نئے ادب کے تار و پود - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-03

نئے ادب کے تار و پود

[بشکریہ : سہ ماہی اثبات ، شمارہ:12-13]
نئے ادب کے تار و پود کو مد نظر رکھ کر ان مضامین کا جائزہ لیا جائے جو نیا ادب پیش کرتا ہے تو پہلی بات یہ نظر آئے گی کہ نوجوان مرد یا عورت کے سامنے زندگی بحیثیت مجموعی نہیں ہوتی بلکہ اس کا صرف ایک پہلو ہوتا ہے یعنی جنسی اشتہا کی تسکین کیوں کر ہو۔ بقول غالب کہ ،اگر نہ ہو تو کہاں جائیں، ہو تو کیوں کر ہو۔ آخر شعر و ادب کا مستقل موضوع جذبے کی تسکین یا نمائش کیوں ہو؟ اس جذبے کا میں قائل ہوں لیکن اس حد تک نہیں کہ اس کو زندگی اور زندگی کی اعلیٰ سرگرمیوں کا بجائے خود ماحصل قرار دے دیا جائے۔ اس جذبے کی ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے سے انسان کے اعلیٰ فضائل اور اس کی کارکردگی ماند پڑ جاتی ہے۔ نوجوانوں میں جو اس وقت ایک طرح کی واماندگی اور بیزاری ملتی ہے، اس کا سبب بڑی حد تک یہی ہے کہ انھوں نے جنسی جذبے کو بہت اہمیت دے رکھی ہے اور جوانی کو صرف جنسی میلانات و مطالبات کا مترادف سمجھ لیا ہے۔ اسی نشے میں وہ اپنی ہر طرح کی الجھنوں اور کلفتوں کو بھلاتے رہتے ہیں۔ اس کا ردعمل زندگی کے اعلیٰ مقاصد کو ان کی نظروں میں بے نور بنادیتا ہے۔ وہ زندگی کی ذمے داریوں اور صعوبتوں کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہ جاتے اور زندگی کی اعلیٰ قدروں کا احترام کرنے سے معذور ہو جاتے ہیں۔ جوانی کا نوحہ جس طرح اور جس شدت سے اردو شعرا بالعموم اور "نئے ادب" کے پیرو بالخصوص کرتے ہیں، اس کی مثال کسی دوسری قوم یا کسی دوسرے شعر و ادب میں نہ ملے گی۔ جوانی کا یہ تصور اور جوانی کے ساتھ یہ سلوک میرے نزدیک سفاکی اور بزدلی ہے۔

نئے ادب میں جنسی ترغیبات آخر اس درجہ دخیل کیوں ہو گئی ہیں؟ غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ اس جذبے کی تسکین میں خواہ وہ کسی نوعیت کی ہو، بڑی لذت ہے اور یہ لذت آسانی سے سستے داموں مل جاتی ہے۔ اس سے شعر و ادب میں شہرت پانے کے مواقع جلد اور آسانی سے مل جاتے ہیں، ایسی شہرت جس کا مدار تمام تر گاہک کی کمزور ی پر ہے، نئے مال کی خوبی پر نہیں۔ اس کی مثال ایک چالاک باورچی کی ہے ، جو کھانے میں مرچیں تیز کر دیتا ہے اور برف کا پانی مہیا کردیتا ہے تاکہ مرچ کی تیزی سے کھانے کے بھلے برے ہونے کی تمیز نہ ہو سکے اور مرچ کی تیزی رفع کرنے کی خاطر بار بار پانی زیادہ پیا جائے تو کھانا کم کھایا جائے۔

جس طرح اخبارات میں ہم قتل کی خبر سنتے ہیں تو معاً خیال آتا ہے کہ عورت تو بیچ میں نہیں ہے اور اکثر و بیشتر یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوتا ہے، اس طرح نئے ادب کا کوئی افسانہ یا نظم آپ پڑھنا شروع کریں تو آپ کو عورت کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں ضرور نظر آ جائے گی۔ عورت ہی کے گرد افلاس، انقلاب، دہریت، بیزاری اور بد توفیقی کی داستانیں پھیلی ہوں گی یا افلاس و انقلاب وغیرہ میں عورت پیوست ملے گی۔ بجائے خود یہ مضامین ایسے ہیں جن میں بیزار، مایوس الحال اور کم پڑھے لکھے ادیبوں، شاعروں اور ان سے زیادہ گئے گزرے سامعین یا قارئین کے لیے بڑی کشش ہے۔

آپ نے گلیوں اور سڑکوں پر عطائیوں کو دوائیں بیچتے دیکھا ہوگا، تفریحاً ان کا خطبۂ صدارت بھی ناگفتنی امراض و ناشدنی مجربات پر تھوڑی دیر تک ضرور سنا ہوگا۔ ظاہر ہے یہ بزرگ کیا ہیں، کیسے ہیں اور ان کے مجربات کی کیا حیثیت ہے، لیکن وہ جن امراض کے نام سے اپیل کرتے ہیں یا جن طاقتوں کے عود کر آنے کی بشارت دیتے ہیں، ان میں کوہ ندا جیسی کشش ہے، اس لیے بقول ایک ستم ظریف "ہم ہوئے کہ میر ہوئے۔ انھیں مرضوں کے سب اسیر ہوئے۔"

لکھنے والے انھیں باتوں پر اکتفا نہیں کرتے، وہ اپنی ناگفتنی کو بھی بڑے شوق سے اور مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ اس سے مصنف خود اپنی تحلیل نفسی پیش کرتا ہے ۔ اس تحلیل نفسی کے شوق میں وہ ایسی ایسی مکروہ باتیں خود اپنے بارے میں لکھ جاتا ہے ، جن کو سن کر طبیعت مالش کرنے لگتی ہے۔ یہ بات بھی بڑے لوگوں سے لیکن مسخ ہو کر ان تک پہنچی ہے، جس طرح یورپ کے مطلق العنانوں نے ہمارے چھوٹے بڑوں میں فرعونیت پیدا کردی ہے، اسی طرح بعض بڑے لوگوں نے جو اپنی خود نوشت سوانح حیات لکھی ہیں، ان کی ریس میں یہ نوجوان ان گھناؤنے واقعات کو پیش کرتے ہیں جو کبھی یا اوائل عمر میں ان کو پیش آئے تھے۔ اس کا اثر ہمارے ادب اور سوسائٹی دونوں پر بہت برا پڑرہا ہے۔ اسے نفسیاتی تحلیل نہیں، ماؤف و متعفن ذہنیت کی نمائش کہتے ہیں۔ یہ محض اپنی شخصیت اور انشا پردازی کا پروپیگنڈا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی فقیر، تضرع اور لجاجت میں اثر نہ پاکر، اپنے پوشیدہ سڑے گلے زخموں کی نمائش کرے اور لوگ ترس کھا کر نہیں تو بدحواس و بد حظ ہو کر اسے کچھ دے دلادیں۔ یہاں بھی یہ عذر پیش کیا جائے گا کہ سوسائٹی میں یہ گھناؤنی باتیں ملتی ہیں ، اس لیے ان کے جتانے اور بتانے کی ضرورت ہے۔ مگر کوڑھی اور اس طرح کے لوگوں کے لیے میونسپل قوانین اور میونسپل انتظامات بھی ہیں، یعنی یہ آبادی سے دور رکھے جائیں اور گلی کوچوں میں گھومنے پھرنے نہ دیے جائیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ اس طرح کے مضامین شعر و ادب میں نہیں، بلکہ اسپتالوں کی فائلوں میں رکھے جائیں جن سے ڈاکٹر کو فائدہ پہنچے، ہندوستان کو نقصان نہ پہنچے۔ اعتراف گناہ بالعموم گناہ سے تائب ہونے کے لیے کیا جاتا ہے، نہ یہ کہ گناہ کو گنا ہ کا عذر بتایا جائے۔

فحاشی اور عریاں نگاری میرے نزدیک فن نہیں، بد کرداری ہے۔ اس عیب سے قدیم اردو شعرا کا دامن بھی پاک نہیں ہے۔ عربی فارسی کا بھی یہی حال ہے، لیکن گذشتہ اور موجودہ میں ایک فرق بھی ہے۔ پرانے شعرا فحاشی کو فحاشی ہی سمجھتے تھے، ادب ، زندگی یا آرٹ نہیں سمجھتے تھے۔ پھر یہ کیا ضرور ہے کہ جو بات نا معقول ہو، وہ اس لیے معقول ہو جائے کہ اس کے مرتکب پہلے بھی گذرے ہیں؟ فحاشی کو کبھی نہیں سراہا گیا ہے۔ یورپ میں بعض مشہور مصنف ایسے گذرے ہیں جنھوں نے جنسیات پر مستقل تصانیف شائع کی ہیں۔ بعضوں نے اپنا نقطۂ نظر طبی (فنی) رکھا ہے، اور بعضوں نے ناول اور افسانے کے پیرائے میں جنسیاتی مسائل پر بحث کی ہے۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ ان لوگوں کا نقطۂ نظر وہ نہیں ہوتا جو ہمارے ادیبوں کا ہے اور نہ وہ ان مسائل کو اس بے ہودگی اور بھونڈے پن سے پیش کرتے ہیں جیسا ہمارے ہاں دیکھنے میں آتا ہے۔

انشا پردازی میں یورپ کے مصنفین یقیناًہم سے بہت بلند ہیں، ان کے ہاں بڑا سخت مقابلہ ہے۔ دوسرے درجے کا مصنف وہاں تمام عمر نہیں پنپتا۔ یورپ میں ہر فن کے باکمال سوسائٹی میں موجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہر شخص کوئی چیز پبلک میں پیش کرتا ہے، وہ پوری تیاری سے پیش کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس پر "پہنچے ہوؤں" کی ایکسرے جیسی نگاہیں پڑیں گی۔ "کاتا اور لے دوڑے" کا وہاں گذر نہیں۔ یورپ والوں پر زندگی کے ہر سمت سے حملے ہوئے ہیں اور انھوں نے زندگی کا ہر حربے سے مقابلہ کیا ہے۔ اس حملے اور مقابلے سے ان کی زندگی کا کوئی پہلو خالی نہیں ہے۔ اس سے ان کی نظر میں گہرائی، شعرو ادب میں صلابت اور شائستگی اور فن میں پختگی اور معنویت آگئی ہے۔ انھوں نے زندگی کو کسی واسطے سے دیکھا یا پرکھا نہیں ہے بلکہ زندگی کے آشوب سے ان کا براہ راست سابقہ رہا ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ سہل،سطحی اور تفریحی امور میں یورپ کی پیروی کرنا اور اس کی ریاضتوں سے منھ موڑنا ہمارے لیے کسی طرح جائز نہیں۔ یہ ہمارے لیے نہایت درجہ خطرناک ہے۔

جو لوگ لکھنے کے ہنر سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ ایک ہی بات کو اول درجے کا انشا پرداز لکھے گا تو وہ کیا چیز ہوگی اور اسی چیز کو دوسرے اور تیسرے درجے کے انشا پرداز لکھیں گے تو وہ کیا ہو جائے گی، نہ صرف پرداخت کے اعتبار سے بلکہ اثر کے اعتبار سے بھی۔ یورپ کی ہر قسم کی تصانیف کا تھوڑا بہت حصہ میری نظر سے گذرا ہے۔ اردو تصانیف کا تھوڑا ہی حصہ ایسا ہوگا جو میری نظر سے نہ گذرا ہو۔ بحیثیت مجموعی دونوں میں بڑا فرق ہے، دونوں کی ذہنی سطح میں بین تفاوت ہے۔ ہر ملک کے آئین کا مدار اس ملک کے باشندوں کے آئینی احساس یا شعور پر ہوتا ہے، مثلاً وحشیوں کو پارلیمنٹری اداروں کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ یہی اصول شعر و ادب کا ہے۔ ایسے لوگوں کو جو اپنے نفس یا قلم پر قابو نہیں رکھ سکتے ، سوشل ذمے داریوں کا احساس نہیں رکھتے، ان کو کچھ اور نہیں تو جنسیات جیسے نازک اور پرخطر مضامین و مسائل پر اظہار خیال کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ درندوں یا جراثیم کو انھیں لوگوں کی نگرانی میں دینا چاہیے جو ان پر اور اپنے آپ دونوں پر قابو پانے یا رکھنے کے اہل ہوں۔

ہندوستانی سنیما اور تھیٹر کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ادب اور معاشرت کی ترقی میں یوں مفید نہیں ہیں کہ یہ کمپنیاں خدمت نہیں کرنا چاہتیں، روپے کمانا چاہتی ہیں۔ عوام کی سیرت اور ذوق کو سدھارنے ، سنوارنے اسے ان کا کوئی سروکار نہیں، جو مصنف ان کمپنیوں کے لیے کوئی چیز تصنیف کرتے ہیں، وہ عوام کی سطح پر اترنے کے لیے مجبور ہو تے ہیں اور چار وناچار وہی کرتے ہیں جو سنیما تھیٹر کے منیجر چاہتے ہیں۔ بے تکے قصے، مہمل زبان، چٹ پٹے اشعار مطربی و مسخرگی ،بوس وکنار، دھول دھپا، توڑ پھوڑ، گالی گلوچ، غرض اسی قسم کی خرافات، کہیں کم کہیں زیادہ۔ اکثر نئے شاعر اور ادیب بھی اسی پر اتر آئے ہیں، اس لیے کہ اس میں نفع ہے۔ چونکہ عوام اسی قسم کی چیزوں سے خوش ہوتے ہیں، اس لیے ان سے اسی طور پر نفع کمایا جا سکتا ہے۔ عوام سستی اور کافی مسکرات چاہتے ہیں، ادیب سستی اور کافی شہرت چاہتا ہے، "مابخیر شما بسلامت۔"

کوئی حرف گیری کرے تو کہتے ہیں، ہم جمہور کے آدمی ہیں، جمہور کے لیے ہیں، اور جمہوری تفریح یا تعلیم کا سامان بہم پہنچاتے ہیں، "بورژوا" سے ہم کو کوئی سروکار نہیں بلکہ ہم اس کا قلع قمع کردینا سب سے بڑی خدمت سمجھتے ہیں۔ اگر اصلاح عوام اسی کو کہتے ہیں تو پھر بڑے بڑے صنعتی شہروں میں کیا برائی ہے جہاں کارخانوں ہی سے قریب شراب خانے اور قحبہ خانے ہوتے ہیں، جہاں شام کو تھکے ہارے مزدوردن بھر کی مزدوری شاہد و شراب کی نذر کردیتے ہیں، اور دنیا مافیہا سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔ ان معصوم یا مریض ادیبوں کو کون بتائے کہ عوام آپ کی نفسیاتی تحلیل کو نہیں سمجھ سکتے، وہ نفسیاتی ترغیب کی زد میں ہوتے ہیں۔ مزدور اور اہل حرفہ کو نہ اتنی فرصت ہوتی ہے اور نہ اتنی استعداد کہ وہ آپ کے افسانوں یا نظموں کے چھپے ہوئے کمالات پر غور کرسکیں یا بقول غالب ع "آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا" کے رمز سے کبھی واقف ہو سکیں۔ وہ تو صرف شراب اور عورت کو دیکھتے ہیں جن سے آپ کا کلام ملوث یا مزین ہوتا ہے۔

انقلاب دوستی یا ترقی پسندی کے یہ معنی کب ہوئے اور کیوں کر ہوئے کہ فسق و فواحش اور قتل و غارت گری ہی زندگی کا حاصل ہے؟ یہ کیسا آرٹ ہے، کون سا ادب ہے اور کس قماش کی زندگی ہے جس کا مرکزی اور بنیادی تصور ، فساد و فحاشی ہو؟ لکھنے کا کام میں نے بھی کیا ہے اور اس وادی کے بہت سارے نیچ اونچ اور پیچ و خم سے گذرا ہوں اور اب بھی گذر سکتا ہوں۔ میرے جیسے اور مجھ سے بہتر لوگ بھی موجود ہیں۔ میں انشا پردازی کی پیغمبری اور پتے بازی دونوں دیکھی ہیں اور دونوں کو سمجھتا ہوں۔ فحاشی اور عریاں طرازی نہ کوئی ادب ہے نہ کوئی آرٹ، اور نہ کوئی زندگی۔ میں ادب، آرٹ اور زندگی سب کو علاحدہ علاحدہ اور بحیثیت مجموعی بھی صرف سلیقۂ شرافت اور سرفروشی سمجھتا ہوں، حسن بن صباحیت نہیں قرار دیتا، (حسن بن صباحیت کی ترکیب پر نہ جائیے، حسن بن صباح سے ڈریے) کہ آپ نوجوانوں کو سستا اور تیز نشہ پلا کر مصنوعی جنت کی سیر کرائیں اور چن چن کر بھلے مانسوں کا قلع قمع کرادیں۔ صوفیائے کرام ہی نہیں، انشا پرداز اور شاعر کے ہاں بھی شریعت اور طریقت کی کارفرمائی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح نام نہاد صوفیا نے "شریعت" کو نظر انداز کر کے "طریقت" کو فروغ دیا ہے اور اس طرح تصوف کو رسوا کیا، اسی طرح جدید ادب کے اکثر حامیوں نے انشا پردازی کی شریعت سے منھ موڑ کر صرف طریقت کو فروغ دیا اور انشا پردازی کی آبرو ریزی کی۔

میرا عقیدہ ہے کہ فحش ہی نہیں، ہر بات اس طور پر کہی جا سکتی ہے کہ مذاق سلیم پر بار نہ ہو اور کسی کے دل پر ٹھیس نہ لگے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں شاعر اور غیر شاعر، ادیب اور غیر ادیب ایک دوسرے سے علاحدہ اور ایک دوسرے سے ممتاز ہوجاتے ہیں۔ شاعر کا کمال یہی نہیں ہے کہ وہ ایسی بات کہے جہاں دوسروں کا ذہن نہ پہنچ سکا ہو، اس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ اس بات کو اس انداز سے اور ایسے موقع پر کہے کہ وہ بات اس سے بہتر طور پر کہی یا پیش نہ کی جاسکتی ہو۔ یہ بات نہ ہوتی تو سوسائٹی میں شاعر کو وہ درجہ نصیب نہ ہوتا جس پر بجا طور پر وہ ہمیشہ فائز رہا ہے۔

محض بربنائے مثال قاضی عبدالغفار کی مشہور تصنیف "لیلیٰ کے خطوط" اور سعادت حسن منٹو کے افسانے لے لیجیے۔ میں دونوں کو ترقی پسند ادیبوں کے زمرے میں رکھتا ہوں۔ سوسائٹی میں جنسی اشتہا کی تسکین کا جو وسیلہ عورت کو قرار دیا گیا ہے، اس کو دونوں بیان کرتے ہیں۔ قاضی عبدالغفار عورت کی روح کا کرب اور اس کی بغاوت بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں اور جو چیز پیش کرتے ہیں، اس میں آرٹسٹ کا "لہو ترنگ" یا "رنگ" جھلکتا ہے۔ منٹو عورت کے بیان میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ وہ عورت کی زبونی اور درماندگی سے اپنی انشا پردازی کی دکان سجاتے ہیں۔ کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ مشتبہ متاع چور بازار میں بیچنا بھی چاہتے ہیں اور اسی نوعیت کا مال چور بازار سے خرید کر اصلی بازار میں لانا چاہتے ہیں۔ آپ نے بعض بزرگوں کو دیکھا ہوگا ، وہ ایک فرضی یتیم خانے کے نام سے چھوٹے چھوٹے بچوں کو پھٹے پرانے کپڑے پہنا کر اور فلاکت و بے بسی کا سوانگ رچا کر، کوچہ و بازار میں لیے پھرتے ہیں، کہیں خود روتے گاتے ہیں اور کہیں ان بچوں کو رلاتے گواتے ہیں۔ یتیم اور یتیمی کی اس نمائش کا مقصد صرف نفع کمانا ہوتا ہے ، نہ یہ کہ ان غریبوں کی حالت کو بہتر بنایا جائے۔

بحوالہ :
["نیا ادب میری نظر میں"، مرتب: آغا سر خوش دہلوی، ہندوستان پبلشرز، دہلی ، 1944]

The structure & mechanism of modern literature.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں