تلاوت قرآن کا مقصد زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنا ہے - پٹیل محمد یوسف کا خطاب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-08-03

تلاوت قرآن کا مقصد زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنا ہے - پٹیل محمد یوسف کا خطاب

تلاوت قرآن کا مقصد زندگیوں میں انقلاب پیدا کر نا ہے - پہلی طاق رات کے موقع پر مسجد شاہی کرشنگری میں پٹیل محمد یوسف کا خطاب

جماعت اسلا می کی جانب سے کرشنگری مسجد شاہی میں پہلی طاق رات یعنی رمضان کی اکیسویں رات کا اہتمام کیا گیا ۔ اس موقع پر رات گیارہ بجے تا بارہ پہلی نششت میں مو لا نا محمود عمری تو بہ و استغفار کے متعلق احادیث و حکایات کی روشنی میں اپنے منفرد انداز میں سامعین سے خطاب کیا ۔ چائے کے مختصر وقفہ کے بعد وانمباڑی کی مشہور و معروف شخصیت، رکن جماعت اسلامی وکا میاب تا جر پٹیل محمد یو سف صاحب نے قرآن ایک انقلا بی کتاب کے مو ضوع پراپنے مخصوص انداز میں سامعین کو محظوظ کیا ۔ انہوں نے اپنے خطاب کا آغازخیرکم من تعلم القرآن وعلمہ کی مشہور حدیث سے کیا ۔ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے انہوں نے کہا کہ اسکا مطلب یہ نہیں کہ جیسے ہم اور آ پ پڑھتے ہیں ۔ بلکہ اس کا مطلب وہ تلاوت ہے ، جیسا آ پ ﷺ نے پڑھا اور اپنے صحا بہ کرام کو پڑھایا، اس پر خود بھی عمل کیا اور اپنے صحابہ کرام کو بھی عمل کرا یا ۔ ہم بھی پا رہ پا رہ، جزء جز ء پڑھتے ہیں ، جیسا کہ رمضان شریف میں ہمارا اور آپکامعمول ہے۔ مگر ہمیں جان لینا چاہیے کہ قرآن شریف کا نزول صرف تلاوت کے لئے نہیں، بلکہ زندگیوں میں تبدیلی پیدا کر نا قرآن پاک کے نزول کا اہم مقصد ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جیسے ہی قرآن کا نزول شروع ہوا، تبدیلیاں اور انقلاب شروع ہو گیا ۔ گھرگھر ، کاروبار ، خاندان ، قبیلہ ، قریش، سماج ، سیاست غرض کہ سارا عرب اس تبدیلی کی لپیٹ میں آ گیا ۔ قرآن ہم بھی پڑھتے ہیں ، مگر ہماری زندگیوں میں کو ئی تبدیلی نہیں۔ ہماری حالت یہ ہے کہ مسجد جا تے ہیں تو کوّے کی ٹھونک کی طرح دو چار رکعت پڑھ لیتے ہیں ، پھر با ہر نکلنے کے بعد دوبار ہ اسی حال میں لوٹ آ تے ہیں ، جیسے پہلے تھے ۔ قرآ ن کا اعجاز صرف یہی نہیں کہ تلاوت کی جائے، تاکہ تلاوت میں ثواب در ثواب ہے۔ بلکہ تلاوت کا مقصد زندگیوں میں انقلاب پیدا کر نا ہے ۔ جیسا کہ کفار مکہ جب قرآن پڑھتے یا صرف سنتے تو انقلاب بپا ہو جا تا تھا ، انکی زندگیوں کی کا یا پلٹ جا تی تھی ۔ قرآن کے اسی اعجاز کو بتلا نے کے لئے اللہ تبارک و تعالی نے ملک عرب کو منتخب کیا۔ عرب کی حالت کیا تھی ، جا ہل بالکل گنوار تھے ، اللہ تبارک و تعالی کو یہ بتلا نا مقصود تھا کہ میری کتاب کے اندر وہ تا ثیر ہے کہ ا گر جا ہل سے جا ہل گنوار سے گنوار قوم پر بھی نا زل کردوں تو انکی کا یا پلٹ یقینی ہے ۔ معمولی پا نی کے لئے لڑتے تھے، انسانوں کے پینے کے لئے نہیں ، جیسا کہ آ ج کل حکومتیں لڑ رہی ہیں ، بلکہ ایک قبیلہ کا جانور دوسرے قبیلہ کے کھیت میں چر لے یا کنویں سے پا نی پی لے تو ، لڑائی نہیں بلکہ جنگیں لڑی جا تی تھیں ۔ اس طور پر اگر باپ انتقال کر جا ئے تو وہ اپنے بیٹے کو وصیت کر جا تا تھا کہ وہ بھی اس لڑائی کو باقی رکھے اور اس جانور کے پا نی پینے کا بدلہ لے ۔ نزول قرآن کے وقت بڑی بڑی حکو متیں ، بڑی بڑی تہذیبیں یو نان ، روم ، فارس مو جود تھیں ۔ مگر اللہ نے وہاں پر قرآن نا زل نہیں کیا ، اللہ تبارک و تعالی کو یہ بتلا نا مقصود تھا کہ قرآ ن کی تاثیر کیا ہو تی ہے ۔ نزول قرآن کے بعد یہ تبدیلی پیدا ہو ئی کہ وہ قوم جو جانور کے پا نی پی لینے سے نسل در نسل صدیوں تک جنگ لڑ نے کو افتخار تصور کر تی تھی، تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا کہ ایک جنگ کے موقع پر ایک مجاہد حالت مرگ میں پیاس کی شدت کی وجہ سے العطش العطش کہہ کر کر ارہا ہے ، ایسی حالت میں جب ساقی پا نی کا پیا لہ لے کر آ تا ہے ، توقریب میں مو جود کسی دوسرے مجا ہد کی کراہنے کی آواز سن کر ساقی کو اس طرف جا نے کا اشارہ کر تا ہے ، اسی طرح جب ساقی دوسرے مجا ہد کے پاس پہونچتا ہے تو تیسرے مجا ہد کے کراہنے کی آواز سن کر اس کے پا س جا نے کا اشارہ کر تا ہے ، ساقی تیسرے مجا ہد کے پاس پہونچتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی روح پرواز کر چکی ہے ، دوسرے مجا ہد کے پا س لوٹتا ہے تو اسکی بھی روح پرواز کر چکی ہے ، لوٹ کر پہلے مجاہد کے پاس آ گیا مگر اب وہ بھی نہ رہا ۔ گو یا صحابہ نے اپنی جان دینا تک گوارا کیا ،مگر ا پنے بھا ئی سے پہلے پا نی پینا پسند نہ کیا ۔ دوسری تبدیلی یہ دیکھی گئی کہ قر آ ن کے بدو لت وہ قوم جو ما لو دولت کے لئے لڑ نے وا لی تھی، اللہ کے راستہ میں مال لٹا نے والی بن گئی ۔ حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ نے مال کو اس امت کا فتنہ قرار دیا ۔ جب ان سے کہا گیا کہ سود حرام ہے تو نہ صرف سود بلکہ اصل سر ما یہ کو بھی سود کے ملے ہو نے کہ گمان پر اللہ کے لئے ترک کر دیا ۔ حالانکہ اسلام سے قبل کو ڑی کو ڑی کے لئے لڑ نا جھگڑ نا انکا شیوہ تھا۔ آج انسان اللہ کے راستہ میں مال خرچ کر نے کے بجا ئے معیار زندگی بڑ ھا نے کی فکر میں لگا رہتا ہے ۔ زکوۃ کے فلسفہ سے ہم واقف نہیں۔ زکوۃ تو ہم بالکل دیتے نہیں، اگر دیتے بھی ہیں توصرف پا نچ دس رو پئے دے دیتے ہیں ، اس سے زکوۃ کا مقصد پورا نہیں ہو تا۔ زکوہ اگر فرض بھی نہیں تو اللہ کے راستہ میں خرچ کر نے کی نیت سے آگے بڑھ کر مال لٹا نا چا ہئے۔ زکوۃ صرف بڑے بڑے مالداروں پر فرض نہیں ، بلکہ تمام صا حب نصاب افراد پر فرض ہے ۔ آ پ اگر عشرہ مبشرہ کو دیکھیں گے تو پتہ چلے گا کہ دس میں سے چھ صحا بہ بڑے ما لدار تھے، صرف چار غریب تھے۔ جب بھی کو ئی دینی ضرورت یا غریبوں محتاجوں کی مدد کی ضرورت پیش آ جا تی تو فوراً صحا بہ کرام اپنے مال کو اللہ کے رسول ﷺ کے در بار میں پیش فرما تے تھے ۔ تیسری تبدیلی تجارت کا اصول، اسلامی تجارت میں جھوٹ نہیں ، سود نہیں ، گاہکوں کا تعین نہیں ، مارکٹ پر قبضہ نہیں ، جب ایسی تجارت کا اصول اسلام نے پیش کیا تو ایک دنیا گواہ ہے کہ اسلامی شہریں تجارت کے عالمی مراکز کے طور پر ابھر کر اپنا مقام بنایا ۔ چو تھی تبدیلی علم کا فروغ، سترہ رمضان غزوہ بدر دنیا میں اسلام کے تعارف کا اہم واقعہ ہزار کے مقابلہ میں تین سو تیرہ صحابہ، بڑے بڑے کفار مارے گئے ، جو قیدی تھے ، انہی کمانوں سے باندھا گیا ، مالداروں نے فدیہ دے کر خلاصی حا صل کی ، جو پڑھے لکھے تھے دس دس صحا بہ کرام ان کے ذمہ کر دئے گئے ، بڑے بڑے صحا بہ کرام نے ان سے علم حا صل کیا ، مکہ کے کفار تو دینی علوم سے نا آ شنا ، بظا ہر صحا بہ کرام نے ان سے دنیا وی علوم حا صل کئے ۔ آ ج سے ڈھا ئی سو برس قبل سا رے ما ہر فلکیات، سائنس دان مسلمان تھے ،گھڑی کی ایجاد مسلمانوں نے کیا ، کیونکہ انہیں اس کی ضرورت تھی ، صرف دنیاوی مقاصد کے لئے نہیں، بلکہ دین پر عمل پیرا ہو نے کے لئے اس کی ضرورت تھی ، نماز، رو زہ ، سحر ، طلوع ، غروب ، بعدہ جب غیروں نے مسلمانوں سے جو علم سکھایا تو صرف دنیاوی علوم نہیں، بلکہ دین بھی سیکھ کر گئے ۔ رمضان کا یہ مہینہ اور عشرہ آ خرہ اور لیلتہ القدر کی تلاش ہمیں یہ بات یاد دلا تی ہے کہ ہمارا تعلق قر آن سے ہے ،مگر آ ج ہم اسی قر آن کو بھو لے بیٹھے ہیں۔ آ سما نی کتا بوں میں صرف قر آ ن کی وہ حیثیت ہے کہ جس کے ذریعہ سے دنیا میں تبدیلی لا سکتے ہیں ، دوسری کتا بوں کی طرح یہ صرف قصہ کہا نیوں یا پو جا پاٹ کے اصول و ضوابط بیان کر نے کی کتاب نہیں ، زندگیوں میں تبدیلی لا نے وا لی کتاب ہے۔ ایک زما نہ تھا کہ بچے پا نچوین کلاس تک قاعدہ ختم کر کے نا ظرہ قر آن پڑھنے کے قا بل ہو جا تے تھے۔ مگر ا یک سروے کے مطا بق آ ج کل پلس ٹو طلباء میں سے 25% بھی نا ظرہ قرآن پڑ ھنا نہیں جانتے ۔ فاضل مقر ر نے کہا کہ ہما را یہ کا م نہیں کہ ہم مسئلہ مسائل نکالتے پھریں، بلکہ وہ تو علماء کا کام ہے الحمد اللہ ہمارے سامنے ترجمہ ، تفسیر ا ور تشریح مو جود ہے ، ہمیں تو بس اس پر عمل کر نا ہے ۔ اخوان المسلمین کا تذ کرہ کر تے ہو ئے کہا کہ محض اسلام پسندی اور اسلا می قوانین لاگو کر نے کی سعی کی وجہ سے انکی حکو مت کا تختہ الٹ دیا گیا ، یہ مسلمانوں کی اسلام بیزاری کا زندہ ثبوت ہے ۔ اگر ہمارا تعلق قرآن پا ک سے استوار ہو جا ئے تو وہ زما نہ بھی لو ٹ آ ئیگا جو قصہ پا رینہ بن چکا ہے ۔ نیزآج دنیا میں دین کو پھیلا نے کے لئے جنگ کی یا جہاد کی ضرورت نہیں،عمل کے نمونہ کی ضرورت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺکی سب سے بڑی سنت پو رے دین پر عمل کر نا اور عمل کرا نا ہے ، صرف نماز، رو زہ یا چند رسوم کا نام دین نہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ آ ج کے اس گئے گذ رے دور میں پو رے دین کو زندہ کر نے کے لئے جو جد وجہد کریگا، اللہ کے رسول ﷺ کے فر مان کے مطا بق، جو ایک سنت کو زندہ کریگا، اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملیگا۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں