شام کی خانہ جنگی سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کمزور؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-14

شام کی خانہ جنگی سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کمزور؟

شام کے المیہ اور جاری خوں ریزی یا خون مسلم کی ارزانی کے ذکر سے پہلے ہم مسلمانوں کے قبلہ اول یا مسجد اقصی کو لاحق اس سنگین خطرے سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ عالمی صیہونی تحریک اور اسرائیل مسجد اقصیٰ کو (اللہ نہ کرے) شہید کرکے وہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے منصوبے کو روبہ عمل لانے کی تیاری مکمل کرچکے ہیں یہ کوئی ایسی انتہائی راز کی بات نہیں جس کا علم عالم اسلام اور مسلمان حکمرانوں کو نہ ہو لیکن وہ امریکہ کو ناراض کرنا نہیں چاہتے ہیں اس لئے وہ اس تعلق سے بے فکر شائد یوں ہیں کہ مسجد کو تو اللہ بچالے گا مگر میرا تاج میرا تخت میری حکومت کو میرے سوا کون بچائے گا؟ شام میں سرکاری افواج اور باغیوں کے درمیان بھیانک معرکہ آرائیوں کی وجہ سے شام میں خون مسلم کی ارزانی ہے۔ امریکہ اپنے قدیم منصوبے پر شرم ناک عیاری سے کام لیتے ہوئے شام کو عراق کی طرح تباہ و تاراج کرنے کی تیاری کررہا ہے اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکہ و اسرائیل شام کے ساتھ اسرائیل کی بے جگری سے مزاحمت کرنے والی دونوں تنظیموں حماس اورحزب اللہ کو بھی کمزور کرنے کی سر توڑ کوشش کررہی ہیں۔ حماس کو بچانے کی کوئی فکر عرب ممالک کو نہیں ہے بلکہ امریکہ کے زیر اثر ہی نہیں بلکہ تابعدار ہونے کی وجہ سے حزب اللہ کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لئے جواز پیدا کئے جارہے ہیں تاکہ شام اور لبنان کے دفاع کی کوئی صورت باقی نہ رکھی جائے اور اسرائیل کے لئے ممکنہ خطرات کو ختم کردیا جائے۔ حد تو یہ ہے کہ بیت المقدس کے تحفظ سے وہ غافل ہیں۔
عرب اور دیگر مسلم ممالک کے حکمرانوں کی ہمالیائی غلطیاں یا عالم اسلام کے خلاف امریکہ خوشنودی کی خاطر ان کی مذموم کارروائی اپنی جگہ نہ صرف شرم ناک ہیں بلکہ قابل مذمت ہیں لیکن عہد حاضر میں اسلامی انقلاب کا محرک یا داعی ایران بشارالاسد کی ہمدردی و حمایت کرکے امریکہ اور اسرائیل کے ان منصوبوں کی جن میں شام، حماس اور اسرائیل کی تباہی کو ترجیح حاصل ہے تکمیل میں انجانے میں دن سے تعاون کررہے ہیں جبکہ بشارالاسد جیسے بے دین، ظالم و جابر آمر کی مدد کا کوئی جواز نہیں ہے مورخ بشارالاسد کی مدد کرنے کے لئے ایران کو ہر گز معاف نہیں کرے گا۔
اس سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ بشارالاسد کو سنی و شیعہ دونوں ہی مسلمان تسلیم نہیں کرتے ہیں اگر بشارالاسد صحیح العقیدہ شیعہ ہوتے تو ان کی حمایت کا کوئی جواز ایران کے پاس ہوتا ہم واضح کردیں شام کے خونین بحران کا تعلق مسلک سے نہیں ہے ویسے مغرب کے ذرائع ابلاغ دنیا بھر میں یہ پروپگنڈہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے کررہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں مسلکی اختلافات خطرناک حدتک بڑھ گئے ہیں۔ ترکی و مصر میں شورش اور مخالف حکومت سرگرمیوں کی افواہوں کی طرح مسلکی اختلافات کے سنگین حدتک بڑھنے کی افواہ بھی مغربی اور صیہونی میڈیا کی شرانگیزی ہے جس کو اہمیت ہرگز نہیں دینا چاہئے۔
شام کے مسئلہ میں عرب ممالک اور ایران کی غلطیوں سے بڑھ کر یہ امر خطرناک ہے کہ امریکہ نے شام کے باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے ویسے یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ امریکہ یہ کام بغیر اعلان کئے راست یا بالراست کرتا رہا ہے اور اب علی الاعلان کرکے شام کی افواج اور عسکریت پسندوں کو مکمل تباہ وبرباد کرنا چاہتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک خبر یہ ہے کہ امریکہ مسلسل یہ چھوٹا پروپگنڈہ زور شور سے کررہا ہے کہ بشارالاسد جراثیمی اسلحہ استعمال کررہے ہیں۔ قارئین یہ بات ہر گز نہ بھلاسکے ہوں گہ عراق پر حملے کا جواز امریکہ و برطانیہ نے یہی بتایا تھا کہ صدام حسین شہید کے پاس ایٹمی، کیمیائی و جراثیمی اسلحہ ہیں یہاں ایٹمی کا توسوال نہیں ہے ہاں جراثیمی کا جواز تراشا جارہا ہے۔ ایک بار جھوٹ بول کر ایک ملک کو تباہ کرنے والی عالمی طاقت پھر جھوٹ کے سہارے وہی ڈھونگ دوبارہ رچانے کی فکر میں ہے اور عالمی ممالک کی اکثریت پھر خاموش ہے۔ امریکی مداخلت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اسرائیل کا ایک طاقتور حریف، نسبتاً ترقی یافتہ سرسبز و شاداب علاقوں کا مالک ایک مسلم ملک (بشارالاسد بھلے ہی مسلمان نہ ہوں) تباہ کردیا جائے گا ۔ حزب اللہ بھی کمزور ہوجائے گا۔ حزب اللہ کے ساتھ خلیجی ممالک کی بدسلوکی کاردعمل حماس پر ایران ظاہر کررہا ہے ۔ حماس وسائل سے محروم ہورہا ہے ۔ ایران اور خلیجی ممالک کا کچھ نہ جائے گا سب سے زیادہ فائدے میں اسرائیل ہوگا جو عرب ممالک اور ایران دونوں ہی کا دشمن ہے۔ کیا یہ المیہ نہ ہوگا کہ اپنی مزاحمت کو آپ خود کمزور کرکے مشترکہ دشمن کو فائدہ پہنچائیں؟
شام میں بغاوت یا خانہ جنگی کوئی ایسا مسئلہ نہ تھا کہ جس کو اسلامی ملکوں کی تنظیم یا عرب لیگ حل نہ کرسکتی مسئلہ کو حل کرنا تو دور کی بات ہے وہ عارضی صلح یا جنگ بندی کروانے خون ریزی ختم کروانے میں بھی ناکام رہے ہیں اور نہ ہی اپنے طور پر وہ بشارالاسد پر جراثیمی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام کی تحقیق کرکے اس کی تردید و توثیق تک نہ کرسکے اگر بشارالاسد نے جراثیمی ہتھیار استعمال نہیں کئے ہیں باغیوں کی کمان یا قیادت اس کی پرزور تردید کرکے شام کو امریکہ کی مداخلت و متوقع تباہی سے محفوظ رکھ سکتے ہیں لیکن باغیوں اور ان کے حمایتی ممالک کی خاموشی امریکہ کی مجرمانہ مدد ہے۔ شام میں خون ریزی کی ذمہ داری اسد اور باغیوں سے زیادہ عرب ممالک اور ایران پر ہے جنہوں نے دونوں فریقوں کی حمایت اور مدد کرکے کسی فیصلے کے امکانات کو ختم کردیا ہے ۔ حزب اللہ نے اسد کی مدد کرکے نہ صرف اسد کی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ مسئلہ کو پیچیدہ کردیا ۔ سب ہی جانتے ہیں کہ حزب اللہ کی مدد میں ایران کا مشورہ اور مرضی شامل ہے۔ ایران کو عرب ممالک سے برگشتہ کرنے اور تعلقات میں تلخی کے ذمہ دار بڑی حدتک عرب ممالک ہیں جن کے نزدیک امریکہ کی خوشنودی سب سے زیادہ اہم ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ بتادیں کہ عربوں اور ایران کے تعلقات کا ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو شاہ ایران کے زمانے میں بھی ان کے تعلقات خراب رہتے بلکہ شاہ فیصل و شاہ ایران قریبی دوست ذاتی طور پر بھی تھے۔
اگر ایران نے حزب اللہ کو شام کی خانہ جنگی میں جھونکنے کی غلطی کی ہے اور اس کی طاقت و صلاحیت کو کمزور کیا ہے تو عرب ممالک نے حزب اللہ کی مخالفت کرنے کی غلطی کی ہے ۔ حزب اللہ کو اسرائیل سے لڑنا تھا اور وہ اپنے ہی بھائیوں سے نبردآزما ہے! امریکہ و اسرائیل ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی طاغوتی قوتوں کی یہ سازش ہے کہ مسلم ممالک کو آپس میں لڑایا جاتا رکھا جائے اور مسلمان اس سازش کا شکار ہوتے ہیں۔ یمن کی 1960ء کی دہائی کی خانہ جنگی، پاکستان کو تقسیم کرنا، ایران و عراق کی جنگ، کویت پر حملہ سب اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ حزب اللہ کی شام میں کارروائیوں کے خلاف اس پر دباؤ ڈالنے کے لئے کچھ اور بھی کرسکتے تھے لیکن اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ علامہ یوسف القرضاوی اور سعودی عرب کے مفتی اعظم اور دیگر عرب علماء کا حزب اللہ کی مذمت اور خلیجی ممالک میں حزب اللہ پر سختیاں اس کی حمایت کرنے والوں کا ملک سے اخراج اور اس پر الزام تراشیاں بلکہ حزب اللہ کو حزب الشیطان کہنا قابل قبول نہیں ہے بلکہ اسرائیل کی بالواسطہ مدد ہے۔ دوسری طرف ایران نے حماس کے خلاف کارروائیاں کرکے وہی کیا جو عرب ممالک نے حزب اللہ کو کمزور کرکے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو کمزور کرکے کیا ہے۔ پہلے اسد نے شام سے حماس کا خروج کیا پھر ایران جے حماس کو دی جانے والی 22ملین ڈالر کی امداد بند کردی ہے اور حماس کو اسلحہ کی فراہمی اور عسکری تربیت کا پروگرام منسوخ کرکے حماس کو زبردست نقصان پہنچایا ہے بلکہ اتنا نقصان تو عربوں نے حزب اللہ کا بھی نہیں کیا۔ حزب اللہ اور حماس کو کمزور کرنے کے لئے عرب ممالک اور ایران دونوں ہی مذمت کے مستحق ہیں۔ بشارالاسد نے اگر مسلمانوں کی نہ سہی صرف عربوں یا شام کی ایسی خدمت کی ہوتی تو ان کی حمایت کا کوئی جواز ہوتا۔ امریکہ کے ساتھ روس بھی شام میں غیر ضروری مداخلت کا مجرم ہے یہ سوال بھی اہم ہے کہ روس نے صدام حسین اور قذافی کی کوئی مدد کیوں نہیں کی جو بشارالاسد سے زیادہ روس کے دوست تھے؟ امریکہ کے خلاف روس نے عراق کی مدد نہیں کی۔ ایران کے خلاف بھی روس نے امریکہ کی تائید کرکے ایران پر پابندیوں کو عائد کروایا جبکہ وہ ویٹو بھی کرسکتا تھا۔ امریکہ کی طرح روس کی بھی شام میں نیت خرا ب ہے۔ دونوں ہی شام کی تباہی کے درپہ ہیں۔ اگر ایران و عرب ممالک تدبر، تحمل اور عالم اسلام کے خلاف جاری سازشوں کو سمجھ کر معاملہ فہمی سے کام نہ لیں تو شام پر بڑا برا وقت آسکتا ہے اور مسجد اقصیٰ کے لئے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔

***
rasheedmansari[@]ymail.com
موبائل : 9949466582
Flat No. 207, "Jahandar Towers" Rati Bowli, Mehdipatnam, Hyderabad-500028

Is Syrian civil war weakened the resistance against Israel? Article: Rasheed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں