SC asks state govts to act against sale of adulterated milk
سپریم کورٹ نے ملک میں ملاوٹی دودھ کی فروخت پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے آج کہا کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور اس پر روک لگانے کیلئے ریاستی سرکاروں کی جانب سے کارروائی کئے جانے کی ضرورت ہے۔ جسٹس کے ایس رادھا کرشنن اور پنا کی چندرگھوش نے پوچھا "یہ ایک بہت سنگین معاملہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا پورے ملک میں ہورہا ہے۔ سرکار کیا کارروائی کررہی ہے؟"۔ بنچ نے ہریانہ، راجستھان، اترپردیش ، اترکھنڈ اور دہلی کی سرکاروں کو ہدایت دی کہ وہ اپنا جواب داخل کرکے بتائیں کہ وہ ملاوٹی دودھ پر روک لگانے کیلے کیا کارروائی کررہی ہیں کیونکہ مرکز نے کہا ہے کہ اس معاملہ میں کارروائی کرنے کی ذمہ داری ریاستی سرکاروں کی ہے۔ عدالت نے کہاکہ وہ اس معاملہ پر مفاد عامہ کی رٹ کے دائرے کو توسیع دے کر اس میں ملک کی دیگر ریاستوں کو شامل کرے گی۔ بنچ نے ماملہ کی آئندہ سماعت 28 جولائی طے کی اور واضح کیا کہ ریاستوں کو اپنا جواب داخل کرنے کیلئے مزید وقت نہیں دیا جائے گا۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ ملاوٹ مانگ اور سپلائی میں فرق کے باعث ہوتی ہے۔ عدالت اترا کھنڈ کے اچییوتا نند کی قیادت میں شہریوں کے ایک گروپ کی جانب سے دائر مفاد عامہ کی اپیل پر سماعت کررہی تھی۔ رٹ دائر کرنے والوں نے الزام لگایا تھا کہ یوریا، ڈٹرجنٹ، ریفائنڈ تیل، کاسٹک سوڈا اور سفید پینٹ کا استعمال کرکے سنیتھٹیک دودھ اور ملاوٹی دودھ کے علاوہ دودھ سے بنی اشیاء تیار کی جاہی ہیں۔ اس سے انسانی زندگی کو بہت خطرہ ہے اور کینسر جیسی بیماری ہوسکتی ہے۔ مفاد عامہ کی رٹ میں سنتھیٹک اور ملاوٹی دودھ اور عام دودھ کی پیداوار، سپلائی اور فروخت پر ایک پالیسی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ گذشتہ 21 اکتوبر کو مرکز نے سپریم کورٹ کو مطلع کیا تھا کہ ملک میں 68 فیصد سے زائد دودھ معیار کے مطابق نہیں ہے۔ مرکز نے ایف ایس ایس اے آئی کے سروے کا ذکر کیا تھاجس میں پایا گیا تھا کہ معیار پر کھرانہ اترنے والا 68فیصد دودھ شہری علاقوں میں پایا گیا جو کھلا دودھ تھا۔ ایف ایس ایس اے آئی کے2011 کے سروے کے مطابق ملاوٹ کا سب سے عام اور آسان طریقہ پانی کی ملاوٹ ہے۔ معیار کے مطابق نہ ہونے کی اہم وجہ گلوکوز اور اسکمڈ دودھ پاؤڈر ملانا ہے یہ بھی پایا گیا کہ کچھ نمونوں میں ڈٹرجنٹ تھا۔ مرکز کے حلف نامے میں یہ کہا گیا تھا کہ دیہی علاقوں میں معیار کے مطابق نہ رہنے والا 83 فیصد دودھ کھلا دودھ تھا۔ حلف نامہ عدالت کی جانب سے 9؍مئی 2012ء کو جاری نوٹس کے جواب میں داخل کیا گیا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں