فائدے کے اس سوال کا تعلق عصر حاضر کی اس عمومی معاشرتی صورت حال سے ہے جس میں پیسہ اعلان کیے بغیر معاشرے کا خدا بن کر بیٹھ گیا ہے اور کروڑوں لوگ اعلان کے بغیر اس کی پوجا کررہے ہیں ۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ادب کی تخلیق اور اس کے مطالعے کی افادیت کے بارے میں سوال اٹھانے والے دراصل شاعروں ادیبوں کی معاشی حالت اور ادب کے مطالعے کے معاشی اور سماجی فائدے کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ ایک ایسی فضا میں ادب کیا مذہبیت تک ’’افادی‘‘ ہوجاتی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مذہبیت کا ایک پہلو افادی ہوتا جارہا ہے۔ لیکن بعض لوگ جب ادب کے فائدے کا سوال اٹھاتے ہیں تو وہ دراصل یہ جاننا چاہتے ہیں کہ زندگی میں ادب کی اہمیت کیا ہے۔ اس کا وظیفہ یا Function کیا ہے اور کیا ادب کی تخلیق اور اس کا مطالعہ معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔؟ جہاں تک پہلی قسم کے لوگوں کے سوال کے جواب اور اس مسئلہ کے طے حل کا تعلق ہے تو اس کے لیے شاعروں، ادیبوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر کھلاڑیوں کی طرح ہمارے بینک شاعروں ادیبوں کو لاکھوں روپے کے مشاہرے پر ملازم رکھنے لگیں تو ادب کی افادیت کے سلسلے میں سوال اٹھانے والے اپنے بال بچوں کو شاعر ادیب بنانے کے لیے بیتاب ہوجائیں گے البتہ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو معاشرے میں ادب کے کردار یا اس کے وظیفے کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں تو ان کے سوال کا قدرے تفصیل سے جواب دینا ضروری ہے۔ اس لیے کہ ہمارے زمانے میں ادب کیا مذہب کے حقیقی کردار کی تفہیم بھی دشوار ہوگئی ہے۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ معاشرے میں ادب کی اہمیت کیا ہے۔؟
اسلامی تہذیب میں ادب کی حیثیت مذہب کے تو سیعی دائرے کی ہے۔ ہماری تہذیب میں ادب نہ کبھی معنی کا سرچشمہ رہا ہے نہ وہ کبھی مذہب سے جدا ہوا ہے۔ اس کے برعکس مغربی تہذیب میں ایک زمانہ وہ تھا جب ادب کی ضرورت ہی کا انکار کردیا گیا اور پھر ایک دور وہ آیا جس میں کہا گیا کہ مذہب ختم ہوگیا اب ادب مذہب کی جگہ لے گا۔ ہماری تہذیب میں ادب کے حوالے سے یہ افراط وتفریط کبھی موجود نہیں رہی۔ اس لیے کہ اسلامی تہذیب میں معنی کا چشمہ مذہب ہے چنانچہ ہماری تہذیب میں ادب کا کام یہ ہے کہ وہ معلوم کو محسوس، مجرّد کو ٹھوس اور غیب کو حضور بنائے۔ ادب کے اس کردار نے ہماری روایت میں حقیقت اور مجاز یا Reality اور Appearance کی اصطلاحوں کو جنم دیا ہے اور ہمارے یہاں بڑا ادب اس کو سمجھا جاتا ہے جو بیک وقت حقیقت اور مجاز سے متعلق ہو۔ ہماری تہذیب میں حقیقت کا مطلب خدا اور مجاز کا مطلب ایک سطح پر انسان اور دوسری سطح پر یہ پوری مادی کائنات ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقت اور مجاز میں تعلق کیا ہے؟ ہماری تہذیبی اور ادبی روایت میں مجاز حقیقت کا جلوہ، اس کی علامت اور اس کا ایک اشارہ ہے اور ان کے درمیان تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ انسان مجاز کے ذریعے حقیقت سے رشتہ استوار کرتا ہے۔ اس کا فہم حاصل کرتا ہے۔ اس طرح مجاز کی محبت بھی حقیقت کی محبت بن جاتی ہے۔ ہمارے ادب میں محبت اور ہوس کی اصطلاحیں مروج ہیں۔ محبت کو اچھا اور ہوس کو برا سمجھا جاتا ہے۔ مگر لوگ ان اصطلاحوں کے فرق پر مطلع نہیں ہیں۔ محبت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان مجاز کے وسیلے سے بیک وقت مجاز اور حقیقت دونوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے برعکس محبت ہوس سے اس وقت تبدیل ہوتی ہے جب انسان صرف مجاز میں الجھ کر رہ جائے اور مجاز کے ذریعے حقیقت سے تعلق پیدا نہ کر پائے یا اسے مجاز میں حقیقت کا جلوہ نظر آنا بند ہوجائے۔ ایک شعر ہے۔
ہر بو الہوس نے حُسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ شعور حسن صرف مجاز تک محدود ہوگیا ہے اور نظر کی اس کوتا ہی نے محبت کو ہوس میں تبدیل کردیا ہے لیکن ہوس میں مبتلا لوگوں کو اس کا ادراک نہیں چنانچہ وہ ہوس پرستی کو بھی محبت سمجھے چلے جارہے ہیں۔ ہماری شاعری بالخصوص غزل کی شاعری اور داستان کی روایت کا کمال یہ ہے کہ اس نے حقیقت اور مجاز کی یکجائی اور پیشکش کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ یہ اتنا بڑا تخلیقی اور تہذیبی کارنامہ ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کارنامے کے ذریعے معلوم کو محسوس، مجرّد کو ٹھوس اور غیب کو حضور بنایا گیا ہے۔ ہماری غزل کی شاعری کا قابل ذکر حصہ حقیقت اور مجاز کی وحدت کا حامل ہے اور داستانوں میں ایک سطح پر روحانی تجربے کا بیان ہے اور دوسری سطح پر عام کہانی کا بیان ہے۔ لیکن ادب معلوم کو محسوس مجرد کو ٹھوس اور غیب کو حضور کیسے بناتا ہے؟ اس کی ایک مثال اقبال کی شاعری ہے۔ اقبال کی شاعری میں مومن اور شاہین دو تصورات کی حیثیت رکھتے ہیں مگر اقبال نے جذبے، احساس اور مخصوص تہذیبی اور تاریخی تناظر کے ذریعے انہیں کروڑوں لوگوں کا تجربہ بنادیا ہے۔ اقبال کی شاعری کے پردے پر مومن اور شاہین ٹھیک اسی طرح طلوع ہوتے ہیں جیسے سینما کے پردے پر ہیروز نمودار ہوتے ہیں۔ اس صورت حال کی ایک اور مثال قرۃ العین کے ناول ہیں۔ تاریخ ایک فلسفہ اور ایک مجرد تصور ہے۔ لیکن قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں وہ انسانی کرداروں ان کی آرزئوں تمنائوں اور عمل کی صورت میں سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جبلت اور جعلی اخلاقیات دو تصورات ہیں لیکن غلام عباس نے اپنے معرکہ آراء افسانے آنندی میں اخلاقیات اور جبلت کی کشمکش اور جبلت کی جعلی اخلاقیات پر فتح کے حوالے سے ایک شہر آباد ہوتا دکھا دیا ہے۔ معلوم کو محسوس، مجرد کو ٹھوس اور غیب کو حضور بنانے کی اس اہلیت کی وجہ سے ادب کو باقی تمام علوم وفنون پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن ادب کی اہمیت کا معاملہ یہیں تک محدود نہیں۔سلیم احمد نے کہا ہے۔
کوئی نہیں جو پتا دے دلوں کی حالت کا
کہ سارے شہر کے اخبار ہیں خبر کے بغیر
یہ اخبار کی رسائی اور نارسائی دونوں کا بیان ہے۔ اخبار اور ادب میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اخبار ظاہر کا ادب اور ادب باطن کا اخبار ہے۔ ظاہر کا ادب صرف یہ بتاسکتا ہے کہ ظاہر میں کیا ہورہا ہے لیکن انسان، معاشرے اور تہذیب کے باطن کی خبردینا صرف ادب کا کام ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ سرسید احمد خان ہمارے معاشرے میں جدیدیت کی پہلی اور سب سے بڑی علامت ہیں لیکن سلیم احمد نے اپنی کتاب غالب کون میں دکھایا ہے کہ وہ زندگی جس کا تجربہ آج ہم کررہے ہیں اس کا شعور غالب کے یہاں بہت پہلے سے موجود تھا۔ اسی طرح اقبال نے عہد غلامی میں اسلام اور مسلمانوں کے عروج کے ترانے گائے ہیں اور جس وقت یہ ترانے تخلیق ہورہے تھے بہت سے لوگ انہیں ’’مجذوب کی بڑ‘‘ سمجھتے تھے لیکن حالات وواقعات نے ثابت کیا کہ اقبال کا تخلیقی تصور اس دنیا کو وضاحت کے ساتھ دیکھ رہا تھا جو ابھی پیدا ہونی تھی۔ دوستو وسکی کا زمانہ روسی انقلاب سے پہلے کا زمانہ ہے لیکن دوستو وسکی کے ناولوں میں انقلاب کی چاپ کو صاف طور پر سنا جاسکتا ہے۔ ادب کے متن یا Text کی کثیر الجہتی یا Multi Dimensionality ادب کا ایک اور بہت بڑا امتیاز ہے۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ تمام علوم اپنی روایت اور اپنے مخصوص تناظر کی پاسداری کرتے ہیں۔ نفسیات، نفسیات کی روایت اور تناظر کو کام میں لاتی ہے۔ عمرانیات اپنی مخصوص روایت اور تناظر کی اسیر ہوتی ہے لیکن ادب تجربے کی تشکیل اور ابلاغ کے سلسلے میں بے انتہاء وسیع المشرب ہوتا ہے چنانچہ ادب میں مذہب، فلسفے، نفسیات، عمرانیات اور طبیعات کے دھارے باہم مدغم ہو کر ایک نئی صورت اختیار کررہے ہوتے ہیں۔ یہ کام شاعری میں بھی ہوتا ہے اور افسانے اور ناول میں بھی۔ یہاں تک کہ ادب کی اعلیٰ تنقید بھی ادب کی وسیع المشربی سے فیض یاب ہوتی ہے۔ اس بات کا اندازہ کرنا ہو تو اردو ادب میں فراق، عسکری اور سلیم احمد اور انگریزی میں ڈی ایچ لارنس اور ٹی ایس ایلیٹ کی تنقید پڑھنی چاہیے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تنقید کو بھی تہذیبی بنا دیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ زبان کی معنویت اور قوت کا اظہار یا تو مذہب میں ہوتا ہے یا ادب میں۔ اعلیٰ مذہبی اور ادبی متن کا فرق یہ ہے کہ مذہبی متن قاری کو لفظ اور معنی کی گہرائی سے آشنا کرتا ہے اور ادبی متن لفظ اور معنی کے تنوع سے۔ چنانچہ یہ ممکن ہی نہیں کہ مذہب اور ادب کے مطالعے کے بغیر کسی کو زبان آجائے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ادب بالخصوص شاعری کا ترجمہ ممکن نہیں مگر لوگ اس مسئلے پر زیادہ غور نہیں کرتے۔ ادب کے دو پہلو ہیں ایک تفہیمی اور دوسرا تاثیری۔ تفہیم کا تعلق خیال سے ہوتا ہے اور خیال کا ترجمہ بڑی حد تک ممکن ہے مگر تاثیر کا تعلق کسی زبان کی پوری تہذیب، تاریخ، اظہار کے سانچوں اور اسالیب سے ہے چنانچہ اس کا ترجمہ ممکن نہیں ہوپاتا۔ اس نکتہ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ادب کسی قوم اور کسی زبان کی پوری تہذیب اور مزاج کا اظہار ہوتا ہے اس لیے ادب کے مطالعے کے ذریعے ہم کسی تہذیب کی روح تک پہنچ سکتے ہیں۔
بشکریہ: روزنامہ "جسارت" (پاکستان)
***
contact[@]shahnawazfarooqi.com
www.shahnawazfarooqi.com
contact[@]shahnawazfarooqi.com
www.shahnawazfarooqi.com
شاہنواز فاروقی |
The importance of literature in current age. Article: Shahnawaz Farooqi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں