تلنگانہ کی تشکیل اور حیدرآباد کا امکانی موقف - بیرسٹر اویسی کا بیان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-30

تلنگانہ کی تشکیل اور حیدرآباد کا امکانی موقف - بیرسٹر اویسی کا بیان

barrister Asaduddin owaisi
صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین بیرسٹر اسد الدین اویسی ایم پی سے شہر سے تعلق رکھنے والے دو وزراء ڈی ناگیندر اور ایم مکیش گوڑ نے علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کی صورت میں حیدرآبادکے امکانی موقف پر گفتگو کی۔ صدر مجلس نے یہ واضح کردیا کہ بنیادی طورپر وہ موجودہ ریاست کی تقسیم کے خلاف ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ کی حیثیت سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ ریاست کی تقسیم کے ذریعہ کانگیس اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی ماررہی ہے جس سے تلگودیشم اور بی پی کے درمیان دوبارہ اتحاد کے امکان بڑھ جائیں گے۔ بیرسٹر اویسی نے اخباری نمائندوں کو بتایاکہ مجلس اتحاد المسلمین ریاست کی تقسیم کے خلاف ہے اس لئے کہ تقسیم کی صورت میں فرقہ پرست اور موقع پرست عناصر اس کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ان حالات میں اقلیتوں کے مفادات پر شدید ضرب پڑسکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ حیدرآبادیوں کو اعتماد میں لئے بغیر حیدرآباد کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ انہوں نے تقسیم کی صورت میں حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنانے کی تجویزکو یکسر مسترد کردیا۔ ایک اخباری نمائندے کے اس سوال پر کہ کانگریس نے علیحدہ ریاست کی تشکیل کا چونکہ وعدہ کیا تھا اس لئے وہ وعدے کو پورا کرنا چاہتی ہے، بیرسٹر اویسی نے یاد دلایا کہ 6؍دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت کے فوری بعد اس وقت کانگریس کے وزیراعظم نے مسجد کو اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کرنے کا قوم سے وعدہ کیا تھا، یہی نہیں پارلیمنٹ میں مسجد کو دوبارہ تعلیم کرنے کیلئے قرارداد منظور کی گئی۔ انہوں نے کہاکہ اگر کانگریس نے عدہ کیا ہے تو بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر سے متعلق وعدے کو پہلے پورا کر دکھائے۔ انہوں نے کہاکہ سچر کمیٹی کی سفارشات کو قبول کرتے ہوئے روبہ عمل لانے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ کانگریس نے 2009ء کے انتخابی منشور میں اقلیتوں کو قومی سطح پر تحفظات دینے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کانگریس حکومت کی جانب سے عوام سے کئے گئے کئی وعدوں کے حوالے بھی دئیے اور کہاکہ یہ وعدے کئے گئے ہیں پہلے ان کو پورا کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ ریاست میں اقلیتوں کی آواز کو سنے بغیر علاقہ کی سیاسی قسمت کا فیصلہ کرنا کانگریس کیلئے مہنگا ثابت ہوسکتاہے۔

Barrister Asaduddin Owaisi on Telangana and Hyderabad issues

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں