کفن چور سے گفتگو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-09-29

کفن چور سے گفتگو

kafan-chor
میری تدفین کو آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرا ہوگا کہ کسی نے میری قبر پر دستک دی۔
میں نے پوچھا : کون؟
آواز آئی : کفن چور۔
تعجب ہوا کہ آجکل چور بھی دستک دے کر آنے لگے ہیں، اور وہ بھی کفن چور۔ میں نے کہا :
دوست، مجھے کفن پہنے ہوئے ابھی کچھ ہی گھنٹے گزرے ہیں۔ کم سے کم ایک دن تو صبر کر لیتے۔ جب تک زندہ تھا، کسی نے میرے پھٹے پرانے کپڑوں پر دھیان نہیں دیا۔ سالوں بعد نیا لباس نصیب ہوا ہے، وہ بھی تم چھین لینا چاہتے ہو؟

جواب ملا : تم غریب ہی ٹھیک تھے۔ جب تک پھٹے پرانے کپڑے پہنے، منہ سے آواز نہیں نکلتی تھی۔ لیکن جیسے ہی نیا کفن پہنا، بولنے لگے ہو، اور وہ بھی اپنی موت کے بعد!

بات تو اس نے درست کہی تھی۔ جب تک زندہ تھے حالات کے ہاتھوں مجبور تھے۔ کبھی قرضدار کے طعنے سنتے تو کبھی مکان مالک گھر سے نکال دینے کی دھمکی دے دیتا۔ کسی کو دوست سمجھ کر مدد مانگتے، تو نظر انداز کر دیئے جاتے۔ زندہ رہنے تک اتنی گالیاں سن چکے تھے کہ کانوں کے ساتھ ساتھ زبان نے بھی کام کرنا بند کر دیا تھا۔ لب جب بھی ہلتے تو صرف عاجزی کرتے یا پھر بنا غلطی کے بھی سب سے معافی مانگتے۔ غربت اور حالات نے جیسے زبان پر تالے ہی ڈال دیئے تھے۔ جہاں دنیا بھر کے آگے شرمندہ ہو گئے تھے، وہیں ضمیر کی ملامت نے دل و دماغ پر ایک مہر سی لگا دی تھی۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ہماری موت کا وقت پہلے سے متعین تھا، ورنہ دنیا میں پتا نہیں اور کیا کیا دیکھنا اور سننا پڑتا۔

بہرحال میں نے کفن چور سے کہا کہ اسے جب چوری کرنی ہی ہے تو پھر دستک دینے کی ضرورت کیا ہے۔ سیدھا قبر کھولے اور کفن چرا لے۔
وہ بولا: "صاحب، میں کفن چور ہوں۔ نیا کفن کچھ قیمت پر بیچ کر اپنے خاندان کا پیٹ پالتا ہوں۔ اور دستک اس لیے دیتا ہوں کہ میرے کام میں صاحب مزار کی بھی رضامندی بھی شامل ہو جائے۔ میں ان جیسا نہیں ہوں جو زندہ لوگوں کے جسم سے لباس اتار کر بیچ دیتے ہیں۔ یا پھر ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ ایک غریب، ایک نئے لباس کے لیے، زندگی بھر ترس جائے۔ میں کفن اس لیے چراتا ہوں کی ایک مردہ انسان اسکا کیا کریگا؟ ویسے بھی کچھ دنوں میں اس کا بےجان جسم مٹی میں فنا ہو ہی جاتا ہے۔"

چور نے یقیناً پتے کی بات کی، چور ہو کر بھی اس میں سچ بولنے کا جذبہ تھا۔ یہ کم از کم ان ہزاروں لوگوں سے تو بہتر تھا جو سفید پوش بن کر لوگوں کے جسم کی کھال اتار لیتے ہیں۔ حالانکہ سب لوگ ایسے نہیں ہیں، لیکن اتفاق کہیں یا قسمت، ہمارا جن لوگوں سے واسطہ پڑا ان میں زیادہ تر مطلب پرست، خود غرض اور بے حس نکلے۔ کچھ تو ایسے تھے جو ہماری تعریف میں قصیدے پڑھا کرتے تھے۔ لیکن حالات نے جیسے ہی ہمارے خلاف کروٹ بدلی، وہ مصروف ہو گئے اور ہمارے لیے انکے پاس وقت نہیں رہا۔ کچھ ہمدرد ایسے بھی تھے، جن کے زبانی جمع خرچ نے ہمدردوں پر سے ہمارا ایقان ہی اٹھا دیا۔
انکی مثال ایسی ہے جیسے ایک کشتی میں سوار کچھ افراد اس شخص کو، جو دریا میں ڈوب رہا ہے، یہ تیقن دے رہے ہیں کی وہ صحیح سلامت ساحل پر پہنچ جائیگا۔ ان ہمدردیوں کے اظہار کے بجائے، اگر وہ اس کی جانب ایک رسی پھینکتے، تو شاید وہ بچ جاتا۔ لیکن وہ ایسا کرنے تیار نہیں تھے، کیونکہ وہ دریا میں اپنی خود کی غلطی سے گرا تھا۔ اسی لیے یا تو اسے خود تیر کر کنارے پہنچنا ہوگا، یا پھر ڈوب مرنا ہوگا۔

کفن چور کی بات سن کر ہمیں اس میں سچائی نظر آئی مگر ہم نے کہا کہ بھائی! ایک مردے کے جسم سے کفن چرانا بہت بڑا گناہ ہے۔
اس نے برجستہ کہا : "صاحب، یہ گناہ تو ہے۔ لیکن آج کے دور میں کون ہے جو ایسے گناہ نہیں کر رہا ہے؟ میں تو صرف دو روٹی کے لیے چوری کر رہا ہوں۔ لیکن کچھ تو مردوں کے ایصال ثواب کے نام پر چندہ جمع کرتے کرتے رئیس ہو گئے ہیں۔ ان کی چوری تو کوئی نہیں پکڑتا۔ لیکن میں اگر کفن چوری کروں تو میں اکیلا ٹھہرا گنہگار؟"

"لیکن بھائی" میں نے اسے سمجھانا چاہا۔
"دو وقت کی روٹی کے لیے چوری کرنا ضروری تھوڑی ہے۔ کئی تنظیمیں ہیں جو آج کل غریبوں کی بےلوث مدد کر رہی ہیں۔ ان سے تعاون کیوں نہیں مانگتے؟

"کیا آپکو کوئی مدد ملی، جو آپ سمجھتے ہیں کہ مجھے ملیگی؟ ان تنظیموں کے پاس غریب کا مطلب ہی کچھ اور ہے۔ انکی نظر میں غریب وہ ہے جو رکشا چلاتا ہو یا پھر کوئی نچلے درجہ کا کام کرتا ہو۔ انکی نظر میں غریب وہ ہے، جو ان پڑھ ہو۔ انکی نظر میں غریب وہ ہے، جو ظاہری طور پر بھی غریب نظر آئے اور انکے سامنے نظریں جھکا کر ہاتھ پھیلائے۔ یعنی ان سے مدد حاصل کرنے کے لیے پیدائشی غریب ہونا ضروری ہے۔ اگر کچھ حالات کی وجہ سے کوئی غربت یا پریشانی کا شکار ہو جائے، تو وہ مدد کا مستحق نہیں ہوتا ہے۔"

"بات تو تم نے صحیح کہی میرے دوست۔ لیکن پھر بھی چوری چوری ہی ہے اور یہ گناہ ہے، حرام ہے۔"

"کیا جھوٹ بولنا گناہ نہیں ہے؟ کیا سود پر پیسہ لینا حرام نہیں ہے؟ جب غریب مجبوری کی حالت میں جھوٹ اور سود کو جائز مان لیتے ہے، تو پھر کھلے عام چوری ہی کیوں گناہ ہے؟"
"اوہ ہو دوست! یہ تو تم نے پڑے پتے کی بات کی۔ اگر میں زندہ ہوتا اور دل دھڑک رہا ہوتا، تو یہ بات میرے دل میں ضرور اتر جاتی۔"

"حالانکہ آپ مردہ ہیں، لیکن آپکے منہ سے دوست سن کر اچھا لگا۔ کیونکہ زندہ لوگ تو مجھ جیسے غریب کو اپنا دوست نہیں بنائینگے۔ لیکن دوستی اپنی جگہ، اور میرا کام اپنی جگہ۔ میں ہر حالت میں آپکا کفن چراؤنگا۔"

"ٹھیک ہے بھائی، چرا لینا کفن۔ ویسے بھی میں بے جان لاش ہوں۔ میں کونسا تمہیں روک پاؤنگا۔ جب تک زندہ تھا اور جسم میں جان تھی، تب میں لوگوں سے خود کو نہیں بچا پایا۔ بڑے شوق سے میرا کفن چرا لو۔"

شاید چور کو میری بات پسند آئی۔ زندہ آدمی تھا۔ اور شاید اسکا دل اور ضمیر بھی زندہ تھا، کیونکہ وہ غریب بھی تھا۔ اس نے فوری قبر کھولکر کفن چرانے کے بجائے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا۔ لگتا تھا کہ وہ موت سے پہلے کے میرے حالات سے واقف تھا، اس نے پوچھا کہ مرنے کے بعد اپنے اہل و عیال کے متعلق میں کتنا فکر مند ہوں؟ سوال مضحکہ خیز تھا کیونکہ موت کے ساتھ فکر بھی مر جاتی ہے، لیکن بہرحال جواب طلب سوال تھا۔

میں نے کہا:
"موت کے بعد مجھے ان کی زیادہ فکر نہیں ہے۔ کیونکہ کئی فلاحی تنظیمیں بیواؤں کو وظیفے دیتی ہیں اور میری بیوہ بھی اب اس فہرست میں شامل ہو جائیگی۔ بچے چونکہ اب یتیم ہو چکے ہیں، اسی لیے سبھی فلاحی تنظیموں کی مدد کے وہ مستحق ہو چکے ہیں۔ کسی مدرسے میں شریک ہو جایئنگے۔ اب ہر عید پر انکے لیے نئے کپڑوں کی بھی فکر نہیں ہے۔ ہر رمضان میں کچھ رئیس لوگ لمبی-لمبی قطاریں لگا کر کپڑوں کا ایک جوڑا یتیموں اور بیواؤں میں بانٹتے ہیں۔ تو اس قطار میں یہ بھی کھڑے ہو جائینگے۔ ہاں! ایک بات البتہ ضرور تشویشناک ہے۔ مدد دیتے وقت فلاحی تنظیمیں انکی تصویریں لیں گی، جسکے لیے انہیں ذہنی طور پر تیار ہونا پڑے گا۔"

چور نے یہ سب سن کر کہا :
"بھائی صاحب، یہ باتیں تو میرے دماغ میں آئی ہی نہیں۔ جن بیوی بچوں کو پالنے کے لیے ایک شخص دن رات محنت کرتا ہے، یہاں تک کہ چوری-چکاری تک کر رہا ہے، اسے کوئی نہیں پوچھتا۔ لیکن جب وہ مر جائے تو اسکے نام پر لاکھوں روپے بانٹے جا تے ہیں؟ یہ بھلا کیسا انصاف ہوا؟"

"ہاں میرے دوست، تمہیں یہ جان کر تعجب ہوگا کہ جس کفن کو تم چرانے آئے ہو، وہ کفن بھی ایک فلاحی تنظیم نے عطیہ میں دیا ہے۔ میرے زندہ رہنے تک کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ میری جیب میں ایک پھوٹی کوڑی ہے بھی یا نہیں۔ لیکن میرے مرتے ہی، میری تدفین کے لیے کئی ہزار روپے منٹوں میں جمع ہو گئے۔"

"لیکن ایسا کیوں؟"
"ثواب کے لیے! آج کل ہر کسی کو ثواب حاصل کرنا ہے۔ جب زندہ تھا تو میں لوگوں کی نظروں میں جھوٹا اور ناقابل بھروسہ آدمی تھا، کیونکی مرے حالات خراب تھے۔ لیکن جیسے ہی میرا دم نکلا، میں اور میرے افراد خاندان مجبوروں اور بے کسوں کی فہرست میں گویا خودکار طور پر شامل کر لیے گئے۔"

اوہ! مگر ان فلاحی تنظیموں کو کوئی کیوں نہیں سمجھاتا کہ زندہ لوگوں کے لیے بھی کچھ کریں۔ ہم حالات کا شکار ضرور ہیں، غریب ضرور ہیں، لیکن ہم بھی ایک اچھی زندگی جینا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی جھوٹ سے نفرت ہے۔ ہم بھی سود کو حرام مانتے ہے۔ ہم بھی قابل بھروسہ ہیں۔ لیکن کوئی ہم پر پہلے بھروسا تو کر کے دیکھے"

"مشکل ہے میرے دوست۔ ہماری تنظیموں کو مُردوں پر زیادہ بھروسہ ہے۔ زندوں کے متعلق انکا نظریہ کچھ اور ہی ہے۔ زندہ شخص اگر امیر ہے، تو وہ ان کے جلسوں کے لیے چندہ دے، اور اگر غریب ہے تو جلسہ سننے آئے اور مجمع کا حصہ بنے۔ ان کی واہ واہی کرے، دوسرے دن اخبار میں تصویر چھپوائے اور کچھ مہینوں تک اس محفل کے تذکرے ہوں۔ کوئی ان کی تعریف کرے یا نہ کرے، یہ بعد میں خود محفلیں منعقد کر کے اپنی تعریف میں قصیدے پڑھوا لیتے ہیں۔ ان کو قوم کے زندہ افراد کی تکلیف سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ اب تمہاری ہی بات لے لو۔ اگر کسی دن چوری کرتے ہوئے پکڑے جاؤ، تو یہ لوگ تمہاری ضمانت کے لیے پیسے نہیں دیں گے۔ ہاں! اگلے رمضان میں جیل میں تمہاری افطاری کا انتظام ضرور کر دیں گے۔"

"میرے فاضل دوست آپکی بات تو اپنی جگہ بالکل صحیح ہے۔ لیکن میں کفن تو ہر حال میں چوری کرونگا، کیونکہ میرے بچے بھوکے ہیں اور میرے پاس کوئی اور کام نہیں ہے۔ میں اس وقت تک چوری کرتا رہونگا، جب تک قوم کے ٹھیکیدار مجھ جیسے زندہ افراد کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ مجبوری کی حالت میں آج جو بھی گناہ مجھ سے سرزد ہو رہے ہیں، ان کے لیے میں حشر کے میدان میں ہر اس شخص کا دامن پکڑنگا جو میری مدد کر سکتا تھا، لیکن مجھے گناہ کے دلدل میں پھنستا دیکھ کر بھی اس میری کوئی مدد نہیں کی۔ اگر وہ آج میری وقت پر مدد کر دے دیتے، تو شاید کل میں کسی اور مجبور کی مدد کرنے کے قابل بن جاتا۔ مجھے معاف کرنا میرے دوست"

ان الفاظ کے ساتھ ہی اس چور نے میری قبر کھولی، ہاتھ بڑھایا اور زور سے میرا کفن کھینچا ۔۔۔۔
میں زور سے چلایا اور چیخ پڑا۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی۔
میں زندہ تھا اور خواب دیکھ رہا تھا۔
لیکن اس خواب نے تو حقیقت سے جڑی اتنی باتوں کو عیاں کر دیا کہ موت زندگی سے بہتر لگنے لگی۔ چور تو صرف کفن لے جاتا، لیکن زندہ رہنے پر بھی کچھ لوگ آپ کی عزت، راحت، نیند، چین، سکون سب کچھ یوں آرام سے چھین لیتے ہیں کہ انہیں اپنے اس ظلم کا احساس بھی نہیں ہوتا اور باقی لوگ دور کھڑے صرف تماشا دیکھتے رہتے ہیں اور پھر بعد میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔

شیخ احمد علی حیدرآباد کے سینئر صحافی ہیں، تقریباً 17 سال سے صحافتی میدان میں اپنی بےلوث خدمات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا ، دکن کرانیکل ، اسٹار نیوز ، سی۔این۔این آئی۔بی۔این اور سی۔این۔بی۔سی آواز ۔۔ جیسے معروف میڈیا اداروں سے ان کی وابستگی رہی ہے۔ ایک مقامی کیبل نیوز چینل "اردو ٹی۔وی" کے بانی مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے اولین آن لائن اردو نیوز چینل آئی۔این۔این لائیو (INN Live) کے بھی بانی ہیں۔
شیخ احمد علی کے شکریے کے ساتھ، "تعمیر نیوز" ان کا تخلیق کردہ اولین انشائیہ اردو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔

***
sahmedali13[@]gmail.com
Indian News Network, 202, Silver Oak, Beside Balaji Grand Bazar, Masab Tank, Hyderabad-500028 A.P.
شیخ احمد علی

Kafan Chor se guftagu - Humorous Essay: Shaik Ahmed Ali

1 تبصرہ:

  1. بریڈفورڈ لندن میں مقیم معروف افسانہ نگار مقصود الٰہی شیخ کا تبصرہ بزم قلم گوگل گروپ پر ۔۔۔۔۔

    ایک کہانی میں سارا / معاشرہ کھنگال کر رکھ دیا ۔ محترم شیخ احمد علی دیگر خدمات کے ساتھ ان کی یہ اصلاحی کہانی بھی قابل تکریم ہے ۔ خدمت اور اصلاح کے تحت مہارت سے لکھی ہے ۔ بھایئی مکرم! ٓاغاز تو ایسا تھا کہ میں پڑھتا گیا مرتا گیا ۔ پڑھنے والے کے ذہن کو بہت خوبی اور کمال سے لکھنے والے نے گرفت میں لیا ۔ تفصیلا ت اپنی جگہ جس وجہ سے معمولی ڈھیل محسوس ہوئی یا شدت کے تاثر کے بعد کا رد عمل ہو ، میں غلط بھی ہو سکتا ہوں ۔ اس وقت نیت اسے جانچنے کی ہرگز نہیں ہے ۔ داد دینی چاہتا ہوں ۔ بہرحال میری طرف سے شیخ احمد علی صاحب کو مبارکباد اور اپ کی پیش کش اپنئ جگہ بطور انتخاب قابل تعریف ٹھہرتی ہے ۔۔

    جواب دیںحذف کریں