رمضان المبارک کے احکام و اعمال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-14

رمضان المبارک کے احکام و اعمال

خدائے تعالی کے لطف و کرم سے بندوں پر بارہا روح پرور مواقع رحمتوں و سعادتوں سے لبریز ماہ و ہفتے ایسے عطا کئے جا تے ہیں ، جس میں عنایات و فیاضی رحمانی بندوں پر بارش کے قطروں کی طرح برستی ہے ۔ اور رحمتوں کا منڈلاتا سیلاب آتا ہے جو طالب خیر کو اپنی رو میں بہا لے جاتا ہے ۔ نیز عفو وبخشش کے حسین لمحات آ کر اہل ایمان کو رذائل سے پاک کر چھوڑ تے ہیں۔ بالخصوص یہ وہ ماہ وہفتے ہیں ، جو ہمارے بیچ رمضان کے بابرکت ساعتوں سے جا نے جاتے ہیں ۔
اس مہینہ میں ہر روز فرشتوں سے منادی کرائی جا تی ہے کہ : اے طالب خیر سامنے آ اور متوجہ ہو! اے طالب شر بس کر ! گناہوں سے تائب ہو کر طاعت و نیکی کی زندگی کو اختیار کر ۔

روزہ کی حقیقت :
اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک رمضان کا روزہ بھی ہے۔ جو ہر مکلف پر فرض قطعی ہے۔ صبح صادق سے غروب آفتاب تک عبادت کی نیت سے کھانا پینا اور جماع چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے
(بحوالہ : کفایہ جلد 2 ، ص333)

روزہ تقوی کے حصول کا اہم ذریعہ :
علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے "زاد المعاد" میں تحریر فرمایا ہے کہ : روزہ کے اندر ظاہری اعضاء اور باطنی قوتوں کی حفاظت کر نے کی عجیب تاثیر پائی جا تی ہے ۔ اسی طرح روزہ ان فاسد مادوں کی ملاوٹ سے بچاتا ہے، جو نفس پر غالب آ کر اسے بگاڑ دیتے ہیں ۔ اسی طرح جو گھٹیا جذبات و کیفیات رو حانی صحت کیلئے مضر ہیں ، روزہ ان سب کو باہر کرنے میں اثر رکھتا ہے ۔ نیز روزہ دل ، اعضاء و جوارح کی صحت مندی کا محافظ ہے ۔ اور جو نفسانی خواہشات کے ہاتھوں صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں، انکو روزہ واپس لے آتا ہے ۔ پس روزہ تقوی کو حاصل کر نے میں سب سے بڑا معاون عمل ہے
(کتاب المسائل جلد 2 ص 64)

روزہ کا بے انتہا اجر :
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیں جو مجھے جنت تک پہنچا دے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فر مایا
عليك بالصوم فإنه لا عدل له
تم روزہ رکھو اس لئے کہ وہ بے مثال عمل ہے
(الترغیب جلد 2 ص53)

روزہ کی حالت میں ناجائز امور سے اجتناب :
روزہ کا اصل مقصد تقوی کا حصول اور گناہوں سے دوری ہے۔ اور یہ چیز ناجائز امور سے اجتناب کئے بغیر روزہ دار کو میسر نہیں آ سکتی۔ اور بھوکے پیاسے رہنے کے سوا اس کے ہاتھ کچھ نہیں آ ئیگا۔ حدیث پاک میں ہے :
من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه
صحيح البخاري » كتاب الصوم » باب : من لم يدع قول الزور ، والعمل
جو شخص روزہ میں جھوٹی بات اور نا جائز کلام اور اس پر عمل کر نا نہ چھوڑے تو اللہ تعالی کو اس شخص کے کھانے پینے کو چھوڑ نے کی کو ئی ضرورت نہیں۔ اس لئے روزہ دار کے لئے لازم ہے گناہوں سے حد درجہ بچنے کی کوشش کرے۔

کن حالتوں میں روزہ نہ رکھنا مباح ہے :
مریض ، مسافر ، حاملہ ، دودھ پلانے والی عورت ، تیماردار(جب کہ اس کے روزہ رکھنے سے مریض کا نقصان ہو) اور مجنون ، بے ہوشی میں مبتلا شخص کے لئے روزہ نہ رکھنا مباح ہے ۔ جب کہ ا نکا عذرزائل ہو جا ئے تو روزہ کی قضا ء کریں۔ ہاں اگر کو ئی ایسا شخص ہو جسے روزہ رکھنے پر قدرت ہی نہ رہے تو اس کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ ہر روزہ کے بدلے میں فدیہ ( صدقہ فطر کی مقدار) دے دیا کریں
( کتاب المسائل جلد 2ص 70)

مسئلہ:
بعض لوگ عربی میں روزہ کی نیت ضروری سمجھتے ہیں ،یہ صحیح نہیں
(جواہر الفقہ جلد 1ص378)
مسئلہ:
اگر صبح صادق کے بعد دن میں کسی بھی وقت عورت حیض یا نفاس سے پاک ہو ئی یا بچہ بالغ ہوا یا کا فر اسلام لا یا تو ان کو شام تک روزہ داروں کی طرح رہنا ضروری ہے ۔
(فتاوی عالمگیری جلد 1 ص 214)
مسئلہ:
مسافر جس نے سفر کی مشقتوں کے باعث روزہ نہ رکھا اور زوال سے پہلے مقیم ہو گیا اور صبح سے اب تک کو ئی کام رو زہ کو توڑ نے والا نہیں کیا ، تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ نیت کر کے اس دن کا روزہ رکھے
( شامی ج 3 ص 383)
مسئلہ :
جو بچہ دس سال کا ہو روزہ کی طاقت رکھتا ہو تو اسکو روزہ کا رو زہ کا حکم کرے ،نہ رکھنے پر تنبیہ کرے۔
(عالمگیری ج 1 ص214)
مسئلہ :
جو بچہ دس سال سے کم عمر کا ہو ، رو زہ رکھنے میں اسے مشقت پیش نہ آ ئے تو اسے روزہ رکھوائے اور جو طاقت نہ رکھے تو اسے روزہ نہیں رکھوایا جا ئیگا۔
نوٹ: ہمارے علاقوں میں یہ رسم چل پڑی ہے کہ چھوٹے بچوں کو روزہ رکھوانے کی شروعات ایک فنکشن و تقریب کی شکل میں کی جا تی ہے ، جس میں رشتہ دار واقارب کو مدعو کیا جا تا ہے ۔ جس میں روزہ دار اور کئی رشتہ دار بچوں بڑوں کی تصویر کشی کی جا تی ہے اور روزہ دار کی تصویر اخبار میں چھپوائی جا تی ہے ،یہ شرعاً نا جائز ہے ۔ اور تصویر وغیرہ امور ممنوعہ میں ملوث ہونے کے باعث سخت منع ہے ، جب کہ اسکی اصل شریعت میں نہیں ۔

روزہ کو توڑ نے والی چیزیں :
کان اور ناک میں دوا ڈالنا، قصداً منہ بھر قئے کر نا ، کلی کر تے ہو ئے حلق میں پا نی چلا جا نا، عورت کو چھونے وغیرہ سے انزال ہو جا نا ، لو بان یا عود وغیرہ کا دھوان قصداً حلق میں پہونچنا ۔ مثلاً بیڑی ، سیگریٹ، بھول کر جماع کیا یا کھا پی لے اور یہ خیال کیا کہ اس سے روزہ ٹوٹ گیا پھر قصداً کھا پی لے ،رات سمجھ کر صبح صادق کے بعدسحری کھا لی دن باقی تھا مگر غلطی سے یہ سمجھ کر کے آ فتاب غرو ب ہو گیا ہو گا ، روزہ افطار کر لیا۔ نوٹ: ان سب چیزوں سے روزہ ٹوٹ جا تا ، مگر صرف قضا ء واجب ہو تی ہے ، کفارہ لازم نہیں ہوتا۔

مکروہات روزہ :
جن چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا مکروہ ہو جا تا ہے :
بلا ضرورت کسی چیز کو چپانا یا نمک وغیرہ چکھ کر تھوک دینا ، توٹھ پیسٹ یا منجن یا کوئلہ دانت صاف کر نا ، تمام دن حالت جنابت میں بغیر غسل کے رہنا ، کسی مریض کے لئے اپنا خون دینا ، غیبت کر نا یعنی کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کر نا ، یہ ہر حال میں حرام بالخصوص روزہ میں اسکا گناہ بڑھ جا تا ہے ۔ اور روزہ کی حلات میں لڑنا جھگڑ نا ، گالی دینا کسی انسان یا بے جان یا جاندار کو ، اس سے روزہ مکروہ ہو جا تا ہے ۔

غمخواری کا مہینہ :
رمضان غمخواری و صبر کا مہینہ ہے ، اس بناء پر اپنے ملازمین و نوکروں کے بوجھ کو ہلکا کر نے کا حکم دیا گیا ہے ۔ نیز غمخواری کا جھلکتا پہلو یہ ہے کہ اپنے پڑوسیوں،غرباء و مساکین کی خدمت اور دلداری بھی اس ماہ کا خصوصی عمل ہے۔ مروی ہے کہ اس مہینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو دوسخا بہت بڑھ جا تا تھا ۔ آپ چلتی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جا تے تھے۔

***
مفتی مدثر احمد شاہی
فاضل دا رالعلوم دیو بند ، استاذ جامعۃ الابرار دھرمپوری ، تامل ناڈو
موبائل : 9952563603

Ramadan Rules and Actions. Article: Mufti Mudassar Ahmed Shahi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں