روزے کے ذریعے اپنے اخلاق و معاملات کو سنواریں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-19

روزے کے ذریعے اپنے اخلاق و معاملات کو سنواریں

ramadan mercy forgiveness salvation
موجودہ زمانہ کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس میں عوام الناس اخلاقیات و روحانیت کے اعتبار سے کمزور ہوتے جارہے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ گذشتہ ادوار کے مقابلے میں آج تعلیم کی شرح فیصد زیادہ ہے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بھی خاصی بڑی تعداد ہے، لیکن اس کے باوجود فی زمانہ جس بڑے پیمانہ پر بداخلاقی پر مبنی واقعات سامنے آرہے ہیں، وہ حیرت زدہ کردینے والے ہیں۔ معاملات کا عالم یہ ہے کہ بہت سے لوگ لین دین، کاروبار وغیرہ میں صفائی نہیں رکھتے۔ وعدہ خلافی، عہد شکنی اور کذب گوئی تو ایک عام بات بن کر رہ گئی ہے، جس کی وجہہ سے خلق خدا کے سامنے بہت سے مسائل کھڑے ہوگئے ہیں۔ انسانی ہمدردی، بھائی چارگی بھی موجودہ زمانہ میں عنقاسی ہوگئی ہے۔ جو لوگ امیر ہیں، وہ غریبوں کی طرف کم توجہ دیتے ہیں، جو اہل مرتبہ ہیں، ان میں سے زیادہ تر اپنے عیش میں مگن رہتے ہیں وہ پریشان حال لوگوں کی طرف متوجہ نہیں ہونا چاہتے۔ بداخلاقی اور روحانیت سے دوری صرف غیر مسلم اقوام میں ہی نہیں پائی جاتی، بلکہ اب یہ مسلمانوں کے درمیان بھی خوب دیکھنے کو ملتی ہے۔ جب کہ اسلام میں بداخلاقی کو پسند نہیں کیا گیا ہے اور معاملات کی صفائی پر حد درجہ توجہ دلائی گئی ہے۔ ہمیشہ سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے ، وعدہ اور عہد کو نبھانے کی تلقین کی گئی ہے۔ دوسروں کے ساتھ ہمدردی و بھائی چارگی کا درس دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر مسلمانوں میں یہ برائیاں پائی جائیں تو یہ نہایت افسوس کی بات ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے درمیان سے برائیوں کا سدباب کرنے کی بھرپور جدوجہد کریں۔

یہ رمضان المبارک کا مہینہ چل رہا ہے۔ اس مہینہ میں خود کو روزہ، نماز، تلاوت اور تسبیحات سے جوڑ کر وہ اپنی عادات کو درست کرسکتے ہیں۔ بہت سے لوگ بیڑی سگریٹ پینے کے عادی ہوتے ہیں ۔ وہ رمضان کے ذریعہ اپنی اس لت سے بآسانی چھٹکارہ پاسکتے ہیں۔ چونکہ رمضان میں دنوں میں روزے رکھنے ہوتے ہیں اور افطار کے بعد نماز، مغرب پھر عشاء و تراویح کی نماز ادا کی جاتی ہے، اس کے بعد چند گھٹنے سوکر سحری کھائی جاتی ہے، گویا کہ بیڑی سگریٹ جیسی عادتوں کیلئے وقت ہی نہیں ملتا۔ جو لوگ اس درمیان بھی بیڑی سگریٹ، تمباکو وغیرہ کے لئے وقت نکالتے ہیں، اگر وہ چاہیں تو اسے نظر انداز کرسکتے ہیں اور پورے مہینے، ان عادتوں سے دور رہ کر رمضان کے بعد ان عادتوں کو چھوڑ سکتے ہیں۔ کئی لوگوں کو گالی گلوج کی عادت ہوتی ہے، مگر چونکہ رمضان المبارک میں گالی نہ بکنے کا اہتمام ہوتا ہے لہذا رمضان کے بعد بھی وہ گالی گلوج کو کلی طورپر چھوڑ سکتے ہیں۔ بعض لوگوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے۔ اس لئے ایسے لوگ نہ صرف اپنے فائدے یا مقصد کے حصول کیلئے جھوٹ بولتے ہیں، بلکہ بے فائدہ اور بے وجہ بھی جھوٹ بکتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں یقیناً وہ اپنی اس غلط عادت پر قابو پاسکتے ہیں۔ کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جنہیں فلیمیں دیکھنے کا شوق ہوتا ہے، بعض ٹی وی پر دیھکتے ہیں اور بعض سینما گھروں میں۔ لیکن ان میں سے بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو رمضان میں فلمیں دیکھنے کیلئے سینما گھروں میں نہیں جاتے ہیں اور گھروں پر ٹی وی کو بند کرکے رکھ دیتے ہیں، یعنی وہ اس پورے مہینے میں ٹی وی وغیرہ سے ناطہ توڑے رکھتے ہیں۔ اگر وہ اس عمل کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھیں تو ان کی فلمیں اور ٹی وی دیکھنے کی عادت چھوٹ جائے گی۔ یوں وہ بہت سے گناہوں سے بچ جائیں گے۔

روزے میں انسان اﷲ کے لئے کھانے پینے اور جماع کرنے سے رک جاتا ہے، یعنی وہ اﷲ کیلئے اس چیز سے رک جاتا ہے جو اس کیلئے بنیادی حیثیت کی حامل ہے اور جس سے رکنا آسان بات نہیں ہے، چنانچہ جب انسان اتنی بنیادی چیزوں سے اپنے آپ کو روک لیتا ہے تو بداخلاقی، بدعنوانی اور کذب گوئی جیسی چیزوں سے تواور آسانی سے رک سکتا ہے۔ اگر مسلمان روزے کے تقاضوں کو پورا کریں تو وہ گناہوں، برائیوں اور بداخلاقی کو بآسانی خیر باد کہہ سکتے ہیں۔ روزہ کے آخروی و دنیوی بے شمار فوائد ہیں، اسی لئے روزہ کو اسلام میں بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نماز، زکوۃ اور حج کی طرح روزے کو بھی بنیادی رکن ہونے کا شرف حاصل ہے، کیونکہ روزے کے بغیر نہ عبادت کا نظام مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے بغیر پورے طورپر اخلاقی اور جسمانی اصلاح ممکن ہے۔ تزکیہ نفس کیلئے روزہ کو انتہاء مؤثر بتایا گیا ہے، جس پر تقویٰ کی بنیاد ہے۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ کو روزہ بے حد پسند ہے، جو شخص اﷲ کیلئے روزہ رکھتا ہے اﷲ تعالیٰ اسے اجر عظیم سے نوازتا ہے، اس کا بدلہ اپنے ہاتھ سے عطا کرتا ہے اور اس سے جہنم کی آگ کو دور کردیتا ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص ایک دن اﷲ کے راستے میں روزہ رکھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس ایک دن کے بدلے، اس کے چہرے کو آگ سے ستر سال کی مسافت تک دور کردیتا ہے"۔
(بخاری و مسلم)

روزہ کے اہم ترین مقاصد میں "تقویٰ" خاص اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ تقویٰ اﷲ کو بے حد پسند ہے، تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اﷲ سے ڈرے، ہر غلط کام سے بچے، اپنی نفسانی و ہیجانی خواہشات کو قابو میں رکھے، ہر حالت میں صابر و شاکر رہے، رضائے الہیٰ کی جستجو میں لگا رہے اور خشوع و خضوع کے ساتھ ہمہ وقت عبادت و ریاضت میں مشغول رہے۔ روزہ چونکہ ان تمام چیزوں کو جامع ہے، اس لئے اس سے بآسانی یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ روزہ رکھنے کے بعد انسان میں کئی طرح کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ روزہ دار اپنے آپ کو اس بات کا اہل بنالیتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر خواہشات پر کنٹرول کرسکے۔ اگر اس کا جی چاہے تو وہ نہ کھائے، اگر پینے کو چاہے تو نہ پئے، اگر مجامعت کو چاہے تو وہ بھی نہ کرے۔ یہ تینوں چیزیں انسان کی بنیادی و نفسانی خواہشات کی مرکز ہیں۔ ان پر کنٹرول کرلینا ہر چیز پر کنٹرول کرنے کے برابر ہے۔ روزہ کے علاوہ ان اشیا پر قابو کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ عام طور سے دیکھا گیا ہے کہ جب لوگوں کو بھوک لگتی ہے تو وہ کسی نہ کسی طرح کھانے کا انتظام کرلیتے ہیں، پیاس لگتی ہے تو وہ تڑپ جاتے ہیں اور کسی بھی طرح اس کا بندوبست کرکے سیرابی حاصل کرلیتے ہیں۔ بیوی سے جامعت کو جی چاہتا ہے تو اس پر قابو بھی دشوار ہوجاتا ہے لیکن روزہ رکھ کر حکم خداوندی کی تکمیل کے سبب کوئی شخص ان تینوں چیزوں کے قریب نہیں جاتا، یعنی روزے کے ذریعہ ہی ان پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ ایسے بہت سے روزے دار ہر جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں، جو روزے کی حالت میں سوائے کھانے ، پینے اور مجامعت سے رکنے کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں رکتے۔ جھوٹ بھی بولتے ہیں وعدہ خلافی بھی کرتے ہیں لہو لعب میں بھی مشغول رہے ہیں، بے حیائی و فحاشی سے بھی دامن نہیں بچاتے، بدکلامی اور گالی گلوج تک پر اتر آتے ہیں، ذکر و اذکار یمں بھی دلچسپی نہیں لیتے۔ دراصل ایسے روزے دار روزہ تو رکھتے ہیں مگر اس کے مقصد کو نہیں سمجھتے۔ شاید انہیں اس بات کا بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ اس طرح اجر عظیم سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یاد رہنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص روزہ دار ہوکر بھی تقویٰ کی طرف نہ آیا، فحش گوئی کرتا رہا، جھوٹ بولتا رہا اور برے کاموں میں مشغول رہا تو پھر روزہ کا مقصد حاصل نہ ہوسکے گا۔ اس لئے کہ اس حالت میں روزہ سے وہ سب کچھ نہیں حاصل ہونے والا، جو اسے حاصل ہونا چاہئے۔
ایسے روزے کے متعلق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جس شخص نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اﷲ کو اس سے کیا سروکار کہ وہ بھوکا اور پیاسا رہا"
(بخاری شریف)
رسول اﷲﷺ نے روزے دار کو تقویٰ اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا:
"روزہ ڈھال ہے اور تم میں سے جب کوئی کسی دن روزے سے ہوتو اسے چاہئے کہ زبان فحش اور گندی باتوں سے آلودہ نہ کرے، شور برپا نہ کرے، اگر کوئی اس سے گالی گلوج پر اتر آئے یا لڑائی کیلئے آمادہ ہوجائے تو اسے دل میں سوچنا چاہئے کہ تو روزے سے ہوں "۔
(بخاری و مسلم)

روزہ کے دوران روزہ دار کیلئے ضروری ہے کہ وہ دنیا کی تمام آرائش و زیبائش سے کنارہ کش ہوکر معبود حقیقی کی طرف راغب ہوجائے اور عمل سے یہ ثبوت دے کہ وہ اپنے مالک حقیقی کیلئے اپنی تمام تر ضرورتوں، چیزوں کو قربان کرچکا ہے۔ وہ اﷲ کے راستے میں ہے، اس کا مقصد اﷲ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ دنیا ومافہیا سے اسے کچھ لینا دینا نہیں۔ نہ اسے کھانے سے مطلب ہے نہ پینے سے مطلب ہے نہ اسے بیوی کے ساتھ میل ملاپ سے مطلب، نہ اسے دنیاداری سے مطلب، اسے مطلب ہے تو صرف اپنے پروردگار سے۔

روزہ دار کو روزہ رکھتے ہوئے یہ بھی طے کرلینا چاہئے کہ اس کا مقصد جہاں عبادت میں مشغول رہنا ہے وہیں اسے اس اثناء میں ایک صاحب کردار اورنیک و صالح انسان بننا ہے۔ مگر آج کل زیادہ تر روزے دار اپنے سامنے اس مقصد کو نہیں رکھ رہے ہیں۔ جس کے سبب وہ رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھنے کے باوجود نہ متقی بن پاتے ہیں، نہ نیک و صالح اور صاحب کردار انسان۔ جو عیوب اور غلط عادتیں رمضان سے پہلے ان میں ہوتی ہیں وہ مسلسل انتیس یا تیس روزے رکھنے کے بعد بھی رہتی ہیں۔ اس بات کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ روزے دار کے پیش نطر یہ بات رہنی چاہئے کہ روزوں کی فرضیت منعم حقیقی کی جانب سے ان پر ایک بڑا احسان ہے، جس میں انہیں دینی، اخلاقی اور انسانی تربیت کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ اگر وہ اس اثناء یں مکمل طریقہ سے اسلام پر عمل پیرا ہوں تو ان کی بہترین تربیت ہوسکتی ہے اور اپنے اخلاق و معاملات کو سدھارا جاسکتا ہے۔

اسرار الحق قاسمی

optimize your conduct and relations by fasting. Column: Asrar-ul-Haq Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں