گود گودیاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-28

گود گودیاں

God-GoodiaN
جب مجھے پہلی بار علم ہوا کہ مشہور صنعت کار اور ٹاٹا کمپنی کے بانی جے۔آر۔ ڈی۔ ٹاٹا لا ولد تھے اور انہوں نے رتن ٹاٹا کو گود لیا تھا تو رتن ٹاٹا کی قسمت پر بہت رشک آیا۔
"کاش، مجھے بھی کوئی کروڑ پتی گود لے لیتا۔"میں نے ایک دن حسرت آمیز سانس کھینچتے ہوئے کہا۔
"اپنے والدین کے سامنے اپنی اس حسرت کا اظہار مت کر بیٹھنا۔ باٹا کے اتنے جوتے سر پر پڑیں گے کہ ٹاٹا کا نام بھی بھول جاؤ گے۔"میرے دوست نے گویا مجھے محتاط کرتے ہوئے کہا۔
"ابے تو گود لئے جانے کے لئے یتیم ہوناکوئی ضروری ہے کیا؟"
میرے دوست نے مجھے یوں گھورا گویا میرا دماغ چل گیا ہو۔
"میں کمبھ کے میلے میں بھی تو کھو سکتا تھا، اور پھر وہاں سے یا تو براہِ راست یا پھر یتیم خانے کے راستے کسی "گولڈن گود" تک رسائی ہو سکتی تھی۔"
"نہیں ہوسکتی تھی۔" میرے دوست نے پُر یقین لہجے میں کہا: " کمبھ کے میلے میں کھونے کے لئے جڑواں بچوں کا ہونا ضروری ہے…اور پھر تمہارے داہنے ہاتھ میں تو ٹٹّو بھی بنا ہوا ہے۔کبھی نہ کبھی تو"رنگے ہاتھوں"پکڑے جاتے ہی۔بیس پچیس سال بعد زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اچانک یا تو تمہارا بھائی رقّت آمیز لہجے میں "بھیّا" کہہ کر لپٹ جاتا یا پھرماں اپنی بوڑھی آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ گلوگیر آواز میں "بیٹا" کہہ کر اپنی نحیف باہوں میں بھینچنے کی کوشش کرتی۔"
"یار، تم تو بڑے پتے کی بات کہہ رہے ہو۔ اتنا تجربہ کہاں سے حاصل کیا تم نے؟" میں نے اسے توصیفی نگاہوں سے دیکھتے ہوئےحیرت سےپوچھا۔
"میں نے ستّر، اسّی کی دہائی کی شاید ہی کوئی فلم چھوڑی ہو۔" میرے دوست نے فخریہ انداز میں کہا۔
پھر جب مجھے معلوم ہوا کہ رتن ٹاٹا کی بھی کوئی اولاد نہیں تو ایک دبی دبی سی خواہش دل میں اُبھری : کاش، اس بار میری باری ہو۔پھر اپنے اس احمقانہ خیال پر خود ہی ہنسی آگئی۔ روایت تو بچّہ گود لینے کی ہے۔اس عمر میں تو داماد گود لئے جاتے ہیں۔ویسے گود لئے گئے داماد بھی گھاٹے میں نہیں رہتے۔ یہ الگ بات ہے کہ رتن ٹاٹا کی طرح ان کے دامن ہیروں سے نہیں بلکہ "موتی" سے بھرے ہوتے ہیں جنہیں وقت وقت سے نہلانا، کھلانا اور گھمانا بھی پڑتا ہے! یہی وجہ ہے کہ جب کوئی کسی گھر جمائی کو "نکما، کام چور، بے شرم" اور "مفت خور" جیسےالقاب سے نوازتا ہے تو مجھے اس پر سخت اعتراض ہوتا ہے۔ "محنت مزدوری" کر کے کھانے والے ان لوگوں سے مجھ جیسے سرکاری نوکری کرنے والوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے۔
میرے آفس کے ایک چپراسی نے جب دوسری شادی کی تو میں اس کے کلیجے کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکا۔جب پتہ چلا کہ دوسری والی اپنے ساتھ جہیز میں ایک عدد ریڈی میڈ بچہ بھی لائی ہے تو کلیجے کے ساتھ اس کے دِل کی بھی داد دینے پر مجبور ہو گیا۔ اورجب چند مہینوں کے بعد بھی اس کے چہرے کی رونق اور بشاشت جوں کی توں قائم رہی تو میں اس "دل کلیجی" کو قوت بخشنے واے معجون کا راز جاننےکے لئے بےچین ہو گیا۔ بیوی کی روز روز کی مائیکے جانے کی دھمکیوں سے تنگ آ گیا تھا۔ اسے سبق سکھانا ضروری تھا۔
"وہ برسرِ روزگار ہے اور اس نے شادی سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ کسی قسم کی مالی ذمّہ داری کا بوجھ مجھ پر نہیں ڈالے گی۔" چپراسی نے رازدارانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
"اوہ، تو یوں کہو تم نے اس سے شادی نہیں کی بلکہ اس نے شوہر گود لیا ہے۔"میں نے مایوسانہ انداز میں زبردستی مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
اب بھلا ایسی "لا خاونداور باروزگار" بیگمات کتنی دستیاب ہیں؟
کچھ لوگ گود لینے کی بجائے گود دینے میں یقین رکھتے ہیں، اور یہ کوئی کم "دل کلیجی" کی بات نہیں ہے۔ بہت سے لوگ مرنے کے بعد بھی اپنی آنکھیں یا گردہ دان نہیں کرتے، دل تو بہت دور کی بات ہے (حالانکہ جوانی میں انہوں نے بیک وقت کئی افراد کو دل دینے، بلکہ بانٹنے یا یوں کہئےدونوں "آنکھوں سے"دل لُٹانے کی کوشش کی ہوگی)۔ گوددینے والے یہ لوگ اپنے "دل کے ٹکڑے"کسی کو دے کر جیتے جی ہارٹ ڈونیشنکا کارنامہ انجام دیتے ہیں۔میرے ایک دوست نے بھی اپنے دل کا ایک ٹکڑا دان کیا تھا کیوں کہ اوپر والے نے انہیں"ٹرائی وَن، گِٹ وَن فری" کے مصداق جڑواں بچوں کی شکل میں ایک فاضل اولاد بطور بونس عطا کیا تھا۔
جہاں تک گود لینے کا تعلق ہے، اولادوں کی طرح بڑی بڑی کمپنیاں اور ادارے بھی گود لئے جاتے ہیں۔ گھاٹے میں چل رہی صنعتوں کی "فضول خرچی " سے تنگ آکر سرکار انہیں پرائیوٹ کمپنیوں کے حوالے کر دیتی ہے جب کہ پرائیوٹ کمپنیوں کی بیمار صنعتوں کواچھی طرح دیکھ ریکھ کے لئے خود گود لے لیتی ہے۔
ابھی حال ہی میں کلکتے کے ایک اخبار کو دوسری بار کسی نے گود لیا۔ حالات اتنے ناسازگار ہیں کہ ایک دوسرے اخبار کو بھی مالکان کی کسمپرسی کی وجہ سے کسی اور کی گود میں پناہ لینی پڑی۔ اخبارات و رسائل گود لئےجانے کے سبب سب سے زیادہ فکر مند ملازمین ہوتے ہیں جنہیں اپنے گود میں پل رہے بچوں کے مستقبل کی فکر لاحق ہو جاتی ہےکیوں کہ نئے مالکان پتہ نہیں انہیں اپنا"ذاتی کام" آفس کے کمپیوٹر پر کرنے کی کھلی چھوٹ دیں گے بھی یا نہیں۔ اجازت اس لئے نہیں کہوں گا کہ وہ "جہاں چاہ وہاں راہ" کے مصداق کوئی نہ کوئی راستہ جلد یا بہ دیر نکال ہی لیں گےکیوں کہ اس "سائیڈ بزنس" کی آمدنی کے سامنے ان کی تنخواہ کی اہمیت"قرض کی قسط"سے زیادہ نہیں ہوتی!
گودیوں میں جنریشن گیپ (Generation Gap) بہت نمایاں ہوتا ہے۔ جو ہمیں گود میں لئے لئے نہ جانے کتنی راتیں آنکھوں میں کاٹ چکے ہوتے ہیں، ہم چند لمحوں کے لئے بھی گود میں لے کر انہیں ان کے بستر سے اُٹھا کر صبحسویرےدھوپ میں پڑی آرام کرسی میں بٹھانا گوارہ نہیں کرتے اور ا نہیں "اولڈ ایج ہوم" نام کے ماڈرن اجتماعی گود میں ڈال دیتے ہیں!ہم اپنے بچوں کی"خوشیوں" کے لئے رات بھر جاگ سکتے ہیں لیکن ان کی "کھانسیوں"کے لئے نیند میں ذرا بھی خلل برادشتکرنا پسند نہیں کرتے۔
ویسے بھی انسان کی پوری زندگی ایک گود سے نکل کر دوسری گود میں پہنچنے تک کے وقفے سے زیادہ نہیں۔ دونوں گودوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی گود میں ماں اس کے سوالوں کے جواب دیتی ہے جب کہ آخری گود میں اسے منکر نکیر کے سوالوں کے جواب دینے پڑتے ہیں۔اس وقفے کے دوران اگر محتاط نہیں رہے تو ان دونوں گودوں کے درمیان ایک تیسری گود میں بھی "لینڈ" کر نا پڑ سکتا ہے :

بیرون ملک میڈیکل ریسرچ کے دوران ایک نوجوان نے ایک ایسی دوا تیار کی جس کی ایک گولی کھانے سے آدمی کی عمر آدھی گھٹ جاتی۔ اس نے گولیوں کی ایک شیشی اپنے والدین کو بھجوائی۔ ریسرچ مکمل کرنے کے بعد جب وہ نوجوان اپنے وطن پہنچا تو دیکھا کہ گھر کے دروازے پر ایک خوبصورت نوجوان عورت ایک ننھے سے بچے کو لئے بیٹھی تھی۔ اس نے پوچھا:
"محترمہ، آپ کون؟
"ارے بیٹا، تو نے مجھے پہچانا نہیں؟ میں تیری ماں ہوں ماں، تیری دوا نے تو کمال کر دیا۔"
"اوہ۔" نوجوانذہنی جھٹکے پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا "لیکن ماں، یہ تمہاری گود میں بچہ کیسا ہے؟"
"ارے بیٹا، تو نے انہیں پہچانا نہیں؟ ہاں، تو انہیں پہچانے گا بھی کیسے ۔۔۔یہ تیرے باپ ہیں جنہوں نے مارے خوشی کے تین چار گولیاں کھا لی تھیں !!!
***

***
jawednh[@]gmail.com
موبائل : 9830474661
B-5, Govt. R.H.E., Hastings, 3, St. Georges Gate Road, Kolkata-22
جاوید نہال حشمی

God-GoodiaN - Humorous Essay: Jawed Nehal Hashami

1 تبصرہ:

  1. اس درجہ مزاحیہ مضموں کا اس قدر سنجیدہ اختتام ۔۔ بہت عمدہ جناب ۔۔

    جواب دیںحذف کریں