Lawyers should be depicted as socially responsible citizen: Altamas Kabir
چیف جسٹس آف انڈیا التمش کبیر نے کہاکہ وکلاء کی شبیہ کو جنہیں "ڈبوں میں بند حریص اور دغا باز افراد تصور کیا جاتاہے، سماجی طورپر ذمہ دار شہریوں، کی حیثیت سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے یہاں کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے اساتذہ و طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وکلاء کو حریص اور دغا باز افراد کے طورپر پیش کیا جاتا ہے۔ اس شبیہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ وکلاء کو یہ بتانا ہوگاکہ وہ بھی سماجی طورپر ذمہ دار شہری ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آپ (وکلاء) کو قانونی امداد فراہم کرنے کے کام میں حصہ لینا چاہئے۔ وکلاء کی بھی کچھ سماجی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ قانون کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر آپ صرف اپنے لئے عمل کریں بلکہ سماج کیلئے بھی اسے کام میں لانا چاہئے۔ جسٹس کبیر نے کہاکہ تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں لاء گریجویٹ کیلئے بے شمار راستے یا متبادلات ہیں لیکن انہیں سماج کیلئے خدمات انجام دینے کی اپنی کوشش کرنی چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ لاء گریجویٹ کیلئے جو متبادلاد یا راستے ہیں ان میں اعلیٰ تعلیم اور کارپوریٹ دنیا شامل ہے۔ انہوں نے کہاکہ انٹرنیٹ کی ایجاد کی وجہہ سے قانون کے کورسس میں بھی اسپیلائزیشن ممکن ہوگیا ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ دستاویزات کی صدارت کو اجاگر کرنے کے مقصد سے شروع کیا گیا تھا۔ ڈیجیٹل دستخط بھی اس میں شامل تھے۔ اس قانون میں ترمیم کرنی پڑی تاکہ فنی ترقی کا استعمال کیا جاسکے جس کے نتیجہ میں قانون میں پروفیشنل ازم پیدا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وہ ترجیحی اساس پر کشمیر کلرکس کی حیثیت سے تقرر کا کام شروع کریں گے لیکن آپ کو بھی تعاون کرنا ہوگا۔ آپ کو دہلی آنا ہوگا اور وہاں کم ازکم ایک سال تک قیام کرنا ہوگا۔ ان سے خواہش کی گئی تھی کہ کشمیر یونیورسٹی کے طلباء کو سپریم کورٹ کے ججوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں