تبصرہ کتاب - اردو کے چھوٹے اخبارات کے مسائل و امکانات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-10-14

تبصرہ کتاب - اردو کے چھوٹے اخبارات کے مسائل و امکانات

small-urdu-newspapers-hyderabad
تبصرہ : اردو کے چھوٹے اخبارات کے مسائل و امکانات
مصنف : اعجاز علی قریشی
مبصر: محمد عبدالعزیز سہیل (ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)

صحافت کو ملک کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے اور اردو صحافت نے ہندوستان کی سیاسی و سماجی زندگی اور جد جہد آزادی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اور اردو کے چھوٹے اور بڑے اخبارات نے عوام کے شعور بیداری کی اپنے طور پر کامیاب کوشش کی تھی۔ بیسویں صدی میں دیگر زبانوں کے ساتھ اردو صحافت نے بھی عصری تقاضوں سے ہم آہنگی حاصل کی۔ اور طباعت و اشاعت کے مراحل میں ترقی ہوئی۔ روزنامہ اعتماد،منصف،سیاست، رہنمائے دکن، راشٹریہ سہارا،انقلاب،قومی سلامتی 'قومی آواز وغیرہ جیسے قومی اخبارات ملک گیر سطح پر اپنا احساس دلا تے ہیں اور عوامی شعور بیداری کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں ایسے میں دوسری طرف اردو کے چھوٹے اخبارات بھی علاقائی اور مقامی سطح پر اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہندوستان کے تمام بڑے اور چھوٹے شہروں سے کئی چھوٹے اخبارات جاری ہوتے ہیں جو مالی مسائل سے دوچار ہونے کے باجود اپنے مدیران کی ذاتی جستجو سے اشاعت کے مراحل سے گذر رہے ہیں۔اردو کے چھوٹے اخبارات کی علاقائی اہمیت ہے اور جو خبریں کسی بڑے اخبار کی زینت نہ بنتی ہوں وہ چھوٹے اخباروں میں نمایاں طور پر شائع ہوتی ہیں۔ اور اپنے علاقے کے مسائل اور سیاسی و سماجی 'تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کو بہتر انداز میں پیش کرتی ہیں۔ اس طرح صحافت کی دنیا میں چھوٹے اخبارات کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔ لیکن ان اخبارات کو اشتہارات نہ ملنے اور حکومت کی جانب سے مناسب امداد نہ ملنے کی شکایت ہے۔ اردو کے چھوٹے اخبارات کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے حالیہ دنوں" اردو کے چھوٹے اخبارات کے مسائل و امکانات (حیدرآبادکا جائزہ)" کے موضوع پر جناب اعجاز علی قریشی صاحب ایڈوکیٹ کی قیمتی ومعزز آراء تصنیف شائع ہو ئی ہیں ویسے اعجاز علی قریشی صاحب پیشہ سے وکیل ہیں ساتھ ہی جرنلزم میں بھی وہ اردو صحافت کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اعجاز علی قریشی صاحب کی شخصیت آندھرا پر دیش میں ایک سماجی جہد کار کے طور پر تسلیم کی جاسکتی ہیں انکی یہ تصنیف اردو جرنلزم کورس کے تحت کی جانے والی تحقیق کا حصہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کا پیش لفظ اردو صحافت کی ممتاز و مایہ ناز شخصیت اور شفیق استاد پروفیسر محمد مصطفی علی سروری صاحب صدر شعبہ اردو ترسلی وعامہ وصحافت مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد نے رقم کیاہے۔
پروفیسر محمد مصطفی علی سروری صاحب نے اپنے پیش لفظ میں لکھا ہے"اردو زبان و ادب اور صحافت کے حوالے سے میرا یہ ماننا ہے کہ'اردو زبان دراصل دیوانوں کے شانوں پر پل رہی ہے' اس کتاب کے مصنف اعجاز علی قریشی ایڈوکیٹ کو بھی میں انہی لوگوں میں شمارکرتا ہوں۔ ان کی یہ کتاب دراصل ان کی جرنلزم کورس کے دوران کی جانے والی تحقیق کا نچوڑ ہے(ص5)
زیر تبصرہ کتاب کے موضوعات اسطرح سے ہیں "حیدرآباد سے شائع ہونے والے اردوکے چھوٹے اخبارات کے مسائل اور امکانات"،"اردو اور حیدرآباد"،اردو صحافت کا شہر حیدرآباد"،حیدرآبادمیں اردوصحافت کی تاریخ، اردو صحافت کی ترقی کے لیے کیا کرنا چاہیے"، ،حیدرآبا د میں اردو اخبارات کی خدمات"،فہرست اخبارات،اردو اخبارات کے مدیران کی مشکلات،امکانات اردو اخبارات کی ترقی کیلئے، اردو صحافت کے مسائل،اردو صحافت اور حیدرآباد، اردو ذرائع ابلاغ انٹرنیٹ اور حیدرآباد،،حیدرآبامیں اردو صحافت کی اثر پذیری،متنوع مسائل ،اردو صحافت کا تاریخی پس منظر۔ اپنی کتاب کے پہلے مضمون میں مصنف نے اس نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے کہ "حیدرآبادکے بے شمار اردو اخبارات ان کے ایڈیٹران اپنے ذاتی خرچ پر شائع کرتے ہیں حکومت یا کوئی ادارے کی معاونت انہیں حاصل نہیں ہوتی" انہوں نے اپنے اس مضمون میں مفروضہ قائم کرتے ہوے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اردو اخبارات اردو کی ترقی میں کیا رول ادا کررہے ہیں اردو اخبارات کے مدیران کو کیا مشکلات درپیش ہیں،دیگر زبانوں کے اخبارات کی طرح اردو کے اخبارات کو کیا سہولتیں مہیا ہے۔اردو اخبارات کی ترقی کیلئے کیا کرنا چاہیے ان ہی چار نکات کے پیش نظر انہوں نے اپنی اس تحقیق کو انجام دیا ہے کتاب کا دوسرا عنوان'اردو اور حیدرآباد' کے موضوع پرفاضل مصنف نے شہر حیدرآباد کو اردو کا گہوارہ قرار دیا ہے ساتھ ہی جامعہ عثمانیہ اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں اردو کی صورتحال پر غو رکیا ہے اور آخر میں لکھا ہے"اردو کی شمع کو روشن رکھنے کا اعزاز اردو اخبارات کو بھی جاتا ہے جن میں اردو کے چھوٹے اخبارات بھی شامل ہیں"(ص12)
زیر تبصرہ کتاب کا تیسرا باب 'اردو صحافت کا شہر حیدرآباد "ہے جس میں انہوں نے سجن لال صاحب کے حوالے سے آفتاب دکن کو حیدرآباد کا پہلا اخبارقرار دیا ہے جو 1860 ء میں شائع ہوا ۔ اس مضمون میں1860ء کے آفتاب دکن سے 1949رہنمائے دکن تک کے اخبارات کا مختصراً تذکرہ کیا گیا ہے ۔ایک اور باب حیدرآباد میں اردو صحافت کی تاریخ کے عنوان سے شامل ہے اس عنوان کے تحت رسالہ طباعت 1859ء کے اشاعت کے مقاصد بیان کیے جو کہ 1859ء تا 1947ء تک کے رسائل و اخبارات کا مختصراً احاطہ کیاگیا ہے۔ اس مضمون میں مزید معلومات کی گنجائش پائی جاتی ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب میں اعجازعلی قریشی صاحب نے ایک طرف تو اردو صحافت کی تاریخ اور مسائل کو پیش کیا ہے وہیں انہوں نے تجاویز اور امکانات کو بھی بیان کیا ہے دیگر موضوعات کے برعکس یہ عنوان 'اردو اخبارات کی ترقی کیلئے کیا کرنا چاہیے! کا فی اہمیت کا حامل ہے اس میں چھوٹے اخبارات کیلئے مختلف اور اہم تجاویز درج کی گئی ہیں۔ ایک اور عنوان "حیدرآباد کے اردو اخبارات کی خدمات کے تحت شامل ہیں جس میں کسی اخبار کا نام کا تذکرہ کیے بغیر عمومی خدمات کو پیش کیا گیا ہے ساتھ ہی آندھرا پردیش حکومت کی جانب سے جن 205اخبارات و رسائل کو اشتہارات جاری کیے جارہے ہیں ان کی فہرست دی گئی ہیں۔ فاضل مصنف نے اپنی اس کتاب میں چھوٹے اخبارات کے جن مسائل کو بیان کیا ہے وہ تمام کے تمام ہی قابل قبول ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور صحافتی انجمنیں ان مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ کوشش کریں انہوں نے حل کے طور پر جن امکانات کو بیان کیا ہے وہ قابل تقلید ہیں۔
اس کتاب میں بلکل سیدھے سادے اسلوب میں اعجاز علی قریشی صاحب نے اردو کے چھوٹے اخبارات کے مسائل اور ان کا حل کے متعلق تجاویز رکھی ہیں لیکن جو معلومات صحافت کی تاریخ اور اخبارات کی خدمات سے متعلق ہیں ان کا مکمل احاطہ کیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا ۔خٰیر اس موضوع پر ان کی اس تصنیف نے صحافت کے مید ان میں نئے گوشوں کو تلاش کرنے کے مواقع فراہم کیے ہیں اس عنوا ن کے تحت مزید تحقیقی کام کی گنجائش ہے، اعجاز قریشی نے اپنی کتاب کے ذریعے اس موضوع پر نئے گوشوں کو تلاش کرنے کا موقع فراہم کیا ہے ۔اعجاز علی قریشی صاحب قابل مبارکباد ہیں کے انہوں نے بہت ہی اچھے موضوع کو منتخب کیاہے اور اعلی درجہ کی اطلاعات ومعلومات فراہم کی ہیں یہ انکی دوسری تصنیف ہے اس موقع پر میں انہیں تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید بھی کرتا ہوں کہ یہ تصنیف ملک گیر سطح بلخصوص آندھرا پردیش میں اردوادب اور صحافت کے طالب علموں اور اساتذہ اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والے احباب کیلئے معلومات کا ذخیرہ ہے۔
96 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو 100 روپیئے کی قیمت پر
بمکان مصنف : 17-3-225/1/c ، قریشی لائن یاقوت پورہ حیدرآباد
یا ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس نئی دہلی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

***
محمد عبدالعزیز سہیل۔ Ph.D ریسرچ اسکالر(عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزللطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل

A Review on "Problems and Prospects of Small Urdu Newspapers" by Aijaz Ali Qureshi. Reviewer: M.A.A.Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں