بٹلہ ہاؤس قبرستان کی 40 فیصد اراضی پر لوگوں کا ناجائز قبضہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-10-11

بٹلہ ہاؤس قبرستان کی 40 فیصد اراضی پر لوگوں کا ناجائز قبضہ

جامعہ نگر اوکھلا نہ صرف مسلم اکثریتی علاقہ ہے بلکہ یہاں پر مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی ہونے کے باوجود المیہ یہ ہے کہ یہاں پر تدفین کے لیے صرف ایک ہی قبرستان ہے۔ ملی کونسل کے خازن مشرف حسین نے بٹلہ ہاؤس قبرستان کی تفصیلی جان کاری دیتے ہوئے کہا کہ بٹلہ ہاؤس قدیمی قبرستان جو کہ دہلی وقف بورڈکے ریکارڈکے مطابق 100سال پرانا ہے ۔جس کا رقبہ تقریبا 50ہزار گزپر مشتمل ہے ۔اسکو دہلی وقف بورڈنے 1993میں عوام کے حوالے کیا ۔ ریو نیو ریکارڈکے مطابق اس کا خسرہ نمبر105،106،116اور122ہے۔ مذکورہ قبرستان 2حصوں میں بٹا ہوا ہے ۔ایک حصہ روڈ سے جنوب اور دوسرا حصہ شمال میں واقع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بٹلہ ہاؤس قبرستان کی تقریبا 40فیصد زمین پر لوگوں نے نا جائز طور سے قبضہ کرکے فلیٹس اور مکانات تعمیر کرلئے ہیں۔بٹلہ ہاؤس بس اسٹینڈ سے بٹلہ ہاؤس مین مارکیٹ اور ذاکر نگر کی طرف جانے والی سڑک بھی قبرستان کی ہی زمین پر واقع ہے ۔جس کے لیے ایم سی ڈی نے تقریبا5000 گز زمین لے لی ہے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ مقامی ایم ایل اے کی جانب سے قابضین کو تمام سہولتیں بھی دستیاب کرائی جارہی ہے۔ اس حوالے سے انجینئر فیروز احمد صدیقی نے بتایا کہ بٹلہ ہاؤس قبر ستا ن کا مسئلہ بہت ہی افسوسناک ہے ۔ایک ہی قبر میں کئی کئی میتوں کی تدفین ہورہی ہے۔پرانی نیت کے اوپر مٹی بچھا کر نئی میت کو دفنایا جارہاہے ۔بٹلہ ہاؤس قبرستان میں میت کی تدفین کی فیس 5500لے کر 7000روپے تک لی جاتی ہے ،جبکہ دہلی گیٹ کے قبرستان میں تدفین کی فیس صرف 700روپے ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبرستان کے دوسرا حصہ یعنی روڈ سے شمال کی جانب میں تقریبا 20سال سے تدفین کا عمل نہیں ہورہاہے۔ کئی ماہ قبل مقامی ایم ایل اے آصف محمد خان نے قبرستان پر مٹی ڈال کر اس کو ہموار کروایا تھا۔انظامیہ کی لاپروائی کی وجہ سے مقامی بچے اسے کھیل کے میدان کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ۔بچوں کے ذریعہ کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے اب تک درجنوں افراد کرکٹ بال لگنے سے زخمی ہوچکے ہیں ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ بٹلہ ہاؤس قبرستان کی دیکھ بھال کے لئے دہلی وقف بورڈ نے2008میں 7رکنی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی ،لیکن خودساختہ متولی نے مذکورہ 7رکنی کمیٹی کو چارج نہیں دیا جس کی وجہ سے کمیٹی کوئی کام نہیں کرسکی۔ انہوں نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ سے مطالبہ کیا ہے۔ وہ بٹلہ ہاؤس قبرستان کی زمین کو غاصبوں سے آزاد کرائیں اور قبرستان کی جو زمین ایم سی ڈی نے سڑک کے لیے لے رکھی ہے۔ اس کے بدلے میں جامعہ نگر کے اطراف میں ہی قبرستان کے لئے زمین دی جائے ۔شمالی جانب والے آراضی کو تدفین کے لئے کھولا جائے ۔قبرستان کی دیکھ بھال کے لئے نئی کمیٹی تشکیل کی جائے۔ وارڈنمبر 205کے کونسلر شعیب دانش نے کہا کہ بٹلہ ہاؤس قبرستان کے متولی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ بہت جلد قبرستان سے ناجائز قبضے کو ہٹایا جائے گا۔ اور روڈسے شمالی جانب کے قبرستان کو تدفین کے لیے کھول دیا جائے گا ۔لوک جن شکتی پارٹی کے مقامی لیڈر امانت اللہ خان نے کہا کہ بٹلہ ہاؤس قبرستان میت کی تدفین کے لئے فیس کا کوئی پیمانہ نہیں ہے ۔ابھی حال ہی میں آفتاب عالم خان کا انتقال ہوا تو ان کی تدفین کے لئے 7000ہزار روپے وصول کیے گئے اور رسید صرف 700سو روپے کی دی گئی ۔2بچے جو حقیقی بھائی اور بہت ہی زیادہ غریب تھے۔ بجلی کا کرنٹ لگنے سے ان کی موت ہوگئی تھی ۔ان کی تدفین کے لئے 8ہزار روپے لئے گئے ۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری قبرستان میں تدفین کے لیے بھی 2گز زمین نہیں ملے گی تو آ خر کو ان کہاں دفن کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ قبرستان میں تدفین کے لیے ایک مقررہ پیمانہ ہونا چائیے اور غریبوں کی تدفین کی فیس میں خصوصی رعایت کی سہو لت ہونی چاہیے۔امانت اللہ خان نے مزید کہا کہ گورکن کا رویہ بھی لوگوں کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے ۔میت کے لواحقین کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آنا عام بات ہے۔ سماجی کارکن شیعب خان نے کہا کہ قبرستان کے انتظاموانصرام کے لئے علاقے کے سر کردہ سیاسی اور سماجی افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیا جائے اور ووٹنگ کے ذریعہ عہدے داران کا انتخاب کرکے قبرستان کی دیکھ بھال اس کمیتی کے سپرد کی جائے تاکہ آئے دن تدفین میں پیش آرہی پریشانی سے عام لوگوں کو راحت مل سکے۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں