بےگناہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا معاملہ - وزیر داخلہ شنڈے کا بیان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-10-08

بےگناہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا معاملہ - وزیر داخلہ شنڈے کا بیان

arrest-of-innocent-Muslim-youths
بےگناہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا معاملہ : وزیر داخلہ شنڈے نے کیا غلط کہہ دیا ؟

دہشت گردی کے نام پر بے گناہ تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا سلسلہ ملک کا حساس ترین معاملہ ہے،جس کی سنگینی نے انصاف پسندعوام خصوصاً مسلمانوںکوتشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوںکی گرفتاری کے سلسلے میں پولیس افسران کے کردار پر انصاف پسندحلقوںکی جانب سے مسلسل سوالیہ نشان لگائے جاتے رہے ہیں ۔دہشت گردانہ کارروائیو ں میں ملوث اصل چہروںکی گرفتاری اوران کےخلاف ٹھوس ثبوت موجود ہونے کےباوجودفرقہ پرست ذہنیت کےحامل پولیس افسران نے دور کی کوری لاتے ہوئےاسی الزام میں مسلم نوجوانوں کوحراست میں لے کرتفتیش کے نام پر ان کے ساتھ انسانیت سوز مظالم ڈھارہے ہیں اور انہیں ملزم سے مجرم بنانے کی جیسے کوئی مہم چھیڑرکھی ہو۔دیرسے ہی سہی وزیرداخلہ سشیل کمارشنڈے کو اس کا احسا س توہوا۔انہوںنے انصاف کے تقاضوںکے پیش نظروزیراعلیٰ کے نام ایک ایڈوائزری جاری کرکے بے گناہ مسلم نوجوانوںکی گرفتاری کے سلسلے پر روک لگانے کا فرمان جاری کیاہے۔ان کے اس اقدام سے بشمول بی جے پی اور دیگر فرقہ پرست عناصرکے پیٹ میں مروڑپیدا ہونے لگا ہے اورشنڈے پر مسلم منہ بھرائی کا الزام لگاتے ہوئے اس کی زبردست مخالفت کی ہے۔وزیرداخلہ نے ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کولکھے مکتوب میں کہاہے کہ
(1) دہشت گردی کے الزام میںبے گناہ مسلمانوں کوگرفتارنہ کیاجائے ۔
(2)دہشت گردی کے معاملوں سے متعلق سماعت کیلئے ہائی کورٹ کے مشورےسے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں۔
(3)خصوصی وکیلوںکی تقرری اوردیگرمقدمات کے مقابلے ان معاملوںکو ترجیح دی جائے ۔
(4)تعصب کی بنیادپربے گناہ مسلم نوجوانوں کوگرفتا رکرنے والے پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔
(5)بے گناہ رہاہونے والے نوجوانوں کومعقول معاوضہ دیاجائے اوران کی بازآبادکاری کویقینی بنایا جائے۔

وزیرداخلہ شنڈے نے اگرمذکورہ بالانکات پر مشتمل ایڈوائزری جاری کی ہے تو یہ مسلمانوںپر احسان نہیں ہے، بلکہ انہوںنے ملک کے اتحادوسالمیت اورسیکولرازم کی بقاوتحفظ کے تئیں اپنے فرائض منصبی کواداکیاہے۔ چوں کہ ملک میں آرایس ایس ،وشو ہندو پریشد اوربی جے پی کی دہشت گردانہ کارگزاریوںکا اچھی طرح انہیں علم ہے جس کا وہ کئی بارمیڈیاکے سامنے برملا اظہاربھی کرچکے ہیں ۔ان سے قبل وزیرداخلہ رہے پی چدمبرم نے بھی آرایس ایس کوملک کی سلامتی کیلئے خطرہ قراردیتے ہوئے انہیں دہشت گردتنظیم قراردیاتھا۔ اس اظہارحقیقت کے باوجود آرایس ایس کے خلاف اگر ٹھوس کارروائی نہیں کی جارہی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی جڑیں بہت مضبوط ہوچکی ہیں، جوعدلیہ،قانون ساز ادارے اورسیکولرازم کیلئےچیلنج ہے،جبکہ مالیگاؤ ں،اجمیردرگاہ،مکہ مسجد اورسمجھوتہ ایکسپریس دھماکوںکے اصل مجرمین کی گرفتاری ہونے کے بعدبھی ان دھماکوںکے الزام میں درجنوںمسلم نوجوان ہنوز پابندسلاسل ہیں۔این آئی اے اوراے ٹی ایس افسران کی سرگرمیوںکو دیکھ کر ایسا لکتا ہے کہ وہ مسلم نوجوانوںکے پیچھے ہاتھ دھو کرپڑچکے ہیں۔ اعظم گڑھ کے بعدشمالی بہارکے دربھنگہ ،مدھوبنی اورسمستی پورسے حال کے دنوںمیں مسلم نوجوانوںکی گرفتاری کواسی سے جوڑکردیکھا جاسکتا ہے۔اس تناظرمیں وزیرداخلہ کا یہ اقدام یقیناً قابل ستائش ہے ،تاہم انتخابات کے وقت کے قریب ترہو نے سے اس کی اہمیت پر شکوک وشبہات کے بادل کو گہراکردیاہے ،پھر انہوںنے اس پر زبانی جمع خرچ کے فارمولے کو درکنارکرکے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تو اس کے دوررس نتائج برآمدہوں گے اور وہ بےگناہ مسلم نوجوان جوعرصہ دراز سے دہشت گردی کے جھوٹے الزام میںجیل کی کالی کوٹھریوں میں اپنی بے گناہی کی سزاکاٹ رہے ہیں ان کے لیے نیک فال ثابت ہوگا۔
انتظامیہ کی دوہر ی پالیسی کوکیانام دیاجائے کہ ناکردہ گناہوں کی سزابھگت کر آنے والے مسلم نوجوانوں کومعاوضہ یاپھر ان کی بازآبادکاری کیلئے سنجیدہ پہل کرنے کی بات تو دور؛ان سےانسانی حقوق بھی سلب کرلئے جاتے ہیں۔دہشت گردی کے ایسےدرجنوںمعاملات ہیں،جن میں عدالت نے مسلم نوجوانوں کو باعزت بری کیاہے۔دہلی سیشن کورٹ نے26/اگست کو ایک فیصلہ سناتے ہوئے دہلی اسپیشل سیل کے کردارپر سوالیہ نشان لگادیا۔ عدالت نے دہشت گردی کے الزام میں پکڑے گئے دومسلم نوجوان جاویداحمدتانترے اورعاشق علی بھٹ کوبے قصورقراردیتے ہوئے اس کے مقدمات کی ازسرنوسماعت کی عرضی پر روک لگادی ۔ عدالت نے پولیس کے پورے کیس کو فرضی قراردیا۔واضح رہے کہ 15/اگست کے موقع دہشت گردانہ کارروائی کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے دومسلم نوجوانوں کو 6/اگست 2009 کو گرفتارکیاتھا۔پولیس نے دعویٰ کیاتھاکہ یہ خطرناک دہشت گردہیں ،جو 15/اگست کے موقع پردہلی کو دہلادینے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ پولیس نے ان کے پاس سے دواے کے 47/اورکئی میگزین برآمدہونے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن عدالت میں اسپیشل سیل کے سارے دعوے تارعنکبوت ثابت ہوئے ۔دومسلم نوجوانوںکی رہائی یقینا ًانصاف کی جیت ہے ،لیکن کیا انہیں مکمل انصاف مل گیا؟حراست کے دوران زندگی کے جوقیمتی ایام گزرے،انہیں جن ذہنی وجسمانی اذیت ناک مرحلوںسے گزرناپڑا ؛ان کی بھرپائی کیا ہوسکتی ہے۔عدالت سے ملا انصاف تبھی مکمل ہوسکتا ہے جب ان کی بازآدکاری اورمعقول معاوضہ کے بندوبست کے ساتھ ساتھ پولیس افسران سے مواخذہ کیاجائے کہ آخروہ اسلحےکہاں سے آئے تھے،جنہیں ثبوت کے طورپر پیش کیا گیا تھا،پھر اس کی تہہ میں جاکر اس کے پس پردہ چھپے چہروںکوبے نقاب کیاجائے۔دہشت گردانہ معاملوںمیں باعزت بری کئے جانے کی یہ صرف ایک تازہ مثال ہے۔
ہرچندکہ ٹھوس ثبوتوںکی بنیادپربارہا یہ ثابت کیاجاچکا ہے کہ تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعہ گرفتار کیے گئے مسلم نوجوان بےقصورہوتے ہیں ،انہیں صرف مخصوص ذہنیت کی بنیاد پر پابند سلاسل کرنے کا کھیل جاری ہے ۔مکہ مسجد،سمجھوتہ ایکسپریس ،مالیگاؤں اور اجمیر درگاہ بم دھماکوں میں ہندتووادہشت گردوںکی گرفتاری اورسوامی اسیمانند اوراشوک چوہان کے اعتراف نے بھی بہت پہلے واضح کردیاتھاکہ ملک کی دہشت گردانہ کاروائیوںکے پس پست آرایس ایس اوردیگر ہندتووادہشت گردتنظیمیں کارفرما ہیں، مگرتفتیشی ایجنسیاں دانستہ طورپرآرایس ایس کے مقاصدکو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہیں۔اصل مجرموںکو تحفظ فراہم کیاجارہاہے اوربے گناہ مسلم نوجوانوں کو جیل کی کالی کوٹھری میں بند کیا جارہا ہے۔ناندیڑبم دھماکہ کومثال کے طورپرپیش کیاجاسکتا ہے، جہاں آرایس ایس کے دہشت گردبم بناتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے ۔بم بنانے کے دوران دھماکہ ہوجانے سے کئی زخمی ہوئے تھے ۔ پولیس کووہاں سے نقلی ٹوپی ،داڑھی اورکرتا پائجامہ برآمدہوئے تھے، یعنی وہ مسلمان بن کر واردات کو انجام دینے کی سازش رچ رہے تھے ۔تفتیشی ایجنسی کیلئے یہ ثبوت کافی تھےکہ انہیں دہشت گردانہ ایکٹ کے تحت گرفتارکرلیاجائے، لیکن ممبئی اے ٹی ایس کے سربراہ پی کے رگھوونشی (جومسلم دشمنی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں) نے ان سارے معاملوں کی لیپا پوتی کرڈالی اورمسلم نوجوانوں کو بلی کا بکرابنادیا۔اسے انصاف کا خون ہی کہاجائے گاکہ سوامی اسیمانند،اشوک چوہان کے اقبال جرم اورمالیگاؤںبم بلاسٹ کے حقیقی مجرمین کی گرفتاری کے باوجود اسی الزام میں درجنوںمسلم نوجوان جیلو ںمیں بندہیں۔اگر وزیرداخلہ واقعی اس معاملے پر سنجیدہ ہیں، تو سب سے پہلے اپنی ریاست مہاراشٹر میں فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کروائیں اوربے گناہ مسلم نوجوانوںکی بازآبادکاری کیلئے مستحکم پہل کریں،تاکہ دوسری ریاستوںکیلئے وہ مثال بن سکے،ورنہ اس کی حیثیت بھی محض انتخابی وعدوںکی سی ہوکر رہ جائے گی، جسےیقیناً ملک کی جمہوریت کےلیےفال نیک نہیں کہا جاسکتا ہے۔

***
sabirrahbar10[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
صابر رہبر

The arrest of innocent Muslim youths. Article: Sabir Rahbar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں