ریاست آندھرا پردیش کے 75 فیصد عوام تقسیم کے مخالف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-11-14

ریاست آندھرا پردیش کے 75 فیصد عوام تقسیم کے مخالف

وائی ایس آرکانگریس پارٹی اور سی پی آئی ایم نے تلنگانہ پروزراء کے گروپ کو بتایا کہ آندھراپردیش کے اتحاد کوبرقراررکھناچاہیے،کیوں کہ تقسیم کا عفریت دیگر ریاستوں میں اپنابدنماسراٹھاتے ہوئے مسائل پیدا کرے گا۔آندھراپردیش سی پی ایم سکریٹری بی بی راگھولو نے بتایاکہ ریاست کو تقسیم نہیں کرناچاہیے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ آندھراپردیش کے موقف کوجوں کاتوں برقراررکھا جائے گا،کیوں کہ تقسیم کی صورت میں مسائل کا اعادہ ہوگا۔انہوں نے یہاں صحافیوں کو بتایاکہ ہماری پارٹی نے ریاست کے پسماندہ علاقوں میں روزگار کے مواقع کو بہتربنانے کے لیے مختلف اقدامات تجویز کیے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ آندھرا پردیش کی تقسیم ناگزیرہونے کی صورت میں مرکزکواس کی تقسیم سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا ہوگا۔وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے مرکزی حکومت پرفوری تقسیم کی کارروائی کو روک دینے کا مطالبہ کیا،کیوں کہ آنے والی کئی نسلوں تک تلگو عوام کی بڑی تعداد کے لیے تباہ بن جائے گا۔وزراء کے گروپ کے موسومہ مکتوب میں پارٹی نے بتایاکہ وہ ریاست کی تقسیم کے ہراقدام کی مخالفت کرے گی۔ہماری پارٹی یقین کامل کے ساتھ واضح طورپراس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ ریاست کو متحدرکھناچاہیے۔آندھراپردیش کے وزیرسیاحت وی وسنت کمار نے بتایاکہ انہوں نے کل وزراء کے گروپ پرزوردیاتھاکہ حیدرآباد میٹروپولیٹن ڈیولپمنٹ ایریاکومرکزی زیرانتظام علاقہ بنائے ۔ایچ ایم ڈی اے کومرکزی زیرانتظام علاقہ بنائے بغیرمرکزکس طرح سے ایچ ایم ڈی ای میں آندھراعلاقہ کی جان ومال کا تحفظ کرسکتاہے۔درایں اثناء ٹی آرایس نے وزراء کے گروپ کی میٹنگ کابائیکاٹ کرنے پرٹی ڈی پی کے سربراہ چندرابابونائیڈوکونشانہ بنایا۔ٹی آر ایس قائدکے ٹی آر نے یہاں پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ آندھراپردیش کی8مسلمہ سیاسی جماعتوں نے وزراء کے گروپ سے اپنی رائے کااظہار کردیاہے،جس میں ٹی ڈی پی شامل نہیں ہے۔انہوں نے بتایاکہ وہ(چندرابابونائیڈو)انصاف کی باتیں کرتے ہیں،تاہم دونوں علاقوں سے وہ ناانصافی کررہے ہیں،یواین آئی کے بموجب وائی ایس آرکانگریس پارٹی نے آج آندھراپردیش کی مجوزہ تقسیم کی پرزور مخالفت کااعادہ کرتے ہوئے اس کے نمائندے بشمول ایم وی میسوراریڈی اورگٹورام چندرراؤ نے نئی دہلی میں وزراء کے گروپ (جی اوایم)سے اپنے اس پیام کا پرزوراظہار بھی کردیاہے۔جی اوایم کے موسومہ مکتوب جس کی نقل یہاں صحافت کے حوالے کی گئی وائی ایس آرسی پی صدراورکڑپہ کے رکن پارلیمنٹ جگن موہن ریڈی نے اس بات کی وضاحت کردی کہ ان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے اور وہ ریاست کی تقسیم کے ہراقدام کی مخالفت کریں گے۔ریاست کی تقسیم کے مسئلہ پرتجاویز کی فراہمی کے لیے جی او ایم کی طلبی کاجواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایاکہ پارٹی نے اس ماہ کے پہلے ہفتہ میں مرکزی وزارت داخلہ کے شریک معتمدکو متحدہ آندھراپردیش پراپنے موقف سے آگاہ کردیاہے۔انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ ہماری پارٹی یقین کامل اوروضاحت کے ساتھ اس بات کااعادہ کرتی ہے کہ ریاست کو متحدرہناچاہئے اور ریاست کے بہترین مفادات کے تحت کسی بھی قسم کے حالات میں اسے تقسیم نہیں کیاجاناچاہئے اوراس سلسلے میں کوئی ابہام موجودنہیں ہوناچاہئے۔انہوں نے بتایاکہ ہم3اکتوبر2013ء کے مرکزی کابینہ کے فیصلے کی تائید نہیں کرسکتے۔اس کا مقصد ریاست کی تقسیم ہے کیونکہ ہمارے لیے یہ بات ناقابل قبول ہے۔انہوں نے بتایا کہ ریاست کی75فیصد آبادی تقسیم کی شدومد کے ساتھ مخالفت کررہی ہے۔ریڈی نے بتایا کہ عوام گذشتہ ساڑھے تین ماہ کے دوران فقیدالمثال احتجاج کرتے رہے ہیں،کیونکہ ہم(ریاست کے عوام)کااٹل ایقان ہے کہ تقسیم مستقبل کی نسلوں کونقصان پہنچائے گی۔جگن نے الزام لگایا کہ جی اوایم کی تشکیل کامقصد یقینی طور پرعلاقہ کے جمہوری مظاہروں پریکسوئی نہیں بلکہ مرکز کے فیصلے کاجائرہ ہے۔یہ بات واضح ہے کہ مرکزتلنگانہ اورسیما۔آندھرادونوں علاقوں کو شیدید نقصان پہنچے کی صورت میں بھی تقسیم میں پیشرفت کا خواہاں ہے۔لارڈکرزن کی جانب سے1905ء میں بنگال کی مذموم تقسیم"پھوٹ ڈالواور حکمرانی کرو"کے برطانوی نظریات کے ساتھ تلگوعوام کے ذہن میں دوبار آرہی ہے کیونکہ اے آئی سی سی بھی یہی اصول اپنارہی ہے۔انہوں نے بتایاکہ اگرچہ کہ یوپی اے بلند بانگ دعوے کررہی ہے کہ اس نے2005ء میں حق اطلاعات قانون(آر ٹی اے)کومتعارف کرایاہے جبکہ وہ ریاست کی تقسیم کے معاملہ میں جمہوریت پسندانہ اورشفاف اندازمیں ایک قدم بھی اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ بجٹ نقطہ نظرسے آندھراپردیش تیسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ہندی کے بعد ملک میں سب سے زیادہ کثرت سے تلگوبولی جاتی ہے۔انہوں نے بتایاکہ ایسی عظیم اورطاقتورریاست کی تقسیم کی کوششیں کی جائیں تواسے طاقتور تلگوقوم کوکمزور کرنے کی سازش سمجھاجاناچاہئے۔انہوں نے بتایا کہ سری کرشناکمیٹی رپورٹ کی تمہیدی سفارش کو یوپی اے حکومت نے نظرانداز کردیاہے۔جگن نے بتایاکہ حکومت کی پالیسی دوسری جنگ عظیم سے قبل نازیوں کے اختیار کردہ فلسفہ جیسی ہے۔انہوں نے اس بات پرزوردیاکہ دونوں علاقوں کی دیہی معیشت اورزراعت وکسانوں پرتقسیم کے ناسازگار اثرات مرتب ہوں گے جبکہ مرکزاس بات پر غورنہیں کررہاہے۔

75 per cent people against proposed AP bifurcation

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں