ہیں۔ یوپی اور بہار کی طرح مدھیہ پردیش میں بھی ہندی کے بعد اردو والوں کی ہی تعداد سب سے زیادہ ہے ، لیکن اس ریاست میں بی جے پی حکومت نے نہ تو مترجمین کا تقرر کیا اور نہ ہی اردو اساتذہ کا۔ لہذا انجمن ترقی اردو اور دیگر اردو تنظیموں ، اردو اساتذہ کی تنظیموں اور یونیورسٹی و کالج کے اردو پرو فیسروں کی انجمنوں اور ادبی تنظیموں کو بھی کانگریس اور بی جے پی جیسی بڑی پارٹیوں کے سامنے اردو تعلیم و تدریس کے مسائل اور اپنے مطالبات کو ضرور رکھنا چاہئے اور متحد ہو کر پر زور اندار میں رکھنا چاہئے۔ بہرحال مدھیہ پردیش میں اردو کی حالت اطمینان بخش نہیں ہے اور اس جانب سیاسی پارٹیوں کی توجہ اسمبلی انتخابات سے قبل مبذول کرانا اشد ضروری ہے۔ جہاں تک راجستھان کا سوال ہے تو وہاں بھی اہل اردو کی تعداد لاکھوں میں ہے، لیکن ان کی زبان کے ساتھ انصاف ابھی تک نہیں ہوا۔ اس ریاست میں اردو اساتذہ کی کمی ہے۔ ایسے متعدد دیہات ، محلوں اور بستیوں کے اسکولوں میں اردو اساتذہ نہیں ہیں، جہاں اہل اردو کی اکثریت ہے۔ اردو اکادمی راجستھان میں ضرور ہے، لیکن اس کا بجٹ کم ہے۔ اگر اس ادارہ کا بجٹ ریاستی حکومت بڑھادے اور یہ اکادمی بڑی تعداد میں اردو کوچنگ سینٹر قائم کرے ، جہاں اس زبان کی درس و تدریس کا انتظام ہو تو یقیناًاردو کے فروغ میں مدد ملے گی۔ اردو انجمنوں اور ادبی تنظیموں کو منظم طور پر کانگریسی و دیگر پارٹیوں کے رہنماؤں سے یہ مطالبات نہ صرف کرنے چاہئیں۔ بلکہ اردو کے مسئلہ کو حل کرانے کا نکتہ انتخابی منشور میں بھی شامل کرایا جائے۔ جہاں تک چھتیس گڑھ کا تعلق ہے تو اس ریاست میں بھی اردو والے خاصی تعداد میں ہیں اور وہاں اردو انجمنیں اور تنظیمیں بھی ہیں۔ اس ریاست میں بھی اسمبلی انتخابات کی سر گرمیاں شباب پر ہیں۔ وہاں کی بی جے پی سرکار نے اردو کے لیے کچھ نہیں کیا۔ لہذا اہل اردو کو الیکشن سے قبل اردو کے فروغ کے مسئلہ کو کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کے سامنے اٹھانا چاہئے اور اردو اساتذہ کے تقررو اردو اکادمی کے قیام کے مطالبات رکھنے چاہئیں۔ جہاں تک دہلی میں اسمبلی انتخابات کی سر گرمیوں کا سوال ہے تو وہ اپنے شباب پر ہیں۔ اگر چہ اس ریاست میں اردو اکادمی فعال ہے، اردو میڈیم اسکول بھی ہیں، لیکن اس قومی راجدھانی میں اردو والوں کے مسائل پوری طرح حل نہیں ہوئے ہیں۔ بہت سی اردو بستیوں ، کالونیوں میں سرکار نے اردو اساتذہ کی تقرری نہیں کی ہے، ایسے بھی متعدد ثانوی اسکول ہیں، مثلا مالویہ نگر، مدن گیر، امبیڈکر نگر وغیرہ میں جہاں بڑی تعداد میں طلبا و طالبات ، جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں،بارہویں کلاس تک اردو بطور اختیاری مضمون پڑھنا چاہتے ہیں، لیکن اسکولوں میں اردو اساتذہ نہیں ہیں۔ لہذا کانگریس آپ اور دیگر سیاسی پارٹیوں سے اردو والوں کو اپنے مسائل کا حل طلب کرنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں اردو تنظیموں کے نمائندوں کو مختلف سیاسی پارٹیوں کے سر براہوں سے ملاقات کرکے اپنے مطالبات ان کے سامنے رکھنے چاہئیں۔ راجدھانی دہلی میں اگرچہ اردو سرکاری زبان ہے ، لیکن یہاں سرکاری دفاتر اور تھانوں میں اردو مترجمین نہیں ہیں، جبکہ اتر پردیش ار بہار جیسی پسماندہ ریاستوں کے دفاتر میں کئی ہزار اردو مترجمین ہیں، لہذا سیاسی پارٹیوں سے یہ مطالبہ بھی کیا جائے کہ دہلی کے سرکاری دفاتر میں بڑی تعداد میں ا ردو مترجمین کا تقرر کرنے کا وہ وعدہ کریں۔ اردو کی تنظیموں ، ادبی انجمنوں اور مسلم و سیکولر جماعتوں کو اسمبلی الیکشن میں اس ستم رسیدہ زبان کو انصاف دلانے کے متحرک ہونا چاہئے۔ شکر ہے کہ اس سلسلہ میں انجمن ترقی اردو ( ہند) نے عملی اقدام کیے ہیں۔ مثال کے طور پر اس انجمن کے جنرل سکریٹری اور اس کے ترجمان ہفت روزہ ، ہماری زبان، کے مدیر ڈاکٹر اطہر فاروقی صاحب نے اپنے اداریہ میں انتخابات سے قبل اہل اردو کو اپنے مطالبات منوانے کے لیے متحرک کیا ہے۔ اردو کا ایک بڑا مسئلہ انگریزی میڈیم اسکولوں میں ایک اختیاری مضمون کی حیثیت سے اردو کی تعلیم و تدریس سے متعلق ہے۔ درا صل مدھیہ پردیش ہو یا راجستھان ، دلی ہو یا چھتیس گڑھ ہر صوبے میں انگریزی میڈیم اسکولوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور مستقبل میں ان کی تعداد مزید بڑھے گی۔ لیکن بدقسمتی سے ان اسکولوں میں بہت ہی کم ، بلکہ نا کہ برابر اسکولوں اور اردو کی تدریس کاانتظام ہے۔ اس لیے ہم اردو والے سیاسی پارٹیوں سے یہ بھی مطالبہ کریں کہ ہر ریاست کے ایسے انگریزی میڈیم اسکولوں میں اردو اساتذہ کا تقرر کیا جائے، جہاں 10یا اس سے زائد طلبا و طالبات اردو پڑھنے کے خواہاں ہیں۔ ایسے اسکولوں کو ریاستی سرکاریں یا ان کی اردو اکادمیاں اساتذہ کی تنخواہیں دیں تو مناسب ہوگا۔علاوہ ازیں اردو کی نصابی کتب بھی ان ریاستوں میں بر وقت دستیاب نہیں ہوتیں اور انہیں اکثر تاخیر سے شائع کیا جاتا ہے۔ لہذا سیاسی پارٹیوں سے ہم اردو والوں کی یہ بھی مانگ ہونی چاہئے کہ تعلیمی سیشن شروع ہونے سے قبل ہی مارکیٹ میں اردو کی درسی کتب لازمی طور پر دستیاب ہوں نیز اردو نصابی کتب پر نظر ثانی کے لیے ہر ریاست میں اردو اساتذہ ، دانشوروں ، ادیبوں و شعراء کی کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائیں۔ بہر حال ہم اہل اردو پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا لسانی فائدہ ضرور اٹھائیں اور اپنی مادری زبان کے فروغ کے لیے سیاسی پارٹیوں کو ٹھوس اقدام کرنے کے لیے مجبور کریں۔

***
Asad Raza
اسد رضا

Assembly Elections and sympathy towards Urdu. Article: Asad Raza

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں