وزیر دفاع نے منگل 6/اگست کو اپنے بیان میں اس واقعے کے لیے پاکستانی فوج کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے کہا تھا کہ حملہ دہشت گردوں اور پاکستانی فوج کی وردی میں ملبوس لوگوں نے کیا تھا۔ اس کے برخلاف وزارت دفاع کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ حملے میں پاکستانی فوج شامل تھی۔
اپوزیشن اور بالخصوص بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسٹر انتونی اور وزارت دفاع کے بیانات میں تضاد کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کل پارلیمنٹ میں ہنگامہ کیا تھا اور حکومت سے پوزیشن واضح کرنے کی مانگ کی تھی۔ بی۔جے۔پی نے وزیر دفاع پر پاکستانی فوج کا دفاع کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ان سے معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
مسٹر انتونی نے آج اپنے بیان میں کہا ہے کہ واقعہ کے بعد آرمی کے سربراہ نے اس علاقے کا دورہ کیا اور واقعہ کی تفصیلات حاصل کی ہیں۔ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ حملے میں پاکستانی فوج کا اسپیشل فوجی دستہ شامل تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاک مقبوضہ کشمیر سے ایک گروپ نے کنٹرول لائن پار کر کے ہمارے بہادر جوانوں کا قتل کیا ہے، ہم سبھی جانتے ہیں کہ پاکستانی فوج کی حمایت ، مدد اور سہولت کے بغیر اور اس کی باواسطہ شراکت کے بغیر پاکستان کی طرف سے کچھ نہیں ہوتا ہے۔ اس واقعے سے فطری طور پر کنٹرول لائن پر ہمارے رویے اور پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات پر اثر پڑے گا۔ مسٹر انتونی نے کہا کہ ملک کی سرحد کے اندر ہندوستانی گشتی دستے پر بےرحمی اور کسی اشتعال کے بغیر کئے گئے حملے سے ہم سب کو انتہائی تکلیف پہنچی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس واقعے کے بارے میں انہوں نے جب پہلے بیان دیا تھا تو وہ اس وقت تک دستیاب اطلاعات کی بنیاد پر تھا۔ انہوں نے کہا کہ 6/اگست 2013 کو لائن آف کنٹرول اور ہماری فوج کے اندر ایک گشتی دستے پر وحشیانہ اور بغیر اکسائے گئے حملے سے ہم سبھی صدمے میں ہیں۔ جب میں نے اس واقعہ کے بارے میں ایوان کو مطلع کیا تھا تو حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ اس وقت تک موجود حقائق کو ایوان کے سامنے رکھیں اور میرا وہ بیان اس وقت تک مہیا اطلاع کی بنیاد پر تھا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد فوجی سربراہ نے اس علاقے کا دورہ کیا ہے اور اس معاملہ کی تفصیلات حاصل کی ہیں۔ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ پاکستانی فوج کا خصوصی دستہ اس حملہ میں شامل تھا۔
Killings will hit relations, Antony warns Islamabad
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں