Set up commission to ensure Muslims' educational rights:Rahman
مسلم برادری تعلیمی ادارے کھولنے کیلئے اپنے دستوری حق سے استفادہ کرنے سے قاصر ہے اور حکومت کو اس مسئلے کی یکسوئی کیلئے ایک کمیشن قائم کرنا چاہئے وزیر اقلیتی امور کے رحمن خان نے یہ بات کہی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت قانون سازی اور انتظامی نوعیت کے اقدامات کرتے ہوئے یقینی بنائے کہ حکام کی جانب سے کوئی بھی رکاوٹیں پیدا نہ کی جاسکیں کیونکہ مسلمانوں کی اس دستوری حق سے محرومی اُن کی تعلیمی پسماندگی کی بڑی وجہ ہے۔ "(آزادی کے بعد)56 سال سے اگرچہ یہ حق تو موجود ہے لیکن کوئی پختہ قوانین نافذ العمل نہیں لائے گئے۔ کوئی چیز کی صرف دستور میں موجودگی سے آپ کو وہ حاصل نہیں ہوجاتی۔ قوانین و ضوابط (بھی) ہونے چاہئیں"۔ رحمن خان نے پی ٹی آئی کو یہ بات بتائی۔ وہ دستور کے آرٹیکل 30 کے تعلق سے اظہار خیال کررہے تھے جو اقلیتوں کو اپنی پسند سے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کا حق عطا کرتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ تعلیمی پسماندگی سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کا مسلمانوں کو سامنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ "کوئی کمیشن تشکیل دینا ہوگا کہ کس طرح اقلیتوں کوآرٹیکل 30کے تحت دئیے گئے دستوری حق سے وہ حقیقی معنی میں مستفید ہوسکتے ہیں۔ ہر بار جب کوئی حق پوچھا جائے تو ہمیں عدالت سے رجوع ہونا پڑتا ہے"۔ رحمن نے افسوس ظاہر کیا کہ مسلمان تمام مذہبی اقلیتوں میں سب سے زیادہ محروم طبقہ ہے اور اگر اقلیتوں کیلئے کوئی اثباتی اقدام درکار ہے تو اس کی مسلمانوں کو زیادہ ضرورت ہے۔ وزیر موصوف نے تجویز پیش کی کہ قوانین کو نہایت واضح ہدایات کے ساتھ نافذ کیا جاسکتا ہے کہ حکام تعلیمی اداروں کی کشادگی کو روک نہیں سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ "بیورو کریٹس آپ سے این او سی مانگتے ہیں، آپ وہ سرٹیفکٹ لاتے ہیں، پھر بھی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ آپ اسکول یا کالج نہیں کھول سکتے ہو۔ اس معاملے میں واضح ہدایت ہونی چاہئے، ایسا قانون ہونا چاہئے کہ آپ اسے روک نہیں سکتے ہو"۔ رحمن خان نے حال میں نائب صدر کانگریس راہول گاندھی کو موسومہ مکتوب میں مسلمانوں کی ناقص سماجی۔ معاشی حالت پر توجہ دلاتے ہوئے اُن کیلئے ریزرویشن کی ضرورت پر زوردیا تھا۔




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں