--
نئے خیالات کو موزوں الفاظ میں پرو کر اردو شاعری کو نیا چہرہ دینے والے مشہور و معروف شاعر اخلاق محمد خاں شہریار ادب کے ایسے علمبردار تھے جنہوں نے اپنی نظموں، غزلوں اور فلمی گیتوں کے ذریعہ اردو کو نیا لب و لہجہ عطا کیا۔ اترپردیش کے بریلی میں16 جون 1936ء کو پیدا ہوئے شہریار نے شاعر، نغمہ نگار، صحافی اور ٹیچر کے کردار کو بخوبی نبھایا۔ شہریار کی شخصیت کے بارے میں معروف شاعر بیکل اتساہی کا کہنا ہے کہ وہ ایک اچھے شاعر منکسر المزاج اور اچھے کردار کے مالک تھے۔ انہوں نے خاص طور سے اپنے فلمی گیتوں کے ذریعہ پردے پر خوشی، غم، جدائی اور رسوائی کے درد کو اردو کی نزاکت بھرا انداز دیا۔ انہوں نے بتایاکہ شہریار اپنے نام کی مناسبت سے نظم اور نثر کے شہنشاہ تھے لیکن انہیں زیادہ شہرت اپنے شعری مجموعے سے نہیں بلکہ فلمی گیتوں کے گلدستے کی وجہہ سے ملی۔ شہریار نے 1972ء میں آئی میوزیکل سپرہٹ فلم "پاکیزہ" کے بعد ’امراؤ جان، فلم میں "دل چیز کیا ہے، آپ مری جان لیجئے،۔ سمیت متعدد بہترین اور دلکش گیت لکھ کر اس فلم کے موسیقار قیام کی مراد پوری کی تھی۔ اس فلم کے گیت آج بھی لوگوں کے ذہن پر چسپاں ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر رہے شہریار کے معاون پروفیسر یاسین مظہر نے ایک ٹیچر کے طورپر اس شاعر کے کردار کے بارے میں بتایاکہ اخلاق خاں اپنے نام کی مناسبت سے بہترین اخلاق کے مالک تھے۔ اخلاق خاں شہریار کو ایک شاعر کے طورپر نکھارنے میں معروف ادیب خلیل الرحمن اعظمی کا اہم رول رہا ہے۔ شہریار نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں روزی روٹی کی خاطر اردو پڑھانا شروع کیا تھا اور بعد میں انہوں نے وہیں آگے کی تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ شہریار 1986ء میں پروفیسر بنے اور 1996ء میں شعبہ اردو کی ہیڈ شپ پر سے ریٹائرڈ ہوئے۔ وہ ادبی میگزین شعر و حکمت کے مدیر بھی رہے۔ شہریار کی اننگ حالانکہ کچھ فلموں تک ہی محدود رہی، لیکن جتنی بھی رہی اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ انہوں نے گمن، فاصلے، انجمن اور امراؤ جان کو اپنے نغموں سے سجایا۔ ان کی غزلیں، دل چیز کیا ہے، یہ کیا جگہ ہے دوستو!، اور ان آنکھوں کی مستی کے ، جیسے گیت بالی ووڈ کی بہترین تخلیقات میں شمار کئے جاتے ہیں۔ شہریار کی نظموں کی پہلا کلکشن ’اسم اعظم،1965ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ہجر کے موسم اور خواب کے در بند ہیں، بھی منظر عام پر آئے۔ شہریار کو 1987ء میں ساہتیہ اکادمی اور 2008ء میں گیان پیٹھ ایوارڈ دیا گیا۔ شہریار نے 13فروری 2012 کو علی گڑھ میں آخری سانس لی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں