ویلور قلعہ مسجد - محکمہ آثار قدیمہ کی دوغلی پالیسی یا مسلمانوں کی بےبسی؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-28

ویلور قلعہ مسجد - محکمہ آثار قدیمہ کی دوغلی پالیسی یا مسلمانوں کی بےبسی؟

ویلور قلعہ کے مندر میں پوجا کی اجازت ! تو ویلور قلعہ میں موجود مسجد مسلمانوں کے حوالے کیوں نہیں ؟

ضلع ویلور ، قلعہ کے اندر واقع جلا گنڈیسور مندر کو تمل ناڈو حکومت نے 22 جون2013 سے ، دی ہندو ریلجس جاریٹیبل انڈومنٹس ڈیپارٹمنٹ کے انتظامیہ میں دید یا ہے۔ لیکن اے ایس آئی ، محکمہ آثار قدیمہ سے اسی قلعہ میں واقعہ مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دینے کامطالبہ جویہاں کے مسلمان پچھلے کئی دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں، اس پر کوئی کارروائی نہیں کر پائی ہے۔ یہاں بات مسجد مندر کی نہیں بلکہ آئین ہند میں دئیے گئے ان حقوق کی پامالی ہے، اور سراسر محکمہ آثار قدیمہ کی دو غلی پالیسی ہے۔ محکمہ کی اس پالیسی سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس ملک کے مسلمانوں کے ساتھ حکومتیں ہمیشہ دوسرے درجے کے شہری کے زمرے میں کیوں رکھنا چاہتی ہیں ؟ آئین ہند کی خلاف ورزی اور مسلمانوں کے ساتھ جانبدارانہ رویہ کا ثبوت ہمیں اس عظیم الشان ویلور قلعہ کی تاریخ پر نظر ڈالنے کے بعد ملتا ہے۔ ویلور قلعہ کی مختصر تاریخی پس منظر: مورخین نے لکھا ہے کہ ویلور قلعہ کی تعمیر 16 ویں صدی میں وجیا نگرہ سلطنت کے بادشاہوں چننا بمی ریڈی اور تمما ریڈی کے دور حکومت میں سن 1566 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ قلعہ کی ملکیت وجیا نگرہ سلطنت کے بادشاہوں سے ہوتے ہوئے، بیچابور سلطان، مراٹھاس، اور بعد میں آرکاٹ نوابوں اور آخرکار برٹش حکمرانوں کے ہاتھ چلا گیا۔اور یہ قلعہ ہندوستان آزاد ہونے تک برٹش حکمرانوں کے قبضہ میں رہا۔ اس کے علاوہ اس قلعہ کی خصوصیت اس سے بڑھ جاتی ہے کہ برٹش دور حکومت میں ٹیپو سلطانؒ کے خاندان کو شاہی قیدیوں کے طور پر اسی ویلور قلعہ میں بند کیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ برٹش حکومت نے اسی ویلور قلعہ میں سری لنکا کے آخری بادشاہ سری وکرما راجا سنگھا کوبھی قید میں رکھا گیا تھا۔ جب سن1799 کی جنگ ، جس میں ٹیپو سلطان انگریز وں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے، اور سری رنگا پٹنم برٹش حکمرانوں کے قبضہ میں چلا گیا، اس کے بعد شہید ٹیپو سلطانؒ کے خاندان جن میں ان کے بیٹے، بیٹیاں اور شہید ٹیپو سلطان ؒ کی بیوی اور سلطان حیدر علی کی بیوہ کو اسی ویلور قلعہ میں مقید رکھا گیا۔اور سن 1806 کی مشہور سپائی بغاوت کے بعد برٹش حکومت نے ٹیپو سلطان ؒ کے بیٹے اور بیٹیوں کو کولکاتہ منتقل کردیا۔ 10 جولائی سن 1806 ، کی سپائی بغاوت جس میں 15 برٹش افسران اور تقریبا 100 سے زیادہ برٹش سپاہی ہلاک ہوئے تھے، اور اسی شام کو تقریبا 800 باغی سپاہی بھی شہید کر دئے گئے تھے۔ ا س بغاوت کا ذکر کرتے ہوئے مورخین لکھتے ہیں کہ اس بغاوت کی قیادت شہید ٹیپو سلطانؒ کے بیٹوں نے کی تھی۔ اسی لیے برٹش نے عدالتی انکوائری کے بعد ٹیپو سلطان ؒ کے بیٹے اور بیٹیوں کو کولکاتہ منتقل کردیا گیا تھا۔ اسی ویلور قلعہ کے ایک کلو میٹر کے دوری پر سلطان حیدر علی کی بیوہ بخشی بیگم، ٹیپو سلطان ؒ کی بیوہ بادشاہ بیگم سمیت ٹیپوسلطانؒ کے اہل خاندان اور ان کے فوجی کمانڈر س کے کئی مقبرے موجود ہیں۔ ( ٹیپو سلطان شہیدؒ کے اہل خاندان کے قبرستان کی زبوں حالی پر روزنامہ راشٹریہ سہار ا 24.06.2011 کے شمارہ میں صفحہ نمبر 8 پر خصوصی رپورٹ دیا گیا ہے)۔ ویلورمیں موجود مذکورہ عظیم الشان قلعہ کے اندر موجود مسجد کی تعمیر سن 1750 سے قبل نواب آف آرکاٹ کے آخری دور میں تعمیر کی گئی تھی، مسجد کے دیورایں گرانائیٹ پتھر اور چونے اور اینٹوں کے مرکب سے تعمیر کی گئی ہیں۔سب سے زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ سن 1921 میں اے ایس آئی (Archaelogical Survey Of India) نے ویلور قلعہ میں موجود جلا گنڈیسور مند ر، ویلور قلعہ کی مسجد، اور ایک چرچ سمیت جملہ 138ایکر زمین کو اپنے زیر تحفظ کر لیا۔اور قدیم یادگاروں کو محکمہ آثار قدیمہ نے ، قدیم یادگار بحالی ایکٹ 1904,1952اور 1958کے تحت ویلور قلعہ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اور محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اس قلعہ کو اپنے تحویل میں لیا تھا، اس وقت مسجد میں نماز نہیں ادا کی جاتی تھی۔ لہذا آثار قدیمہ کی جانب سے آج بھی اس مسجد میں مسلمانوں کو نماز ادا کرنے پر پابندی بر قرار ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضرور ی ہے کہ جب آثار قدیمہ نے سن 1921 میں ویلورقلعہ کو اپنے تحویل میں لیا تھا، اس وقت اس قلعہ میں موجود جلا گنڈیسور مندر میں بھی پوجا نہیں ہور ہی تھی۔ ویلورشہر کے ساکنوں نے بھی محکمہ آثار قدیمہ سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں قلعہ میں موجود مندر میں پوجا کرنے کی اجازت دیں۔ لیکن اس مطالبہ کو بھی محکمہ آثار قدیمہ نے ماننے سے انکار کردیا۔ لیکن عوام نے محکمہ آثار قدیمہ کے احکامات ماننے سے انکار کردیا اور آخر کار 16مارچ 1981کو عوام نے ویلور قلعہ کی جلا گنڈیسور مند ر میں پوجا شروع کردیا۔ حیرت کی بات ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اور صرف ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو اس سے متعلق شکایت کرنے تک اکتفا کرلیا۔ ضلعی انتظامیہ نے بھی اس شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ اس کو ایک حساس مذہبی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہہ دیا کہ اگر اس پر کارروائی کی جائے گی تو نظم ونسق بگڑنے کے امکانات ہیں۔ سن 1981سے لیکر ویلور قلعہ میں موجود جلا گنڈیسور مندر میں پوجا ہورہی ہے۔ لیکن شہر اور ضلع کے مسلمان کئی دہائیوں سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ویلور قلعہ کی مسجد مسلمانوں کے حوالے کی جائے، اس کے باوجود محکمہ آثار قدیمہ اپنے موقف پر اٹل ہے ۔ مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر احتجاج : ٹی ایم ایم کے ، سربراہ ایم ایچ جواہر اللہ نے 3 مارچ 2008 کو ویلور شہر میں منعقد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمان ویلور قلعہ کی مسجد کو آباد کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے مطالبہ کرتے آرہے ہیں، شہر کے مسلمانوں نے اس سلسلے میں ریاستی حکومت، مرکزی حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ کو کئی یاد داشت اور عرضیاں بھی بھیجیں، لیکن کہیں سے بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ انہوں نے اس پریس کانفرنس میں اے ایس آئی ڈائرکٹر کے خط ، ڈی او نمبر 20/02/05M کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس خط میں اے ایس آئی ڈائرکٹر نے لکھا تھا، جس وقت ویلور قلعہ کو آثار قدیمہ نے حفاظت کے لیے اپنے تحویل میں لیا تھا، اس وقت مسجد میں نماز ادا نہیں کی جارہی تھی۔ لہذا اس مسجد کو عبادت کے لیے دوبارہ کھولا نہیں جاسکتا ہے۔ ایسے میں مسجد کے status quo کو اسی حالت میں برقرار رکھا جائے گا۔ جس کو ٹی ایم ایم کے سربراہ جواہراللہ نے اے ایس آئی کی صریح امتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب اے ایس آئی نے قلعہ کو اپنے تحویل میں لیا تھا ، تب مندر اور چرچ میں بھی پوجا نہیں ہورہی تھی۔ اس کے علاوہ جب اے ایس آئی نے قلعہ کو اپنے تحویل میں لیا تھا تب اس قلعہ میں ایک بھی سرکاری دفتر نہیں تھا، اور آج اسی قلعہ کے اندر 48 سے زیادہ سرکاری دفاتر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس پریس کانفرنس کے دوران اے ایس آئی کو انتباہ کیا تھا کہ اگر 30 اپریل 2008 تک اس مسجد میں مسلمانوں کو عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو 9 مئی 2008 کو ٹی ایم ایم کے کی قیادت میں ہزاروں مسلمانوں نے اس قلعہ کا محاصرہ کریں گے۔ اس پریس کانفرنس اور انتباہ کے بعد بھی اے ایس آئی اپنے فیصلے پر اٹل رہی ۔ اور مسلمانوں کو اس مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ 9 مئی 2008، مسلمانوں کا قلعہ کا محاصرہ : 9مئی کو جمعہ کے دن حسب اعلان ٹی ایم ایم کے سربراہ ایم ایچ جواہرا للہ کی قیادت میں تقریبا 15ہزار سے زیادہ مسلمانوں نے ویلور قلعہ کا محاصرہ کیا۔ واضح رہے کہ اس دن اے ایس آئی نے قلعہ میں داخل ہونے پر پابندی لگادی تھی۔ لیکن مسلمانوں نے اس پابندی کی مزاحمت کرتے ہوئے ، قلعہ کے اطراف ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوگئے۔ حفاظتی انتظامات کے طور پر ہزاروں پولیس اہلکار اور پانی کا استعمال کرکے ہجوم کو ہٹانے کے لیے دس سے زائد وجرا وین تیار کھڑے کر دئے گئے تھے۔ جمعہ کا دن اور مسلمان پورے جوش و خروش میں اس احتجاج میں اسی نیت سے شریک تھے کہ آج قلعہ کی مسجد میں نماز ادا کرکے ہی جائیں گے۔ اور جب 11.45بجے ٹی ایم ایم کے سربراہ جواہراللہ اور دیگر مسلم قائدین نے قلعہ کے اندر جانے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔ ان کے گرفتار کئے جانے کے بعد قلعہ کے اطراف جمع مسلمان بے قابو ہوگئے، اور موقع کی نزاکت اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ٹی ایم ایم کے قائدین نے یہاں جمع مسلمانوں سے درخواست کیا کہ وہ نظم و ضبط کا خیال رکھتے ہوئے جمعہ کی نماز آفیسرس لین اور بنگلور روڈ پر ادا کرکے اپنے گھروں کو واپس ہوجائیں، اسی وقت ٹی ایم ایم کے سربراہ کو فون پر ثقافتی وزیر امبیکا سونی نے یقین دلا یا تھا کہ وہ ویلور قلعہ کی مسجد کے معاملے میں مناسب اقدام کریں گی۔ ان کے یقین دہانی کے بعد ٹی ایم ایم کے سربراہ جواہراللہ نے یہاں جمع ہزاروں مسلمانوں سے کہا تھا کہ یہ احتجاج اور محاصرہ صرف مشق کے طور پر کیا گیا ہے، اور وہ دن دور نہیں کہ ویلور قلعہ کی مسجد میں نماز ادا کی جائے گی۔ انہیں جملوں کے بعد ہزاروں کی تعداد میں جمع مسلمانوں نے پرامن طریقے سے جمعہ کی نماز ادا کیا، اور پولیس کی تیار کھڑی وینوں میں اپنے آپ کو گرفتار کروایا۔ اور آج بھی اس مظاہرے میں شامل ضلع کے ہزاروں مسلمان اسی امید کے ساتھ بے بسی سے اس دن کا انتظار کررہے ہیں، جس دن ان کو ویلور قلعہ کی مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت حاصل ہوگی ؟ وقت کا تقاضہ ہے کہ اس معاملہ میں ریاست کی سبھی مسلم لیڈران اور تنظیمیں ملکر اس مسجد کی بازیابی کی جد و جہد کریں۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں