اینٹ سپلائی کا کام کرنے والے رضیہ کے والد فرمان کو ابھی تک اپنی بیٹی کو ملنے والے "ملالہ ایوارڈ" کی اہمیت اور وقار کا اندازہ نہیں ہے۔ پھر بھی وہ اپنی بیٹی کی کامیابیوں سے پوری طرح مطمئن ہیں اور اس کی تمام خواہشات کو پورا کرنے کا عزم کر چکے ہیں جس میں دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے صحافت میں گریجویشن کرنا شامل ہے۔
فرمان نے بتایاکہ ان کی بیٹی رضیہ صرف 5 سال کی کم عمری میں اپنی چھوٹی اور نازک انگلیوں سے فٹ بال کی سلائی والے کام کے ذریعے اپنے خاندان کو مالی سہارا دیتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کم عمری میں ہی رضیہ کا نکاح کر کے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا چاہتے تھے لیکن ایک غیر سرکاری تنظیم "بچپن بچاؤ تحریک" کی طرف سے اس کو "بچہ مزدوری" سے آزاد کرانے کے بعد وہ خود بچہ مزدوری کرنے والے بچوں کو تعلیم دلانے کی کوشش میں لگ گئی۔ فرمان کہتے ہیں کہ اپنی اقتصادی حالت سے بڑھ کر انہوں نے رضیہ کو انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھایا اور اب وہ کرالی کے ایل ٹی آر پبلک اسکول میں 12 ویں جماعت کی طالبہ ہے۔ ان کا کہنا ہے دبے کچلے بچوں کی آواز اٹھانے اور ان کو تعلیم دلانے میں رضیہ کی کوششوں کو تکمیل تک پہنچانا اب ان کی زندگی کا مقصد ہے۔
جبکہ فرمان کی بیوی اور رضیہ کی بی اے پاس ماں زاہدہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی جس طرح پوری دنیا میں چھا گئی ہے، اس سے وہ اتنی خوشی ملی ہے جو کبھی نہیں مل سکی۔
اعتماد سے بھری رضیہ نے کہاکہ وہ مستقبل میں بھی سماج کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنانا چاہتی ہے۔ رضیہ کو احساس ہے کہ ذرا سی کوشش سے سماج میں بہت کچھ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے پاس کے اسکول میں پانی پینے کا انتظام کرنے کے علاوہ ضلع مجسٹریٹ سے مل کر لڑکیوں کیلئے الگ سے بیت الخلاء کا انتظام کرنے اور اپنے گاؤں کو محفوظ کرنے کیلئے سب کو ساتھ لے کر دیوار کھڑی کروا دینا جیسا کام رضیہ کیلئے آج کوئی نئی بات نہیں ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ پاکستان کی بہادر لڑکی ملالہ یوسف زئی کی آج 12/جولائی کو 16ویں سالگرہ کے ضمن میں اقوام متحدہ میں "یوم ملالہ" کے موقع پر پہلا "ملالہ ایوارڈ" ہندوستان کی تقریباً 16سالہ رضیہ کو ہی دیے جانے کا اعلان ہوا ہے۔
Meerut girl Razia Sultan receives first UN Malala Award
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں