بھوک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-08-18

بھوک

hunger
بھوک سے عموماً مُراد کھانےکی خواہش لی جاتی ہے۔ لیکن جس طرح جنیٹک انجینیرنگ میں فروغ کے نتیجے میں سبزیوں، پھلوں اور دیگر فصلوں کی کئی نئی اقسام کی پیدائش ہوئی ہے، ہماری معاشی اور معاشرتی ترقی نےبھی بھوک کی کئی قسموں کو جنم دیا ہے جنہیں ہم اپنے تجزیاتی مطالعے میں آسانی کی غرض سے دو بڑی جماعتوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ایک قدرتی دوسری کدورتی، یا پھر باالفاظ دیگر ایک فطری دوسری فتوری، کیوں کہ قسم ثانی دلوں میں کدورت اور ذہنوں میں فتور بھرنے کا موجب ہوتی ہے۔ ہم انہیں God-made اور Man-made بھی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اوّل الذکر خدا کی عنایت کردہ ہے جسے جبلّت کہا جاتا ہے جب کہ موخّر الذکرہماری خود ساختہ ہے ۔جبلّت کے زُمرے میں کھانے کی خواہش اور جنسی خواہش آتی ہیں جب کہ ہماری خود ساختہ بھوک کے تحت دولت و ثروت کا لالچ، اقتدار و حکومت کی ہوس اور شہرت و نام و نمود کی تمنّا آتے ہیں۔جبلّت کی خاصیت یہ ہے کہ یہ پیدائشی اور موروثی ہوتی ہے یعنی اس کے لئے کسی تربیت کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی،جب کہ ہماری خود ساختہ بھوک وبائی ہوتی ہے لہٰذا کم و بیش سبھی اس میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔قدرتی بھوک سے جسم متاثر ہوتا ہے جب کہ ہماری خود ساختہ بھوک دل و دماغ پر حملہ آور ہوتی ہے۔
قدرتی بھوک کئی اعتبار سے نسبتاً کمزور ہوتی ہے۔ مثلاً اس کی ایک کمزوری یہ ہے کہ خواہش پوری ہونے کے بعد یہ بھوک وقتی طور پر مٹ جاتی ہے جب کہ ہماری خود ساختہ بھوک لافانی ہوتی ہے اور ہر خواہش کی تکمیل کے بعد مٹنے کی بجائے اس کی شدّت میں مزید اضافہ ہوتا ہے جو متعدد جرائم کا سبب بھی بنتا ہے۔قدرتی بھوک چوری چکاری اور زنا جیسے انفرادی جرائم کو جنم دیتی ہے جب کہ ہماری خود ساختہ بھوک کے نتیجے میں عوامی اور بین الاقوامی سطح کے اجتماعی جرائم جیسے قتل و غارت گری،لوٹ مار، خونریزی،نسل کشی وغیرہ پنپتے ہیں۔
جہاں تک کھانے کی بھوک کا تعلق ہے، اس کی شدت کا انحصارکھانے والے کی مشقّت سے زیادہ پکانے والے کی مشقّت پر ہوتا ہے۔ساتھ ہی وقفے سے زیادہ ڈائننگ ٹیبل پر پھیلے "نقشے" پر بھی ہوتا ہے۔ بریانی، مرغ مسلّم، کباب اور پراٹھوں کا منظر، اور اُن سے اُٹھتی خوشبو بغیر کسی ٹانک کے بھوک کئی گنا بڑھا دیتے ہیں جب کہ کریلے کا نام سُنتے ہی اس کا تیکھا پن زبان تک پہنچنے سے پہلے چہرے پر ظاہر ہو جاتا ہے۔
"ماں، آج کھانے میں کیا بنا ہے؟" اسکول بیگ پلنگ پر اُچھالتے ہوئے بچّہ پوچھتا ہے۔
"بینگن کا بھُرتا…" اس سے پہلے کہ ماں کا جواب سُن کر وہ ‘بھوک نہیں ہے’ کہتا ہواباہر کھیلنے نکل جائے، ماں فوراً جملہ مکمل کر دیتی ہے:"…لیکن ساتھ میں کل والی چکن کی دو بوٹیاں بھی ہیں جنہیں میں نے گرم کر دیا ہے۔" اور اس طرح باسی گوشت کی تازہ سبزیوں پر بالا دستی ہنوز قائم رہتی ہے۔
مشہور مقولہ ہے ‘کم کھانا آپ کھاتے ہیں ، زیادہ کھانا آپ کو کھاتا ہے’۔لیکن اس پر عمل ہم میزبان کی حیثیت سے تو کرنے کے قائل ہوتے ہیں، مہمان کی حیثیت سے گوارا نہیں ہوتا۔ حفظانِ صحت کا بنیادی اصول ہے کہ کھانا کھاتے وقت پیٹ کے چار میں سے ایک حصّہ خالی چھوڑ دینا چاہئے۔ لیکن پسندیدہ ڈشیں ہوں تو ہم کلکتہ کے آٹو رکشا ؤں کی طرح اپنے معدے کے چارحصّوں میں چھ حصّوں کی گنجائش نکالتے ہوئےاتنادباؤ ڈالتے ہیں جتنا دارجلنگ یا شملہ کے ٹرپ پر جاتے وقت ہمارے سفری بیگوں میں ہوتا ہے۔ نتیجتاً جس طرح مکعب نما سفری بیگ تن کر سلنڈر نما ہو جاتا ہے، ہمارا شکم بھی "سلمان نما" سے "عدنان نما" ہوجا تاہے۔ یہ حالت ان تمام لوگوں کی ہوتی ہے جو جینے کے لئےنہیں کھاتے بلکہ کھانے کے لئے جیتے ہیں۔ ان کی بے بسی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ بسوں میں نہ صرف چڑھتے وقت انہیں پیچھے کھڑے مسافر وں کی زور دار لات کھانی پڑتی ہے بلکہ اُترتے وقت بھی اُن کا احسان لینا پڑتاہے۔
رمضان کے روزوں کی نہ صرف روحانی اہمیت ہوتی ہے بلکہ ان کی جسمانی افادیت بھی مسلم ہے۔
ایک مہینے کے روزوں کی مشق اس لئے بھی کی جاتی ہے کہ باقی کے گیارہ مہینے ڈائٹنگ یا بھوک برادشت کرنے کی عادت پڑ جائے جو صحت اور درازیٔ عمر کے لئے ضروری ہے۔لیکن بعض لوگ عید کے دن سے ہی کھانے پر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں گویا روزے میں چھوڑے گئے کھانوں کی قضا پوری کر رہے ہوں!
کچھ "اونٹ زادے" سحری کے وقت یہ سوچ کر اپنی ٹنکی فُل کر لیتے ہیں کہ شام تک "چل جائے گا" لیکن انجام کار دوپہر سے پہلے "ٹھنسے" پیٹ کی وجہ سے ،اور دوپہر کے بعد "دھنسے" پیٹ کی وجہ سے خود چلنے کے قابل نہیں رہتے۔ معدے میں حفظِ ماتقدم کے طور پر بھرا اسٹاک سارا دن دھیرے دھیرے مختلف شکلوں میں خرچ ہوتا رہتا ہےجس کے نتیجے میں دوپہر تک حلق سے بکثرت گرج اور دہاڑیں نشر ہوتی ہیں جو زوال کے بعد نیچے منتقل ہو جاتی ہیں، لیکن پولیوشن کنٹرول بورڈ کی گرفت سے یکسر آزاد ہوتی ہیں!
جہاں تک جنسی بھوک کا تعلق ہے، فلم ساز اور اشتہار ایجنسیوں کے مالکان، نوجوانوں میں یہ بھوک اتنی شدت سے بڑھا دیتے ہیں کہ جوان ہونے پر بھوک نہ لگنے کی شکایت عام ہو جاتی ہے اور ان کی نگاہیں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے پوسٹروں سے زیادہ حکیموں اور کوی راجوں کے اشتہاروں پر دوڑتی نظر آتی ہیں۔انٹرنیٹ کے فروغ کے بعد اس بھوک نے وبائی شکل اختیار کر لی ہے۔ انجام کار ایک غریب باپ کی بیٹی بھی اتنی تیزی سے جوان ہوتی نظر نہیں آتی جتنی سُرعت سے ایک امیر باپ کا بیٹا جوان ہوجاتا ہے، اور وقت سے پہلے "بوڑھا" بھی ہو جاتاہے۔یہی وجہ ہےکہ اب ناجائز اولادیں کوکھ سے، اور جائز اولادیں ٹسٹ ٹیوب سے ،زیادہ پیدا ہو رہی ہیں!
ہماری خود ساختہ بھوک مثلاًدولت کا لالچ اور اقتدار کی ہوس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔اگر آپ کے پاس دولت ہے تو اقتدار کی باگ ڈور بغیر بھاگ دوڑ کے آپ کے ہاتھوں میں چلی آتی ہے، اور اگر آپ اقتدار میں ہیں تو دونوں ہاتھوں سے دولت بٹورنے کے بعد بھی ہاتھوں کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ظاہر ہے جب "راجا" ہی لوٹ کھسوٹ پر اُتر آئے تو پرجا کی "بینڈ"(ٹوجی والی) بجے گی ہی۔ کل مانڈیوں کی وجہ سے منڈیوں میں کال پڑنا بھی طے ہے۔لیکن اقتدار تک رسائی سب کے لئے ممکن نہیں۔ لہٰذا دولت کی بھوک مٹانے کا ایک اور آسان طریقہ یہ ہے کہ کسی کا لڑکا اُٹھوالیجئے اور دوچار لاکھ روپے کی ادائیگی پر رہا کرنےکی شرط رکھ دیجئے۔ اگر اس میں خطرہ زیادہ ہو تو پھر لڑکی اُٹھا لیجئے۔ لڑکی کو رہا بھی نہیں کرنا پڑے گا، اور وقفے وقفے سے"مغوی" کا باپ "کیش اُور کائنڈ" کی شکل میں کبھی رقم، کبھی سامان بطور تاوان دینے پر مجبور ہوگا۔فون ٹیپنگ کا خطرہ بھی نہیں کہ مطالبہ "مغوی" کے توسط سے ہوگا!دولت کی بھوک مٹانے کا ، معاف کیجئے گا، قابو میں رکھنے کا (کیوں کہ یہ بھوک کسی طور مٹنے والی نہیں)یہ طریقہ نہایت آسان،آزمودہ، مؤثر اور صدیوں پرانا ہے ۔زمانے کے ساتھ اس بھوک کی شدت میں جہاں اضافہ ہوا ہے وہیں اس کی نوعیت میں بھی بےپناہ تبدیلی آئی ہے۔ اپنی ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں اس کی تسکین ریڈیو اور ٹی وی کے مدہوش کن گیتوں سے ہو جایا کرتی تھی۔ پھر تشنگی اتنی بڑھی کہ فریج کا پانی واحد حل پایا گیا۔اس کےبعد یہ بھوک موٹر سائیکل اور کار پر سفر کرتی ہوئی شہرکے پوش علاقوں میں واقع فلیٹوں میں قیام پذیر ہوگئی ہے۔سماج میں عزت اور اعلیٰ مقام رکھنے والے، ان سامانوں پر زیورات کو ترجیح دیتے ہیں جو پبلک کی نگاہ سے اوجھل رہ کر پبلک کی نگاہ میں ان کا مقام اوربلند کر دیتے ہیں۔ زیادہ دوراندیش حضرات ان حرکتوں کو "چھچھورا پن" تصور کرتے ہوئےکسی بڑے عہدے کے لئے تشکیل شدہ انٹرویو بورڈ کے ایک اہم ممبر یا بعض اوقات چیئر مین سے ہی رجوع کر بیٹھتے ہیں۔نتیجتاً "دوہری تقرری" سے سرفراز ہوتے ہیں۔ میرے ایک شناسا کو بھی اس اعزاز سے نوازا گیا تھا جس نے کالج کے کلاسز سے کہیں زیادہ پابندی سےبرسرِاقتدار پارٹی کی میٹنگیں اٹنڈ کی تھیں، اور دیر رات تک جاگ کر اہم نوٹس سے زیادہ ووٹر لسٹ کی نظر ثانی کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی دوہری تقرری میں دوہری سفارشات یعنی پی ایس سی (پارٹی سروس کمیشن) اور ایس ایس سی (سسر سروس کمیشن) کا مشترکہ ہاتھ تھا۔ شاید ایسے ہی "دور اندیش" لوگوں کے لئے ظفؔر گورکھپوری نے کہا ہے ؂
اب بھیک مانگنے کے طریقے بدل گئے
لازم نہیں کہ ہاتھ میں کاسہ دکھائی دے
نئی نسل بےحد پریکٹیکل ہو گئی ہے۔اسے روایتوں کی قبروں پر تعمیرآسائشوں کی عمارات زیادہ عزیز ہیں۔ والدین بیٹی کے گھر کا پانی بھی پینا گناہ سمجھتے تھے۔ بیٹوں کو بیویوں کے گھر میں کھانے اور رہنے پر بھی اعتراض نہیں۔ان "ریزیڈنٹ " دامادوں کو سماج چاہے جتنی بھی بُری نظر سے دیکھے، یہ سماج کی ایک بہت بڑی برائی اور ازدواجی رشتے کی سب سے بڑی اڑچن کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے میں سب سے بڑا ہتھیار ثابت ہوسکتے ہیں!
دولت اور اقتدار کی بھوک کے باہمی تعلقات کا مظاہرہ اسکول کی منیجنگ کمیٹیوں سے لے کر محلّے کے کلبوں اور علمی و ادبی اداروں تک میں ہوتا ہے جہاں صدر اور سکریٹری کے عہدے "ایسے ویسے" نہیں بلکہ "پیسے ویسے"والے لوگوں کے لئے مخصوص ہوتے ہیں جو سیاست کے بنیادی اصول پر عمل کرتے ہوئے اقتدار سے پہلے پیسے "بہاتے" ہیں اور اقتدار کے بعد پیسے "بناتے" ہیں۔
ہماری تیسری خود ساختہ بھوک، شہرت و نام و نمود کی تمنّاہے جس میں مبتلا افراد میں فلم اسٹارس اور دیگر آرٹسٹوں کے علاوہ ادباء و شعراء شامل ہیں۔لیکن ان دونوں میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔ فلم اسٹارس شہرت کی بنیاد پر دولت حاصل کرتے ہیں جب کہ کئی ادباء و شعراء دولت کی بنیاد پر شہرت حاصل کرتے ہیں۔یہ ان ہی کی کرم فرمائی ہے کہ رسالہ خریدے بغیر پڑھنے والے قارئین کی "ثابت قدمی اور استقلال" کے باوجود یہ رسالے اپنی بقا کے راستے میں ثابت قدم ہیں اور بِکنے والے رسالوں سے بھی زیادہ پابندی سے شائع ہو رہے ہیں!اردو زبان ہمیشہ ان کی ممنون رہے گی جنہوں نے ادب کے ذخیرے میں بھلے ہی کوئی بیش بہا اضافہ نہ کیا ہو لیکن اپنی دولت کے ذخیرے میں تھوڑی کمی کر کےمدیروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے! اگر یہ شعراء و ادباءیکے بعد دیگرے خصوصی گوشوں کی "ایڈوانس بکنگ" نہ کرتے رہیں تو یہ مدیران خود کب کا "گوشہ نشین" ہو جائیں۔
"شہرت تشنہ" ادیبوں اور شاعروں میں سخت مقابلہ آرائی کی وجہ سے "گوشوں" اور "نمبروں" کا ریٹ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہماری استطاعت سے باہر ہو گیا ہے۔توصیفی مضامین لکھنے والوں کے بھی بڑے بھاؤ ہو گئے ہیں۔ گرچہ ریٹ انہوں نے وہی ایک پلیٹ بریانی فی مضمون رکھا ہوا ہے لیکن اب کیو میں کھڑے رہ کر اپنی باری آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ہم جیسے ادنیٰ قسم کے ادیبوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے کہ خود نوشت توصیفی مضمون فرضی یا کسی دوسرے کے نام سے اخباروں اور رسائل میں اشاعت کی غرض سے بھیج دیں! اس سے کم سے کم کیو کی کوفت سے تو نجات مل جائے گی، اور ساتھ ہی جیبوں پر بریانی کا بار بھی نہیں پڑے گا!!

***
jawednh[@]gmail.com
موبائل : 9830474661
B-5, Govt. R.H.E., Hastings, 3, St. Georges Gate Road, Kolkata-22
جاوید نہال حشمی

Bhook - Sataric Essay: Jawed Nehal Hashami

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں