تبصرہ کتاب - سائبر دور میں حیدرآباد کے روزنامے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-10-15

تبصرہ کتاب - سائبر دور میں حیدرآباد کے روزنامے


hyderabad-urdu-dailies-in-cyber-age
کتاب : سائبر دور میں حیدرآباد کے روزنامے
مصنف: محمد احتشام الحسن مجاہد
مبصر: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

زبان خیال کے اظہار کا اہم ذریعہ ہے۔ انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے زبان استعمال کرتا ہے اور ایک دوسرے سے اپنے خیالات کی ترسیل کرتے ہوئے زندگی کے کام انجام دیتا ہے۔زبان کی پہلی اور بنیادی شکل بولی ہے اور کسی زبان کی ترقی یافتہ شکل اس کا رسم الخط ہے۔جس کے ذریعے زبان کے شعبے علم و ادب وجود میں آتے ہیں۔ زبان کاسماج اور تہذیب سے بھی تعلق ہوتا ہے۔ اور ترقی یافتہ تہذیبوں کی زبان بھی ہمیشہ عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتی رہتی ہے۔ دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اردو بھی ایک عالمی زبان ہے۔ اور آج یہ اکیسویں صدی کے جدید تقاضوں سے لیس ہونے کی کوشش میں لگی ہے۔ موجودہ صدی کو اطلاعات کے طوفان یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں پل پل بریکنگ نیوز کے نام سے پیدا ہونے والی اطلاعات کو میڈیا کے ذرائع اور فون کے ذریعے لوگوں تک پہونچایا جارہا ہے۔ کمپیوٹر،اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے عام ہونے سے دنیا بھر کی معلومات اب انسان کے ہاتھ میں آگئی ہیں اور راہ چلتے یا اپنے کمرے میں لیٹے لیٹے بھی انسان دنیا بھر سے معلومات تحریر،تصویریا ویڈیو کی شکل میں حاصل کر رہا ہے۔ انسان عصر حاضر کی ٹیکنالوجی سے مستفید تو ہورہا ہے لیکن اس ٹیکنالوجی کے سفر سے بہت کم لوگ واقف ہوتے ہیں کہ آج کی یہ حیرت انگیز ترقی کن مراحل سے گُذر کر اس مقام تک پہونچی ہے۔ اردو زبان اور اس کی صحافت بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائبر ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہورہی ہے۔ اخبارات ایک زمانے تک قارئین کو اردو میں خبریں فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ تھے اور آج بھی ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ اور فون کی ترقی کے باجود لوگ اخبار پڑھنے کو ترجیج دیتے ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں جو اردو اخبار ہے وہ پہلے کاتب حضرات کی کتابت اور قدیم طرز کی سنگی اور لیتھو طباعت سے آراستہ ہوکر قارئین کے ہاتھ پہونچتا تھا۔ جب کمپیوٹر کا دور آیا اور کمپیوٹر میں اردو تحریرکا سافٹ ویر وجود میں آیا تو اردو اخبارات کتابت کے مشکل مرحلے سے نکل کر کمپیوٹر کمپوزنگ کے آسان اور خوبصورت دور میں داخل ہوئے اور طباعت میں لیتھو کی جگہ آفسیٹ پرنٹنگ نے لی اور اب رنگین طباعت کا دور آگیا ہے۔ اردو اخبارات اور خاص طور سے آندھرا پردیش کے اردو اخبارت ان تبدیلیوں سے کس انداز میں دوچار ہوئے ان تمام تفصیلات سے اردو کا عام قاری اور نئے دور کا نوجوان قاری ناواقف تھا۔ اردو میں اس نئے اور منفرد موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے سائبر معلومات کو اردو میں قارئین تک پہونچانے میں مہارت رکھنے والے نوجوان صحافی محمد احتشام الحسن مجاہد نے اپنی دوسری تصنیف" سائبر دور میں حیدرآباد کے روزنامے" کے نام ایک مفید اور معلوماتی کتاب پیش کی ہے۔ جس کا حال ہی میں رسم سیاست ہال میں پروفیسر فاطمہ بیگم،پروفیسر ایس اے شکور، عامر علی خان نیوز ایڈیٹر سیاست اور ڈاکٹر فضل اللہ مکرم کے ہاتھوں اجرا عمل میں آیا۔ اردو اخبارات کے قارئین کے لئے محمد احتشام الحسن مجاہد تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ یہ روزنامہ سیاست میں ہر پیر اپنا کمپیوٹر کی معلومات پر مبنی کالم لکھتے ہیں۔ 2004ء سے روزنامہ سیاست سے وابستہ ہیں۔ اسپورٹس جرنلسٹ اور کمپیوٹر نالج کے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اور کمپیوٹر کی مشکل باتوں کو آسان اردو میں اردو قارئین تک پہونچاتے ہیں۔ سائبر دور سے بخوبی واقف ہیں۔ اور اس کی مشکلات کو وہ خود سمجھ کر اردو قارئین تک پہونچاتے ہیں۔ آج کمپیوٹر کے غلبے والے اس دور میں کہا جاتا ہے کہ جو کمپیوٹر چلانا نہیں جانتا وہ جاہل ہے اور لوگوں کو سائبر جہالت سے دور کرنے کے لئے محمد احتشام الحسن مجاہد اپنے نام کی مناسبت سے کمپیوٹر عدم خواندگی اور سائبر کرائم کے دور میں سائبرجہاد کر رہے ہیں اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہیں۔ احتشام کی یہ کتاب "سائبر دور میں حیدرآباد کے روزنامے" ان کے ایم فل مقالے پر مشتمل ہے۔ انہوں نے شعر وا دب کے روایتی موضوعات سے ہٹ کر اردو میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو تحقیق کاموضوع بنایا اور اردو تحقیق میں ایک نئے موضوع کا اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے اردو میں جامعاتی تحقیق کو یہی موضوع بنایا ہے اور عثمانیہ یونیورسٹی سے "سائبر دور میں اردو کی ترقی" کے عنوان پر پی ایچ ڈی کے لئے تحقیق بھی کر رہے ہیں۔ ان کی زیر تبصرہ کتاب حیدرآباد کی اردو صحافت کی طباعتی اعتبار سے عہد بہ عہد تبدیلی اور ترقی کو پیش کرتی ہے۔ اور یہ کتاب حیدرآباد کے روزناموں کی ایک تاریخی دستاویز بھی ہے۔ محمد احتشام الحسن کی پہلی تصنیف " سائبر دنیا اردو میں" 2008ء میں شائع ہوکر مقبول ہوئی ۔ اس کتاب میں کمپیوٹر کے ہارڈ ویر سافٹ ویر اور انٹر نیٹ سے متعلق تازہ ترین معلومات آسان زبان میں پیش کی گئیں۔ دوسری تصنیف " سائبر دور میں حیدرآباد کے روزنامے"کے مشمولات میں مصنف کا مقدمہ، اردو کو ہر دور میں کامیاب بنانے کی کوشش۔ صحافی فاضل حسین پرویز کا تعارفی مضمون، سائبر دور کا آغاز و ارتقاء،ہندوستان میں سائبر دور کا آغاز و ارتقاء،سائبر دور سے قبل حیدرآباد کے اردو اخبارات تاریخ و تجزیہ،سائبر ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد حیدرآباد کے اردو اخبارات میں تبدیلیاں روزنامہ سیاست۔منصف اور رہنمائے دکن کے حوالے سے،سائبر دور میں جاری ہونے والے حیدرآباد کے روزنامے راشٹریہ سہارا اور اعتماد،سائبر دور کی آسانیوں کے باجود حیدرآباد کے روزناموں کے مسائل اور کمپیوٹر اور اردو سافٹ ویر کے مسائل شامل ہیں۔ مقدمے میں مصنف نے سائبر ٹیکنالوجی سے اپنی چاہت اور اردو صحافت کو سائبر ٹیکنالوجی کے عصری تقاضوں سے لیس کرنے کی جستجو کو اس کتاب کی وجہہ تصنیف قرار دیا ۔ ان کے اس طرح کے جذبے کی اردو کے بڑے اخبارات کے اتنظامیہ کی جاب سے حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور اپنے اخبارات کو انگریزی اخبارات کے ہم پلہ بنانے کی جانب پیشرفت کرنی چاہئے۔اردو کا ایک نوجوان صحافی اپنے کوشش سے ان کے مسائل کی عکاسی کرتے ہوئے ان کا حل پیش کر رہا ہے تو اس جانب سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔اردو صحافیوں کی نئی نسل کی نمائیندگی کرنے والے نامور صحافی اور مدیر گواہ سید فاضل حسین پرویز نے اپنے تعارفی مضمون " اردو کو ہر دور میں کامیاب بنانے کی کوشش " میں کتاب کے مصنف احتشام الحسن مجاہد کو عصری موضوع پر معلوماتی مواد پیش کرنے پر مبارکباد دی ہے۔ اور اردو صحافت کی عہد بہ عہد ہورہی تبدیلیوں کو خوش آئیند قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ اردو کے روزنامے جس طرح اپنے آن لائن ایڈیشن شائع کر رہے ہیں اسی طرح بروقت خبروں کی ترسیل کے ویب سائٹ بھی شروع کریں گے۔
کتاب ’ سائبر دور میں حیدرآباد کے روزنامے"کے ابتدائی ابواب میں پس منظر کے طور پر دنیا میں صحافت اور سائبر صحافت کی ابتدااور اردو میں صحافت اور سائبر صحافت کی ابتداء سے متعلق تحقیقی انداز میں مواد پیش کیا گیا ہے۔ احتشام الحسن مجاہد نے لکھاکے انٹرنیٹ کا آغاز 29اکٹوبر 1969کی شام سائینسدان چارلی کلین کی جانب سے لاس اینجلس کی کیلی فورنیا یونیورسٹی سے اسٹانفورڈ ریسرچ سنٹر کو پیغام ارسال کرتے ہوئے کیا گیا۔ انہوں نے لکھا کہ سائبر ایک لاحقہ ہے جس سے سائبر آباد سائبر کرائم اور سائبر ٹیکنالوجی جیسی کمپیوٹر اصطلاحیں وجود میں آئیں۔دنیا میں کمپیوٹر اور اس سے متعلقہ ونڈوز سافٹ ویر کی عہد بہ عہد ترقی کو احتشام الحسن مجاہد نے انگریزی کتابوں کے مطالعے سے بخوبی اردو میں پیش کیا اور دوسرے باب " ہندوستان میں سائبر دور کا آغاز " میں ہندوستان میں کمپیوٹر کی آمد اور اس کی ترقی کا احاطہ کیا گیا۔
احتشام نے لکھا کہ ہندوستان میں کلکتہ میں 1955میں کمپیوٹر کی آمد ہوئی اور 1988ء میں انٹرنیٹ کا استعمال شروع ہوا۔اس باب میں ہندوستان میں سائبر ٹیکنالوجی کے فروغ میں عظیم پریم جی اور چندرابابو نائیڈو کی خدمات کا احاطہ کیا گیا اور بمبئی بنگلور اور حیدرآباد میں سائبر کیفے کے آغاز کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ جو انٹرنیٹ کے عام ہونے کی تاریخ پر مشتمل ہیں۔کتاب کے تیسرے باب "سائبر ٹیکنالوجی سے قبل حیدرآباد کے اردو اخبارات تاریخ و تجزیہ" میں ہندوستان اور حیدرآباد میں اردو صحافت کی تاریخ کو پیش کیا گیا۔ اورصحافت کی ترقی سے متعلق اہم مواد پیش کیا گیا۔ حیدرآباد کے ابتدائی اردو روزناموں رہبر دکن اور سیاست کے آغاز کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ کتاب کے چوتھے باب" سائبر ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد حیدرآباد کے اردو اخبارات میں تبدیلیاں۔۔۔ سے کتاب کے اصل موضوع کا آغاز ہوتاہے جس میں مصنف احتشام الحسن مجاہد نے لکھا کہ اردو صحافت کو سائبر دور سے جوڑنے میں روزنامہ سیاست نے پہل کی اور 15اگسٹ 1988سے روززنامہ سیاست دستی کتابت کے بجائے کمپیوٹر کمپوزنگ سے آراستہ ہوکر شائع ہونے لگا۔ اور اس کے لئے دفتر سیاست پر ایک عصری کمپیوٹر اور لیزر پرنٹر خریدا گیا تھا۔ سیاست کے اجراء کے چالیس سالہ جشن کے موقع پر اخبار کو کمپیوٹر طباعت سے ہم آہنگ کرنے کے مشن پر لکھے گئے تبصرے کو کمپیوٹر پر اردو خط تیار کرنے والے اس وقت کے ماہر کمپیوٹر اشہر فرحان فرزند انور معظم و جیلانی بانو اور کمپوزر سید شاہ عبدالقدیرکی نگرانی میں لکھا گیا جس میں اخبار کے مدیر و بانی جناب عابد علی خان نے لکھا کہ" سیاست چالیس سال بعد کمپیوٹر کی جانب قدم اٹھا رہا ہے۔ اور اللہ کا فضل ہے اور قارئین کے تعاون سے یقین ہے کہ اردو زبان کی مشکلات کے باجود سیاست اس صدی کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے دوسری زبانوں کے اخبارات کے قافلہ میں ان کا ہم پلہ رہے گا"۔ عابد علی خان نے اپنے اس اداریے میں نوجوان نسل پر زور دیا کہ وہ تبدیلی کے اس سفر میں اخبار کا ساتھ دیں۔ اردو خط کی تیاری میں حیدرآبادی نوجوان اشہر فرحان اور ان کے ساتھیوں نے اہم کام کیا۔ اردو اخبارات کو کمپیوٹر سے جوڑنے میں اہم کام اردو خط کی تیاری تھی جس پر صاحب کتاب نے تفصیلی روشنی ڈالی چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ " اردو کمپوزنگ کے لئے اردو سافٹ ویر کی ضرورت تھی جس کی تیاری میں ہندوستان کے علاوہ پاکستان کے چند ماہرین کی خدمات کو اولیت حاصل ہے۔ پاکستان میں انعام علوی کا نام سر فہرست ہے تو ہندوستان میں حیدرآبادی نوجوانوں جاوید ، اشہر فرحان اور 3 Octacle Computers کے کرتا دھرتا دو نوجوان ایوب اور طارق کے نام اردو سافٹ ویر کے بانیوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔" اردو خط کی تیاری سے اردو ان پیج سافٹ ویر کا سفر اور پیج میکر اور دیگر ترقیات کے بارے میں مصنف احتشام الحسن مجاہد نے بے حد قیمتی معلوماتی مواد پیش کیا ہے۔ جو اردو زبان کو کمپیوٹر سے ہم آہنگ کرنے کی ایک تاریخی دستاویز سے کم نہیں۔ ان پیج کے ساتھ کورل ڈرا۔فوٹو شاپ اور دیگر ضروری سافٹ ویر کی معلومات بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ سیاست کے بعدحیدرآباد کے روززناموں رہنمائے دکن منصف وغیرہ میں کمپیوٹر کی آمد کی تفصیلات اور دیگر تبدیلیاں اس باب میں شامل کی گئی ہیں۔کتاب کے اگلے باب میں احتشام نے حیدرآباد سے آن لائن جاری ہونے والے اردو اخبارات کی تفصیل پیش کی ہے۔کتاب کے آخری باب میں سائبر دور میں اردو اخبارات اور صحافیوں کے مسائل پر توجہ دلائی گئی کہ اردو اخبار کے صحافیوں کو انگریزی ٹیلی پرنٹر سے دستیاب ہونے والی خبروں کے ترجمے پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یواین آئی کی اردو سرویس اور پی ٹی آئی کی انگریزی سرویس کی خبروں کی زبان میں فرق پایا جاتا ہے۔ سینئیر تجربہ کار صحافی ترجمے پر انحصار کرتے ہیں۔ اور وہ کمپیوٹر کے استعمال سے واقف نہیں۔ نئے صحافی کمپیوٹر سے واقف ہیں لیکن ان میں خبروں کی اہمیت اور ان کے انتخاب اور ترتیب کا تجربہ نہیں۔ جسے اردو صحافت دور کرنا چاہئے۔ اخبارات کے لئے اشتہارات کے تراجم کی مجبوریوں کا بھی ذکر اس کتاب میں ہے۔کتاب کے آخر میں احتشام نے اس امید کا اظہار کیا کہ دیگرزبانوں کی طرح اردو صحافت بھی آن لائن صحافت سے موبائل صحافت کی جانب قدم بڑھائے گی۔ مجموعی طور سائبر ٹیکنالوجی کی معلومات رکھنے والے عصر حاضر کے صحافیوں اور اردو اخبارات کے لئے احتشام الحسن مجاہد کی یہ تصنیف’ سائبر دور میں حیدرآباد کے روزنامے" معلومات اور صحافتی تاریخ کا اہم دستاویز ہے۔ کتاب کی ترتیب میں انگریزی اور اردو کتابوں کے حوالوں انٹر نیٹ سے استفادے اور قدیم اور جدید دور کے صحافیوں کے انٹرویو سے مدد لی گئی ہے۔ایک ایسے دور میں جب کہ قومی کونسل برائے اردو زبان دہلی اور حکومت ہند کی جانب سے اردو کو سیل فون اور کمپیوٹرسے جوڑنے کے لئے جدید سافٹ ویر کا اجراء عمل میں آیا ہے۔ اور یونیکوڈ نظام سے ہم آہنگ ہوکر اردو زبان اور اردو صحافت کا مواد ان پیج کی تصویری صحافت سے نکل کر گوگل کے سرچ انجن میں دستیاب ہونے لگا ہے۔ احتشام الحسن کی یہ تصنیف اردو سائبر ٹیکنالوجی کے قدیم اور جدید دور کا سنگ میل ہے۔ جس کے لئے کتاب کے مصنف قابل مبارک باد ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ظاہر کرتے ٹائٹل اور اختراعی نوعیت کی طباعت سے لیس یہ کتاب مصنف سے فون نمبر 9618731875 سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

***
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ کالج نظام آباد
موبائل : 00919247191548
ڈاکٹر اسلم فاروقی

A Review on "Hyderabad urdu dailies in cyber age" by Ehteshamul Hasan Mujahid. Reviewer: Dr. Aslam Faroqui

1 تبصرہ:

  1. تبصرہ طویل ہے مگر اچھا ہے ۔مس منظر بہت طویل ہوگیا ہے۔
    سید فضل اللہ مکرم

    جواب دیںحذف کریں