آپ 73 سال کے تھے۔ آپ کے پسماندگان میں اہلیہ، 5 صاحبزادے، عبدالسلام رحمانی، احمد رحمانی، اسماعیل رحمانی، محمد رحمانی، عبداﷲ رحمانی اور ایک صاحبزادی کے علاوہ کافی تعداد میں پوتے پوتیاں اور نواسے اور نواسیاں ہیں۔
اللہ رب العالمین آپ کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور آپ کے اہل خانہ اور سنٹر کے ذمہ داران و منسوبین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔
مولانا عبدالحمید رحمانی کافی عرصہ سے علیل تھے اور سنٹر کے خدیجہ نیشنل ہاسپٹل دریا گنج نئی دہلی میں زیر علاج تھے۔ مولانا رحمانی کا انتقال قوم و ملت کیلئے ایک دل دوز سانحہ ہے۔ اس عہد ساز شخصیت کے جانے کی وجہ سے ملت اسلامیہ میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے اس کو پر کرنے کیلئے صدیوں میں ہی کوئی جنم لیتا ہے۔ آپ عزم و ہمت کے پیکر، ارادے کے دھنی اور بلند حوصلہ والے تھے۔ قوم و ملت کی خدمت میں آپ نے نہ کبھی آرام کی فکر کی اور نہ تکان، نہ دن دیکھا نہ رات، نہ صحت نہ بیماری ہمیشہ مصروف کار نظر آئے۔
آپ کا پورا نام عبدالحمید بن عبدالجبار رحمانی ہے۔ آپ کی پیدائش مشرقی اترپردیش کے ضلع سدھارتھ نگر کے ایک گاؤں تندوا میں 1940ء میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم ضلع بستی کے مختلف مدارس (جامعہ شمس العلوم سمرا اور بحرالعلوم انتری بازار) اور گونڈا (جامعہ سراج العلوم بونڈ بہار) میں حاصل کی اور 1962ء میں جامعہ رحمانیہ بنارس سے فضیلت اور 1970ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ سے "کلیہ اصول الدعوۃ والدین" سے بی اے کیا۔
تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ نے جامعہ رحمانیہ بنارس میں 4 سال اور جامعہ سلفیہ بنارس میں 2 سال مختلف علوم و فنون کی تدریس کے فرائض انجام دیے۔ تدریسی ذمہ دارایوں کے علاوہ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی نظامت اور جمعیت کے آرگن "ترجمان" کی ادارت بھی سنبھالتے رہے۔ 1971ء سے 1974 تک آپ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے ناظم اعلیٰ رہے۔
ترجمان کی ادارت کے دوران آپ نے حج و عیدالاضحی اور مسلم پرسنل لاء بورڈ پر ترجمان کے خصوصی شمارے شائع کئے۔ آپ نہ صرف اردو بلکہ عربی زبان کے ایک عظیم خطیب تھے اور بلامبالغہ اپنے دور میں تاریخ اہل حدیث کے عظیم جانکار تھے۔ خطابت کے ساتھ قلم سے بھی آپ کا گہرا رشتہ تھا۔ مختلف موضوعات پر آپ نے ترجمان، التوعیۃ اور التبیان کو اپنے رشحات قلم سے نوازا۔ نیز "زوابع فی وجہ السنۃ قدیما وحدیثا" پر عربی میں اور زادالمعاد( اردو ترجمہ) پر اردو میں آپ نے جو مقدمات لکھے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
مولانا عبدالحمید رحمانی متعدد اداروں اور تنظیموں سے وابستہ رہے۔ وہ جنرل سکریٹری، مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند، بانی و صدر جمعیۃ الشبان المسلمین بنارس، معاون سکریٹری مسلم مجلس مشاورت ہند، رکن کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ، رکن کل ہند علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکشن کمیٹی، رکن دینی تعلیم کونسل اترپردیش، رکن مجلس الثقافہ و التربیہ الاسلامیہ جامعہ نگر نئی دہلی، رکن مجلس عاملہ ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن نئی دہلی، جنرل ایڈوائزر جامعہ دارالسلام عمرآباد تامل ناڈو، رکن مرکزی ایڈوائزری حج کمیٹی حکومت ہند، رکن مائناریٹی کمیٹی حکومت ہند۔
آپ نے سعودی عرب، مصر، ملیشیا، امریکہ، انگلینڈ، سنگاپور، سری لنکا اور بنگلہ دیش وغیرہ کی مختلف کانفرنسوں میں شرکت کی۔ جولائی 1980ء میں آپ نے نئی دہلی مشہور علاقہ جوگا بائی، جامعہ نگر (اوکھلا) میں "ابوالکلام آزاد اسلامک اوکیننگ سنٹر نئی دہلی" کی بنیاد ڈالی، جو ایک علمی دعوتی، تصنیفی، تحقیقی اور رفاہی ادارہ ہے۔ جس کے تحت دہلی اور بیرون دہلی ملک کے مختلف علاقوں میں تقریباً دو درجن سے زائد اداروں کی آپ سربراہی فرما رہے تھے۔ جن میں جامعہ اسلامیہ سنابل، معہد عثمان بن عفان لتحفیظ القرآن الکریم جوگابائی، عائشہ صدیقہ شریعت کالج جوگابائی، خدیجۃ الکبری گرلز پبلک اسکول جوگابائی، معہد عمر بن الخطاب علی گڑھ اور معہد علی بن ابی طالب لکھنو سرفہرست ہیں۔
آپ کے تعلیمی میدان میں زندہ جاوید کارناموں کو برسوں یاد رکھا جائے گا۔
Noted islamic scholar Abdul Hameed Rahmani passes away in New Delhi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں