مدرسہ جامعۃ الابرار دھرمپوری کا عظیم الشان جلسہ دستار بندی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-12

مدرسہ جامعۃ الابرار دھرمپوری کا عظیم الشان جلسہ دستار بندی

مدرسہ جامعۃ الابرار دھرمپوری کا عظیم الشان جلسہ دستار بندی
قوموں کے عروج وزوال کا فیصلہ قرآن پاک کے مطابق ہو تا ہے مگرامت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ96 فیصد مسلمان قرآن پڑھنا تک نہیں جانتے مدرسہ جا معتہ الابرار کے دوسرے جلسہ دستار بندی سے علماء کرام کا فکر انگیزخطاب

مدرسہ جامعۃ الابرار کا دوسرا عظیم الشان جلسہ دستار بندی بمقام مسجد نور محمد پو رہ مدیگون پا لیم دھرمپوری منعقد ہوا۔ جلسہ کی پہلی نششت عصر بعد منعقد ہو ئی ۔ جسکا افتتاح مدرسہ کے طالب علم محمد سلیمان ترپا توری کی قرات اور محمد شیاز پا لکوڈ کی نعت پاک سے ہو ئی ۔ بعدہ طلباء نے بہترین انداز میں بزبان فارسی ، ٹمل ، اور اردو تقریریں پیش کیں ۔ اور دلچسپ مکالموں سے سامعین کا دل موہ لیا ۔ بعد نماز مغرب جلسہ کی دوسری نششت کا آغاز جامعہ ہذا کے استاذ مفتی محمد مدثر قاسمی کی قرات اور مو لوی ابرار علی مظاہری کی نعت پا ک سے ہوا۔ بعدہ بانی و مہتمم جا معتہ الابرار محمد اویس قاسمی نے خطبہ استقبالیہ و سالانہ تعلیمی رپورٹ پیش کیا ۔ مہمان خصوصی مفتی اکرم صاحب قاسمی، مہتمم مدرسہ اکرم المدارس ، ننگلی کرناٹک نے تقاریر کا سلسلہ شروع کر تے ہو ئے کہا کہ قرآن کی نسبت پر جمع ہو جا نا جنّتی ہو نے کی علامت اور باعث نجات ہے ۔ آج لو گ کسی بھی عنوان پر جمع ہو جا تے ہیں ، لیکن قرآن کے لئے جمع ہو نے کی فرصت نہیں ملتی ۔ یہ سراسر ظلم ہے ۔ انہوں نے فرمایا کہ ملت اسلا میہ جن شکستہ حالات سے گزر رہی ہے، ان سے چھٹکارا اسی حالت میں ہو سکتا جب یہ قرآن کے حقوق کی ادائیگی میں حتی الوسع کوشان رہیں۔ مو لا نا قاسمی نے فرمایا کہ یہی وہ کتاب ہے، جسکی بنیاد پر خدا قوموں کے عروج وزوال کا فیصلہ فر ماتے ہیں ۔ اسکی ایک نظیر پیش کر تے ہو ئے فر مایا کہ مدینہ میں سلام بن جا بر نامی ایک یہودی رہتاتھا۔ جس نے ایک غلام خریدا اور اسکو دوبارہ فروخت کر نے کے لئے بازار لایا اور گھنٹوں دھوپ میں کھڑا رہا مگر کو ئی گا ہک نہ ملا کیونکہ وہ غلام شکل و عقل دونوں اعتبار سے کورا تھا۔ بعد مدت ثبیتہ نا می ایک نیک خاتوں نے اس غلام کو خریدا ۔ مذکو رہ خاتون کا نکاح ایک آ دمی سے ہوا۔ نکاح کے بعد دو نوں میاں بیوی مسلمان ہو گئے ۔ انہی دیکھ کر یہ غلام جس کا نام سالم تھا وہ بھی مسلمان ہو گیا ۔ اور قرآن پا ک کی بہترین تعلیم حاصل کرلی اور عمدہ قرآن پڑھنا سیکھ لیا ۔ اس موقع پر نبی ﷺ نے فر ما یا کہ اللہ نے سالم کے دل کو خدا اور اسکے رسول کے محبت سے بھر دیا ہے ۔ سالم کا مرتبہ اتنا بڑھا کہ حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابہ انکی اقتداء میں نماز پڑ ھنے لگے ۔ ایک تھا غلامی کا بدترین زمانہ اور دوسرا یہ دور بھی دیکھنے کو ملا کہ قر آن کے بل بوتے پر امامت کا عظیم رتبہ ملا ۔ مولانا نے کہا کہ آج دنیا کی تعلیم کے نام پر بچوں سے فطری حیا و اخلاق کو نکا لا جا رہا ہے ، یہانتکہ بچے خدا اور رسول سے بھی نا آشنا بنتے جا رہے ہیں ۔ بعدہ صدر جمعیتہ علماء کر ناٹک حضرت مو لا نا مفتی افتخار احمد قاسمی ،مہتمم، مدرسہ تعلیم القرآن، بسم اللہ نگر،بنگلور نے اپنے پر مغز خطاب سے سامعین کو محظوظ کر تے ہو ئے کہا کہ انسان کی قیمت ذاتی طور پر کچھ نہیں ۔ صرف علوم و معارف ، اخلاق و صفات کی بنیاد پر ہی انسان کی قیمت کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے ۔ ورنہ تن من دھن کے شہ سوارتو دنیا میں بے شمار نظر آئینگے لیکن اندورونی کمالات اور اخلاق وصفات سے بے بہرہ ہونگے ۔ انکی حیثیت خس وخاک سے زیادہ نہیں ۔ مفتی صاحب نے کہا کہ لو گ دین کو عقل کے تابع بنانا چاہتے ہیں ۔ حا لانکہ شریعت عقل کے دائرہ میں آ نے والی چیز نہیں ۔ پھر بھی شریعت کے بہت سارے احکامات عقل سلیم سے سمجھے جا سکتے ہیں ۔ خدا اور اسکے رسول کے احکا مات کے سامنے عقل کو دیوار پر دے مارنا چاہیے۔ قرآن وحدیث کا مرتبہ سب سے اعلی و بالا ہے ۔ صرف وہی قابل عمل اور لا ئق تقلید ہے ۔ بعدہ حضرت مولانا این ۔ اے عبد الرحیم صاحب دا مت برکاتم ، مہتمم مدرسہ اسوہ الحسنہ ، پلّا پٹّی نے اپنے کلیدی اور صدارتی خطاب میں یہ واضح کیا کہ یہ کلام صر ف حفاظ کے لئے نہیں ہے ۔ بلکہ یہ کتاب تو سب کے لئے ہے۔ قرآن تو واسطہ اور ذریعہ ہے اللہ کی معرفت کا ، خالق کا ئنات کے متعلق جاننے کے لئے اسکے کلام کو پڑھنا ضروری ہے ۔ اس کے بغیر خدا کی معرفت نا ممکن ہے ۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعا لی نے ہر دور میں ہر نبی کے ساتھ اپنا کلام نازل فر مایا ۔ دعوت دین کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو اخلاق قرآن سے متصف کریں ۔ قرآن اور احکامات قرآن کو اپنے رگ وپے میں پیوست کریں ۔ اقوام عالم کے سامنے قرآن کا تعارف یہی ہے۔ اسی لئے حضرت سلمان فارسی کو قرآن کا تعارف قرار دیا ۔ حضرت عمر کے دور میں ایک آدمی قرآن دیکھنا چاہتا تھا، اس کے سامنے حضرت سلمان فارسی کو پیش کیا گیا، کیونکہ انکا چلنا ، پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا، کاروبار ، تجارت ، لین ، دین سب کچھ قرآن کے مطابق تھا ، صرف حضرت سلمان فارسی ہی نہیں ، بلکہ تمام صحابہ قر آن پا ک کے مطابق اپنی زندگیوں کو سنوار تے تھے ۔ لیکن آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ امت مسلمہ میں صرف چار فیصد آدمی قرآن پا ک پڑھنا جانتے ہیں ۔ کتنے افسوس کی بات ہے ۔ وہ کلام جسے پڑھ کر ، سمجھ کر اور عمل کر کے سرخروئی حاصل کی جائے، اسی سے امت مسلمہ کو ری ہے ۔ حالانکہ قرآن ہر اعتبار سے سراسر فائدہ ہی فائدہ ، نفع ہی نفع ہے ۔ تلاوت ، سماعت ، تفہیم و تذکیر، سوچ و فکر ، عمل و دعوت سب عبادت ہی عبادت ہے ۔ اس اجلاس میں ہم حفاظ کو مبارک باد دینے کے لئے جمع ہو ئے ہیں ، لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہمارا بھی قرآن کے ساتھ تعلق ہے ہمیں اسکا حق ادا کر نا چا ہیے قرآن کی طاقت جاننے کے لئے قرآن سے تعلق ضروری ہے ، ورنہ اسکی طاقت کا ندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔ جیسے بجلی کا اندازہ ، ہاتھ لگنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے ، اسی طرح قرآن کے تعلق سے صفات قرآن بنتے چلے جا تے ہیں ۔ قرآن پڑھتے پڑھتے ، سوچھتے سوچھتے ، عمل کر تے کر تے ، اللہ کا بندہ اللہ کے رنگ میں رنگتا چلا جا تا ہے ۔ اگر آج ہم عہد کر تے ہیں کہ ہم قرآن پاک کی تلاوت ، تفہیم و تذکیر کے بعد عمل بھی کرینگے تو آج کا یہ اجلاس قابل مبارک باد اور کا میاب ہے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں